اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر آٹھ روزہ جنگ میں فلسطینیوں نے ماضی کے برعکس لڑائی اور بات چیت کا ایک منفرد تجربہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے ماضی کی نسبت اپنے کم جانی نقصان کے عوض صہیونی دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر اپنی جنگی صلاحیت سے آگاہ کیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کےمطابق حماس کے لیڈر نے ان خیالات کا اظہار ترکی کی خبررساں ایجنسی’’اناطولیہ‘‘ کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو لامحالہ محاذ جنگ میں بھی آپ کی پوزیشن مضبوط ہونی چاہیے۔ فلسطینی مجاہدین اور حماس کے جانثاروں نے دشمن کو محاذ جنگ میں شکست دی اور تنظیم کی قیادت نے سیاسی میدان میں اپنی شرائط پر جنگ بندی کرا کے دشمن کو سیاسی میدان میں شکست سے دوچار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں بیت المقدس کی آزادی، پورے وطن کی آزادی، حق واپسی کو تسلیم کرانے اور تمام قومی مسلمہ حقوق کےحصول کے لیے پہلے میدان جنگ میں فتح حاصل کرنا ہو گی۔ دشمن سے اپنی شرائط پر اسی وقت بات کی جا سکتی ہے جب محاذ جنگ میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط ہو۔خالد مشعل کا خصوصی انٹرویو اردو قارئین کے لیے تفصیلاً پیش کیا جا رہا ہے۔
سوال: غزہ کی پٹی پر صہیونی فوج کی مسلط کردہ آٹھ روزہ جارحیت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مشعل:۔۔ اس میں دو رائے ہرگز نہیں ہیں کہ غزہ کی پٹی پر آٹھ دن تک اسرائیلی فوج نے جس رعونت اور تکبر کے ساتھ فلسطینیوں کا قتل عام کیا، اور اس کےبعد مغربی کنارے میں حماس کے کارکنوں اور آزادی کے متوالوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا ہے وہ ایک خوفناک جارحیت ہے۔ لیکن اس کیفیت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی جرات اور بہادری بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ فلسطینیوں نے دشمن کو اس کی طاقت کے باوجود منہ توڑ جواب دیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری کی قاتلانہ حملے میں شہادت ایک ایسا سنگین جرم تھا جس کا فوری جواب دیا جانا ناگزیر تھا۔ الجعبری جیسے جری جوان ہمارے نہ صرف بہترین دوست تھے بلکہ ایسے محب وطن شہری تھے جنہوں نے اپنی قیادت کے ساتھ کبھی بھی بے وفائی نہیں کی ہے۔ فلسطینیوں کی جرات مندی اور منہ توڑ جواب کے بعد صہیونی وزیراعظم کے اندر کا شیطان باہر آگیا اور انہوں نے غزہ کی پٹی پربحری، بری اور فضائی حملے شروع کردیے لیکن اللہ نے دشمن کی چالوں کو انہیں پر الٹا دیا۔ دشمن کو غزہ جنگ کے بارے میں جو اندازے تھے وہ تمام غلط ثابت ہوئے۔ اسرائیل کو اندازہ تھا کہ غزہ کی پٹی پرحملہ اسے مفت میں نہیں پڑے گا بلکہ اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ تاہم صہیونی ریاست نے جو قیمت چکائی ہے وہ اس کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
نیتن یاھو نے یہ جنگ چھیڑی ہی اس لیے تھی تاکہ وہ آئندہ کے انتخابات کے لیے ووٹ بنک میں اضافہ کر سکے۔ تاہم بھلا ہو عالمی برادری کا جس نے نیتن یاھو کو جنگ پر مجبور کر دیا۔ دنیا نے دیکھ لیا یہ جنگ صہیونی دشمن کو بہت مہنگی پڑی ہے اور نیتن یاھو جو نتائج حاصل کرنا چاہتے بھی تھے وہ پورے نہیں ہوسکے ہیں۔ حماس نے دشمن کے ساتھ جنگ بندی میں نہ صرف فائرنگ روکنے کی بات شامل کی بلکہ غزہ کی تمام بیرونی رہداریاں کھولنے کی شرط بھی شامل کی، حماس اور فلسطینیوں کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی میں ترکی، مصر اور دیگر عرب اور اسلامی ملکوں کا بھی ہاتھ ہے۔
سوال: رواں سال کی مزاحمت سنہ 2008ء کی مزاحمت سے مختلف تھی۔ آپ کے خیال میں مجاہدین نے خود کو ماضی کی نسبت کیسے اور کتنا زیادہ طاقتور بنایا ہے۔ حالانکہ غزہ کی پٹی کے محاصرے نےانہیں آزادانہ کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا؟
مشعل:۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ مجاہدین نے ماضی کے تجربات سے سیکھا، اس عمل کو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتر کیا، زیادہ موثر اسلحہ حاصل کیا، طاقتور راکٹ تیار کیے اور ان کے استعمال کی مکمل تربیت حاصل کی۔ مجاہدین کی کامیابی کے پیچھے انہی چیزوں کا ہاتھ ہے۔
سوال: لیکن غزہ کی پٹی کا محاصرہ تو اب بھی برقرار ہے اور یہ کب تک جاری رہے گا؟
مشعل:۔۔ میرے خیال میں جس طرح لوگ روز مرہ زندگی کے لیے ضروریات کا انتظام کرتے ہیں اور مشکلات پر قابو پا لیتے ہیں، اسی طریقے سے عسکری میدان میں بھی دشمن پرغلبے کے لیے تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ تیاری اسلحہ سازی ہے۔ مجاہدین نے ایسے ہی کیا۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسان اپنی عسکری صلاحیت بھی بہتر بناتا رہتا ہے۔ آپ فطری طور پر فلسطینیوں کے اسلحہ کو دشمن کے اسلحہ سے تقابل نہیں کر سکتے لیکن اصول یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ’’و اعدوا لھم ماستطعتم‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلحہ تیار رکھنے کا حکم دیا اور فتح اور نصرت اور شکست اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔
مجاہدین نے ماضی کی جنگوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک انسان کی حیثیت سے ہم سے غلطیاں بھی ہوتی رہی ہیں، ہمارے شہید ساتھی احمد الجعبری کہا کرتے تھے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
سوال:۔۔ جنگ بندی کے بارے میں بات چیت کب شروع ہوئی؟
مشعل:۔۔ ایسے لگ رہا تھا کہ یہ جنگ طول پکڑے گی کیونکہ صہیونی دشمن کے عزائم بھی خطرناک تھے۔ نیتن یاھو کا خیال تھا کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کو جلد ہی ختم کرلے گا۔ اس نے حماس کے خلاف جارحیت کا آغاز احمد الجعبری پر قاتلانہ حملے سے کیا لیکن صہیونی دشمن کو فلسطینیوں کی مزاحمت کا مزہ ابھی نہیں ملا تھا۔ جنگ کے تیور دیکھتے ہوئے مصر اور دیگر عرب ممالک نے اپنی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ اسرائیل کو خدشات اس وقت لاحق ہوئے جب فلسطینیوں کے راکٹ اسرائیلی علاقوں میں جا گرے لیکن فلسطینی مزاحمت کاروں کو صہیونی دشمن کی بری فوجی کارروائی کا کوئی خوف نہیں تھا۔
نیتن یاھو کےسامنےخود کو ذلت سے بچانے کےلیے غزہ کی پٹی میں بری کارروائی کا واحد آپشن رہ گیا تھا لیکن بری کارروائی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ فضاء سے بمباری کرنا تو صہیونی فوج کے لئے آسان ہو گا مگر دشمن زمینی کارروائی سے ہمیشہ کنی کتراتا ہے۔ یوں بری حملہ صہیونی وزیراعظم کے مستقبل کو تاریک کرنے کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ اس دوران ترکی، قطر اور مصر کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں بھی تیز ہوگئی تھیں، نیتن یاھو میں اسی میں عافیت سمجھی کہ اب حماس کی شرائط ہی پر جنگ بندی کرلی جائے تو کم سے کم سیاسی مستقبل کوداؤ پر لگانے سے بچایا جا سکتا ہے۔
سوال:۔۔ جنگ بندی میں کون کون سے فریق موثر کردار ادا کررہے تھے اور مذاکرات کا عمل کیسے چل رہا تھا؟
مشعل:۔۔ پچھلے ہفتے کے روز قطر، مصر اور ترکی کی قیادت جمع تھی، ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن، وزیرخارجہ احمد داؤد اوگلو، امیر قطر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی اور مصر کی مرکزی قیادت نے جنگ بندی کے بارے میں موثر کردار ادا کیا۔
ترکی، قطر اور مصر کی قیادت کے اجتماع کا مقصد غزہ کی پٹی میں صہیونی جارحیت کو جلد از جلد ختم کرانا تھا۔ اس دوران ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے امریکیوں سے بھی رابطے جاری رکھے، خفیہ ذرائع سے اسرائیلیوں نے بھی ترکی سے رابطے شروع کر دیے تھے۔ صہیونی دو چینلز سے ترکی سے رابطے میں تھے۔ اسرائیلیوں کی خواہش تھی کی جنگ بندی جلد از جلد ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترکی نے اس موقع پر فعال کردار ادا کرتےہوئے صہیونیوں کو بھی حماس کی شرائط پر قائل کر لیا۔ حماس کی قیادت کے بھی ترکی کے ساتھ رابطے تھے۔ یوں یہ مصر، ترکی اور قطرپرمشتمل ایک تکون تھی جو جنگ کے بحران سے نکلنے کے لیے دن رات کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔
سوال:۔۔ عرب ممالک کا موقف آپ کے لیے حیران کن ہے؟
شعل:۔۔ ممکن ہے عرب ممالک کا فوری ایکشن اور حرکت میں آنا اسرائیل کے لیے ایک حیرت کی بات ہو لیکن ہمارے لیے یہ حیرت کی بات نہیں تھی۔ کیونکہ عرب بہاریہ نے ہمیں ایک ایسا یقین دلا دیا ہے کہ ہم عرب قیادت کے بارے میں جس طرح سوچتے ہیں، ہمیں اسی طرح کا ردعمل ملتا ہے۔ عرب وزراء خارجہ جس تیزی کے ساتھ عرب لیگ کے اجلاس میں قاہرہ پہنچے اور انہوں نے غزہ کی صورت حال پر فوری اقدامات کا فیصلہ کیا وہ ہماری توقع کے عین مطابق تھا۔
فلسطینیوں کی کامیابی کے پس پردہ عرب اور اسلامی ممالک کی جانب سے ایک حوصلہ افزا ردعمل تھا، جو فلسطینیوں کو میدان جنگ میں بھی جرات مہیا کررہا تھا۔ صہیونی دشمن کے خلاف حماس نے ٹھوس اور سخت موقف اختیار کیا تو اس کے پس پردہ بھی عرب ممالک کی مساعی تھیں اور وہ حوصلہ جو عرب قیادت کی جانب سے ہمیں ملا وہ تھا۔
سوال:۔۔ آپ نے صہیونی دشمن سے بالواسطہ مذاکرات میں اپنے جرات مندانہ موقف کا ذکر کیا۔ کیا آپ کا یہی موقف کسی موقع پر براہ راست مذاکرات میں بھی ہو سکتا ہے؟
مشعل:۔۔غزہ کی پٹی میں آٹھ روز کے دوران جو کچھ دیکھا گیا وہ ایک عمدہ مثال ہے۔ ایک جانب ہم سیاسی میدان میں جرات مندانہ موقف اپنائے ہوئے تھے اور دوسری جانب بے سروسامانی کے عالم میں ہونے کے باوجود مجاہدین دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔ ہماری دونوں میدانوں میں ایک ساتھ کامیابی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مزاحمت اور سیاسی عمل ساتھ ساتھ ہونے چاہیں بلکہ مزاحمت کو سیاست سے دو قدم آگے ہی چلنا چاہیے۔ کیونکہ مزاحمت ہی کے نتیجے میں ہم سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ میدان جنگ میں جتنی مزاحمت سخت ہوگی سیاسی میدان میں اتنا ہی جرات مندانہ موقف اپنایا جا سکتا ہے۔ اس بار ایک ہم نے یہ تجربہ کیا اور عملا یہ ثابت کیا ہے کہ میدان جہاد میں جرات مندی ہی سیاسی میدان میں جرات مندی کا عکس ہو سکتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ہم بیت المقدس کو بھی آزاد کرا سکتے ہیں اور پورے وطن کو دشمن سے چھڑا سکتے ہیں۔
فلسطینیوں کی مزاحمت کے حوالے سے یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک فلسطینی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے جرات مندی کا مظاہرہ نہیں کرتے اس وقت تک محاذ جنگ پر کامیابی کے امکانات کم رہیں گے۔ میں عرب ممالک اوعر اسلامی دنیا سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ فلسطینیوں کی فوجی میدان میں مدد کریں، تاکہ اس کے بعد سیاسی میدان میں مثبت نتائج سامنے لائے جا سکیں۔ غزہ کی پٹی میں مجاہدین مضبوط مزاحمت نہ کرتے تو سیاسی میدان میں بھی ہماری پوزیشن کمزور ہوتی۔
سوالِ: مزاحمت کے بارے میں آپ کے اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے؟َ
مشعلِ : فلسطینی اتھارٹی کے ہمارے بھائیوں کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ انہیں اس واقعے سے کچھ سبق ضرور ملا ہو گا۔ انہیں یہ اندازہ کر لینا چاہیے کہ صہیونی دشمن کے قبضے کا صرف اسی صورت میں خاتمہ ممکن ہے جب وہ مزاحمت کے ساتھ ساتھ محاذ جنگ کو بھی خالی نہ چھوڑیں۔ قوم کو بیدار کرنے کے اور انہیں دشمن کے خطرات سے اگاہ کرنے کا عمل تعطل کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔ ہم حقیقتا کوئی الگ الگ فریق نہیں ہیں لیکن تمام فلسطینی ایک ہی فریق اور گروپ کا حصہ ہیں۔ اس وقت ہمیں آپس میں مصالحت اور مفاہمت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جب تک مفاہمت نہیں ہوگی اس وقت تک فلسطینی دشمن سے اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے کسی بھی میدان میں جرات مندانہ جنگ نہیں لڑ سکتے۔
سوال:۔۔ مفاہمت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟َ
مشعل:۔۔ مفاہمت کا عمل جاری ہے، تاہم کبھی کبھی تعطل کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ غزہ کی پٹی میں مجاہدین کی کامیابی کے بعد ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے درمیان قربت کی فضاء پیدا ہوئی ہے۔ ہمیں اس فضاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مفاہمت کا عمل مکمل کر لینا چاہیے۔
سوال:۔۔ کیا مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لے کوئی عملی اقدامات کیے ہیں؟
حماس کو سیکیورٹی کے امور میں کچھ تحفظات ہیں، اس کے علاوہ فلسطین میں مخلوط حکومت اور فلسطینی اتھارٹی میں حماس کے کردار، پارلیمانی اور صدارتی انتخابات، تنظیم آزادی فلسطین کی تنظیم نو اور اس کے اندرون اور بیرون ملک نئے نمائندگان کا تعین جیسے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ حماس کا موقف ہے کہ تمام قومی اصولوں کی بنیاد مسلح مزاحمت پر رکھی جائے اور دشمن سے مذاکرات برائے مذاکرات کے ذریعے قوم کے ساتھ دھوکہ نہ کیا جائے۔
سوال:۔۔ غزہ جنگ کے بعد ہوئی جنگ بندی شہر کی ناکہ بندی کا حقیقی خاتمہ ثابت ہوگی؟
مشعل:۔۔ اسرائیل کے ساتھ طے پائی جنگ بندی معاہدے میں یہ شرط شامل کی گئی ہے کہ اسرائیل غزہ کی تمام بیرونی راہداریوں کو مکمل طور پر کھول دے گا، شہریوں کی نقل وحرکت اور سامان کی ترسیل پرپابندیاں اٹھائے گا۔ میرا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کی طرف یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس ضمن میں عرب اور اسلامی ممالک نے بھی ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ غزہ کی پٹی کی جنگی بنیادوں پر تعمیر نو بھی کی گئی ہے۔ رفح بارڈر کو بھی کھول دیا گیا ہے۔ امید ہےغزہ کی پٹی پرعائد دیگر اقتصادی پابندیاں بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔
سوال: اسرائیل سے فائر بندی کے معاہدے گذرگاہوں میں دوطرفہ نقل و حرکت کی اجازت بھی شامل تھی۔ حماس اس معاملے کو کس طرح کنٹرول کرے گی؟
مشعل:۔۔۔ کچھ گذرگاہیں غزہ اور اسرائیل کے درمیان ہیں اور کچھ غزہ اور مصر کے درمیان ہیں۔ ہم نے دونوں اطراف کی گذرگاہوں پر حماس کے کنٹرول کی بھی بات کی تھی۔ ہمیں امید ہے کہ ہم جلد اپنے اس مشن میں کامیاب ہو جائیں گے اور فلسطینی قوم کو خوشخبری سنائیں گے۔
جہاں تک ان گذرگاہوں پر کنٹرول کی بات ہے تو ہمارے پاس ایسے جری جانثار اور تربیت یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے یو فلسطین کی جانب سے ان گذرگاہوں کا بہتر انداز میں کنٹرول سنھبال سکتے ہیں۔ ہم اس سلسلے میں مسلم امہ سے بھی مدد کی اپیل کرتے ہیں اور مسلم دنیا کی جانب سے جو مدد مل رہی ہے اس میں اضافے کی بھی اپیل کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینیوں کی اپنے مقاصد اور نصب العین میں کامیابی کا واحد ذریعہ مسلم امہ کی مدد اور نصرت ہے۔ اسی کے ذریعے صہیونی دشمن کو ہرمحاذ پر شکست دی جا سکتی ہے۔
سوال: اسرائیلی انتخابات بھی قریب تر ہیں۔ آپ کیا سجھتے ہیں کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا کوئی خدشہ ہے؟
مشعل: ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ایسے لگتا تو نہیں ہے۔ لیکن دُشمن کی سازشوں سے ہمیں لاپرواہ بھی نہیں رہنا چاہیے۔ ہم ہرطرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ہرطرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیارہیں۔ دشمن نے اپنی جانب سے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کیا تو ہم بھی اس کے پابند ہوں گے اورصہیونیوں کی جانب سے معاہدہ توڑا گیا تو ہم اس کا پوری قوت سے جواب دیں گے۔
سوال: اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے غزہ کی پٹی میں ’’بادلوں کا ستون‘‘ کے نام سے آپریشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس آپریشن میں آئرن ڈوم کا بھی استعمال کیا گیا اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملے روکے گئے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مشعل:۔۔ نیتن یاھو اپنی قوم اور پوری دنیا کو اس آپریشن کے بارے میں مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت 70 فی صد عالمی رائے عامہ نیتن یاھو کی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے۔ جنگ کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے۔ ہم اس کے تناظر میں بات کرتے ہیں کیونکہ جنگ بندی حماس کی شرائط پر ہوئی ہے نہ کہ اسرائیل کی شرائط پر۔ اسرائیلی فوج نے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود فلسطینی تحریک مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کیا۔ انفرا اسٹرکچر تباہ کر دینے کے علی الرغم صہیونیوں کو ہماری شرائط ہی ماننا پڑی ہیں۔ اس لیے ہم نیتن یاھو کے دعوؤں کو نہیں مانتے ہیں۔
سوال:۔۔ جنگ میں آپ کو کس بات پر دکھ ہے؟
مشعل: جنگ میں قیمتی جانوں کےضیاع پردکھ ہے۔
سوال:۔۔ آپ کے خیال میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی اٹھ روزہ مزاحمت فلسطینیوں کے حقوق کے حصول میں کسی حد تک مدد گار ثابت ہو گی؟ کیا اس مزاحمت کا فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے معاملے پر کوئی اثر پڑے گا؟
مشعل: فلسطینی مزاحمت کاروں اور مجاہدین نے جس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ پوری دنیا میں فلسطینیوں کا چہرہ ایک بہادر قوم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ہمارے مطالبات بھی درست اور مبنی برحق ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ محض اقوام متحدہ میں جانے سے کام نہیں چلے گا۔ نیز یو این سے رجوع محض فرد واحد کی کاوش نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس اقدام میں تمام فلسطینی دھڑوں کی رائے کو شامل کیا جانا چاہیے۔ پھر عالمی سطح پر پوری مسلم دنیا اور اپنے ہم خیال ممالک کو اپنے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے ملانے کی تمام کوششیں بھی جاری رکھی جانی چاہئیں۔
سوال:آپ غزہ کا دورہ کب کریں گے؟
مشعل:۔۔ مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب میں اللہ کے حکم سے غزہ میں ہوں گا، غزہ کی پٹی میرا عزیز اور پیارا شہر ہے۔ اس وقت تک میرا دل مطمئن نہیں ہوگا جب تک میں اپنی آنکھوں سے اپنی ارض وطن کو دیکھ نہ لوں۔ میں جلد از جلد اس سرزمین پر جانا چاہتا ہوں جو مجاہدین کی سرزمین ہے۔
سوال:۔۔ کیا حماس قاہرہ میں اپنے دفاتر منتقل کرے گی؟
مشعل: حماس کے تمام عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ ہمارے مصر کے ساتھ پہلے ہی اچھے تعلقات ہیں اور یہ تعلقات مستقبل میں بھی برقرار رہیں گے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران مصر نے فلسطینیوں کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کیا ہے ہم اس پر فخرکا اظہار کرتے ہیں۔