مصری حزب اختلاف کے جائز مطالبات کے باوجود سیکولر جماعتوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں اسلام پسند سیاسی جماعتوں کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ ان کا کوئی اتحاد یا انتخابی گٹھ جوڑ بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ اخوان المسلمون کے خلاف سیکولر جماعتوں کے نام نہاد اتحاد میں ایسے عوامل جمع ہو گئے ہیں جن کا خود سیاسی ایجنڈے پر متفق ہونا ممکن نظر نہیں آرہا۔
ابھی تک یہ اتحاد خود کو متحد اور ہمخیال باور کرانے میں کوشاں ہے، تاہم یہ ایسے مختلف الخیال عناصر کا مجموعہ ہے جو اسلام پسندوں کی مخالفت میں قوم کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ ایک ہیں تاکہ سیکولر طبقے کی حمایت برقرار رکھی جا سکے۔ اتحاد میں جمال عبدالناصر کے پیروکار شکست خوردہ صدارتی امیدوار حمدین صباحی اور الٹرا ماڈرن آزاد خیال محمد البرادعی کی شمولیت اسے بے جوڑ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
ملٹن نواز سیاسی فلسفے کے پرچارک البرادعی کو نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انہیں جمال عبدالناصر کے خیالات بھاتے ہیں۔ محمد البرادعی کے غیرعلانیہ خیالات کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو وہ مصری معاشرے کے لئے انتہائی اجنبی اور غیر مانوس معلوم ہوتے ہیں۔
البرادعی کی مصر میں بدھ مت اور ہندؤں کی ناپید آبادی کے لئے عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی گستاخانہ تجویز دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کسی روز ہم جنس پرستی، سول میرج اور خواتین کو ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے جیسے قابل اعتراض معاملات کی وکالت بھی شروع کر دیں۔ بظاہر مغربی اقدار میں رچے بسے البرادعی کے نظریات عرب حتی کہ مصری معاشرے میں کسی طور پنپ نہیں سکتے۔
باہمی تعلقات اور سیاسی وجوہات کی بنا پر نیشنل سالویشن فرنٹ میں البرداعی کے شریک رہنما اس پہلو کو تشویش بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کی آزاد خیالی کا پنڈورہ باکس بیچ چوراہے پھوٹ جائے۔ نیشنل سالویشن فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ مصری گلی کوچوں میں جاری احتجاج ختم کرانے سے پہلے حکومت ان کے متنازعہ مطالبات کی طویل فہرست کو من و عن تسلیم کرے۔
حزب اختلاف حال ہی میں منظور کئے جانے والے دستور کے حوالے سے بہت شور مچا رہی ہے۔ دستور کے ایماندرانہ مطالعے میں آپ کو اس میں مصری شہریوں کے حقوق اور وقار کی ناقابل قبول اور خوفناک خلاف ورزی کا شائبہ تک نہیں ملے گا۔
اپوزیشن کے ہنگامہ خیر واویلے کی حد درجہ متعصب میڈیا پر گردان بھی انتہائی نامناسب ہے۔ المختصر یہ کہ اصل مسئلہ دستور نہیں ہے بلکہ مظاہروں کے ذریعے اپوزیشن کا غیرعلانیہ طور پر بیلٹ باکس کی حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار ہے ۔ ان کے لیے یہ امر ہی تکلیف دہ ہے کہ وہ اسلام پسندوں کو انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آتا دیکھ رہے ہیں۔
زمینی حقائق حزب اختلاف کے اس دعوی کی نفی کرتے ہیں کہ اخوان مصر میں فاشسٹ طرزحکومت کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج کا مصری اپنی 5000 سالہ مصری تاریخ میں پہلی بار حقیقی جمہوری اور شہری آزادی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ منتخب سیاسی قائدین کو "ہٹلر” اور "نازی” کے خطابات سے نوازا جا رہا ہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے۔ ایک غریب مصری کو صدر مبارک تک رسائی کی کوشش کے جرم میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مقتول آمر مطلق کو اپنی عرضداشت پیش کرنا چاھتا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہزاروں مصری مظاہرین نے قاہرہ صدارتی محل کے باہر صدر مرسی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین صدر سے فوری طور پر اقتدار چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کیا ایسا مصری تاریخ میں ممکن تھا؟۔ آخر یہ لوگ کون سا سیاسی کلچر چاہتے ہیں؟۔ کیا ایک جمہوری صدر کو منتخب ہونے کے صرف چند ماہ بعد اس طرح اقتدار چھوڑ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟۔ کسی مہذب اور جمہوری ملک میں ایسا تصور ممکن ہے؟۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہزاروں امریکی وائٹ ہا ؤس کے گرد جمع ہوں اور صدر اوباما کے خلاف اقتدار چھوڑ دو کے نعرے بلند کرتے ہوے پتھروں اور آتشیں ر بموں کی بارش کر دیں۔ یہ سب صدر مرسی حکومت کی سیاسی برداشت اور تحمل کی بہترین مثال ہے۔
صدر مرسی سیاسی مخالفین کی نظر میں اچھے مصری صدر نہیں ہیں۔ لیکن وہ ملک کے منتخب اور دستوری صدر ہیں۔ انہیں اپنی مدت صدارت مکمل کرنے کا دستوری حق حاصل ہے۔ جہاں ہزاروں مظاہرین صدر مرسی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں وہاں ایک خاموش اکثریت ابھی تک انہیں مہلت دے رہی ہے۔ اس کی تصدیق حالیہ دستوری ریفرنڈم سے ہو گئی ہے جس میں 65 فی صد اہل ووٹرز نے دستور کے مجوزہ مسودے کے حق میں ووٹ ڈال کر صدر مرسی کی عوامی مقبولیت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ دو ماہ قبل ہی اپوزیشن کا اندازہ تھا کہ صدر مرسی کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ اس سیاسی اندازے نے حزب اختلاف کے قائدین کو دستور پر ہونے والے ریفرنڈم میں حصہ لینے پر آمادہ کیا لیکن ریفرنڈم کے نتائج ان کے لیے سخت مایوسی اور ہزیمت کا سبب بنے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مصر کی معاشی صورتحال بہت ابتر ہے۔ عام شہری ملک میں جاری سیاسی اور معاشی اصلاحات کے عمل کی سست روی پر سخت مایوسی کا شکار ہے۔ حزب اختلاف کی انتشار پسندانہ سرگرمیاں خصوصا آے روز کی احتجاجی سیاست مصر کے روشن مستقبل کے راستے میں رکاوٹ اور شدید خطرے کا موجب ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مصر کا مخصوص سیکولر طبقہ اخوان حکومت کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے۔ چاہے اس کی مصری عوام کو کتنی ہی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔ راقم الحروف کی رائے میں حزب اختلاف کے منفی طرزعمل اور غیر جہوری سرگرمیوں نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ مصر کی سیکولر حزب اختلاف کو اخوان کی کامیابی قطعی پسند نہیں ہے۔ اس خدشے کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے کہ اخوان المسلمون کی ناکامی یا حکومت کی تحلیل مصر میں جاری جمہوری اور دستوری عمل کی ناکامی ہوگی۔ جس کے مضمرات میں ہر سیاسی فریق حصہ دار ہو گا۔ اس کا فائدہ نادیدہ قوت لے گی۔ ان عناصر کو ہر قیمت پر روکنا ہو گا کیونکہ یہ لوگ مصر کے ہی نہیں اپنے بھی دشمن ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ حزب اختلاف کو ہر صورت صدر کو پورا موقع دینا چاہیے۔ حزب اختلاف کی اس حرکت کا اخلاقی طور پر دفاع نہیں کیا جا سکتا کہ صدر مرسی کے خلاف انتشار پھیلایا جائے۔ اسے کام کرنے سے روکا جائے اورپھر اس پر الزام لگایا جائے کہ وہ مصر کو درپیش مسائل پر قابو نہ پا سکے۔ بدقسمتی سے واقعی اپوزیشن ایسا ہی چاہ رہی ہے۔ اسے مصر کی ترقی اور خوشحالی سے زیادہ اخوان کی ناکامی سے غرض ہے۔
راقم الحروف کی ایماندارنہ رائے میں نیشنل سالویشن فرنٹ کے متعدد مطالبات کم و بیش ‘شجر ممنوعہ’ کے درجے میں آتے ہیں، جن کا مقصد مصر میں سیاسی اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے آنکھیں چرانا ہے۔ اپوزیشن کی چند اہم شخصیات "سیاسی اسلام” کی اصطلاح اس طرح استعمال کر رہی ہیں جیسے یہ اسلام پسندوں کے لیے قابل نفرت اور قابل شرم ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ اصطلاح نہ تو اخوان کی تخلیق کردہ ہے اور نہ ہی اس کی اساس قرآن و سنت پر رکھی گئی ہے۔ اس کے باوجود کوئی مسلمان "سیاسی اسلام” کو محض اصول کے طور پر قطعی رد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اسلام کو رد نہ کرے۔ کوئی بھی اسلام کے مختلف طریقہ کار، رویہ، طرز عمل اور تشریحات کے ساتھ اختلاف کر سکتا ہے۔ لیکن ہم اپنے آپ کو بحثیت ایک مسلمان عقیدے کے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ہم مغرب کی نظر میں زیادہ قابل قبول اور زمانے میں زیادہ مغربی نظر آئیں۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔