اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن عزت الرشق نے کہا ہے کہ قبلہ اول کو صہیونیوں کی جانب سے منظم حملوں کا سامنا ہے۔ ان حملوں کی روک تھام اور مسجد اقصیٰ سمیت ملک بھر میں موجود تمام اسلامی اور مسیحی مقدسات کے دفاع کے لیے متفقہ قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔
عزت الرشق نے ان خیالات کا اظہار مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
ایک سوال کے جواب میں عزت الرشق کا کہنا تھا کہ قبلہ اول کا دفاع تنہا فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے تمام مسلمان اور عرب ممالک، مسلمان حکومتوں اور اقوام کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھی بری الذمہ قرارنہیں دیا جاسکتا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے سے اسرائیلی حکومت اور انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی تقسیم کی سازشیں تیز کردی ہیں اور مذہبی رسومات اور عبادت کی آڑ میں قبلہ اول کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے ہر طرح کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
عزت الرشق کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو سوال جواب کی شکل میں ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ مسجد اقصیٰ المبارک پر یہودی آباد کاروں کے حملوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عزت الرشق:۔ قبلہ اول پر یہودی حملے اور مقدس مقام کی بے حرمتی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سے سرزمین فلسطین پر صہیونی غاصب ریاست کا وجود عمل میں آیا ہے قبلہ اول کے خلاف سازشیں صہیونیوں کا اہم ترین ہدف اور مقصد رہا ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ قبلہ اول پر حملوں کے طریقہ کار اور طریقہ واردات میں تبدیلی بھی آتی ہے۔ اسرائیل ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قبلہ اول نقصان پہنچاتے ہوئے بیت المقدس اور فلسطین کے دیگر شہروں میں موجود تمام مقدس مقامات کی تاریخی شناخت ختم کرنا چاہتا ہے۔ بیت المقدس کی شناخت مٹانا صہیونی ریاست کا خاص ہدف ہے۔
تازہ سازشوں میں اضافہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیل قبلہ اول کو زمانی اور مکانی اعتبار سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ مذہبی رسومات کی ادائی کی آڑ میں اسرائیل جو کھیل کھیلنا چاہتا ہے وہ نہایت خطرناک ہے۔ صہیونی حکومت نے انتہا پسند یہودیوں کو اس لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے تاکہ قبلہ اول کی جگہ مذموم ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی راہ ہموار کی جاسکے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ کیا خطے میں جاری شورش کا قبلہ اول پر یہودی حملوں سے کوئی تعلق ہے؟۔
عزت الرشق:۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ صہیونی ریاست مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور عالمی و علاقائی توجہ ہٹ جانے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔ عرب ممالک چونکہ اپنے اندرونی معاملات میں الجھ کر رہ گئے ہیں جبکہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مسلمان اور عرب ممالک کی عدم توجہی صہیونیوں کی قبلہ اول کے خلاف ریشہ دوانیوں کو آگے بڑھانے کا ایک اہم موقع سمجھا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ کئی اور اسباب بھی یہودیوں کو قبلہ اول پر حملوں کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل بیت المقدس اور مغربی کنارے میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی بھی مکمل خاموش ہے اور کہیں سے حرف احتجاج بلند نہیں کیا جارہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر فلسطینی سیاسی کارکنوں گرفتار کرتے اور انہیں جیلوں میں بند کررہے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جنہوں نے اندرون فلسطین سے بھی مسجداقصیٰ سے توجہ ہٹا دی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ حماس اسرائیلی زیادتیوں سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل رکھتی ہے؟
عزت الرشق:۔ میرے خیال میں ہمیں قبلہ اول سمیت ملک بھر میں موجود تمام اسلامی اور مسیحی مقدسات کے دفاع کے لیے ایک ہمہ جہت اور متفقہ قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے مغربی کنارے میں سیاسی کارکنوں پر تشدد کا سلسلہ بند نہیں کرتے اور اسرائیل سے فوجی تعاون ختم نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ قبلہ اول کے دفاع کے لیے آج تک عرب اور مسلمان ملکوں کی جانب سے جتنے بھی وعدے کیے گئے ہیں انہیں پورا نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ہونے والے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ عالمی برادری اور عالمی ادارے بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری ادا کریں۔ قبلہ اول مسجد ایک مسجد ہی نہیں بلکہ یہ عالم اسلام کا ایک قدیم تاریخی تہذیبی ، سیاسی اور ثقافتی مرکز ہے اور اس کا دفاع بھی پوری مسلم امہ کو کرنا ہوگا۔