جمعه 02/می/2025

اسرائیل، انسانیت کا مجرم

جمعرات 31-مئی-2012

یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی میڈیا کا بڑا حصہ شاید آسمانی مذاہب کی مخالفت کے طعنے کے خوف سےاسرائیلی جرائم کو منظر عام پر لانے سے پرہیز کرتا ہے۔ یورپ اور شمالی امریکا کے کروڑوں لوگ اب بھی یہودی ریاست کی برائیوں سے بے خبر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغرب میں لوگوں کی اکثریت اب بھی اس جھوٹ پر یقین کیے ہوئے ہے کہ اسرائیل شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے بنیادوں کی علمبردار ایک جمہوری ریاست ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسرائیلی انتہاء پسند اور ہٹ دھرم نمائندے صہیونی جرائم اور غلط کاروں کی توجیہ پیش کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ بدتر اور خوفناک ہیں جیسا کہ لوگ اسرائیل کے بارے میں سوچتے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ ادارتی ظلم و ستم، نسلی پرستی اور اپنے ہم وطن فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی کو قانون کے دائرے میں لانا یا قانونی دائرے میں لانے کی کوشش کرنا اسرائیل کی ایک عادت ہے۔

اسرائیلی پروپیگنڈے کے بے لگام گھوڑے اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے ہزاروں جھوٹ اور ہزاروں خوش نما نعرے سامنے لائیں گے۔ یہ لوگ ہولوکاسٹ، آشوٹز، برجن بیلسن، عیسائیت کی یہودی بنیاد اور دیگر کئی غیر متعلقہ مسائل بیان کرتے ہیں جس کا مقصد اسرائیلی کارروائیوں کی توجیہ بیان کرنا ہوتا ہے بلکہ زیادہ درست طور پر اس زمانے کی نازی طرز کی اس ریاست سے جڑے بدترین حقائق سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے۔

وہ پہلے سے غلط معلومات میں گھرے اور دھوکے میں مبتلا مغربی اقوام کو قائل کرنے کے لیے سچائی اور زبان کے ساتھ بدترین کھلواڑ کرتے ہیں اور مغرب کو یہ سمجھا دیتے ہیں کہ اسرائیل کیلئے ایسا ظالمانہ رویہ اپنانا اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

اس سب کے باوجود جو شخص سفید کو سفید اور کالے کو کالا کہنا چاہتا ہے ا سکے لیے سچائی بڑی سادہ رہتی ہے۔ درست اور غلط کی پہچان کا یہ عمل اگرچہ انتہائی مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کے اندر ایمانداری اور راست بازی کس حد تک ہے۔

میں یہ بات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اسرائیلی کی حمایت کرنے والوں کی اکثریت بدترین جھوٹوں کی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ یقینی طور پر بالکل اسی طرح ظلم اور برائی کا ساتھ دے رہے ہیں جیسے اسرائیلی امریکا کا ساتھ دے کر ایسا ہی کر رہے تھے۔

ہم اس افسوسناک حقیقت کو نہیں جھٹلاتے کہ خطے میں دیگر اسی حکومتیں بھی موجود ہیں جو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اپنے ہی ہم وطنوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں اور ان کی خونریزی کر رہی ہیں، تاہم ان حکومتوں کی جارحیت دوسروں کو چاہے کتنی ہی ترغیب دینی والی کیوں نہ ہو اس سے اسرائیل کا چہرہ خوبصورت نہیں ہو سکتا۔

اسرائیل ہزاروں لاکھوں لوگوں کو صرف اس وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ صرف اس لیے بنا رہا ہے کہ ان کا تعلق یہودی مقدس قبیلے سے نہیں ہے۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کی اراضی پر ڈاکہ ڈالا، ان کے گھرں کو تباہ کیا، گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کردیے، ان کے فصلیں نذر آتش کردی، ان کو ملک کے چاروں اطراف ہجرت پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ سات ہی ساتھ اس نے یہودی جمہوریت، اخلاقیات اور بہترین قابلیت کی پروپیگنڈا بھی کامیابی سے کیا۔

اس ہفتے لندن سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر سنہ 2012ء کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔

اس عالمی ادارے نے اسرائیل پر پرتشدد کارروائیوں، اذیت ناک ظلم و ستم، لوگوں کی نقل و حرکت روکنے، آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے، لوگوں کو بغیر کسی فرد جرم طویل عرصے تک زیر حراست رکھنے اور غزہ کی پٹی میں بسنے والے سولہ لاکھ فلسطینیوں کا ناجائز محاصرہ کرنے کا الزام عائد کیا۔

معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی انسانی حقوق حتی کہ بعض انتہائی ذمہ دار اور قابل اعتبار اداروں کی بظاہر اکیڈمک رپورٹیں بھی اسرائیلی ریاست کی بدصورتی کو مکمل طور پر سامنے لانے کے لیے ناکافی ہیں۔ حقیقی تجزیہ یہ ہے کہ اسرائیلی اس وقت نسل پرستی، فاشزم، ظلم اور دہشت گردی کی گہری دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ کچھ ماہ قبل اسرائیلی کیبنٹ کے ایک وزیر اعلان کر چکا ہے ’’ہم تو پہلے ہی ایک فاشسٹ ریاست ہیں‘‘

ستر کی دہائی اور اسی کی دہائی کے اوائل میں جب میں اوکلوہاما یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا جب باپٹزم سے تعلق رکھنے والے ایک عیسائی وزیر نے یہ بیان دیا تھا کہ خدا یہودیوں کی دعائیں اس لیے نہیں سنتا کیونکہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نہیں مانتے، اس بیان کے بعد یہودی حلقوں نے احتجاج تحریک چلا کر ایسا کہرام برپا کیا کہ اس عیسائی وزیر کو اپنے بیان پر معافی مانگنا پڑی۔

آج بھی اسرائیل میں ایسے معروف سیاست دان اور ممتاز یہودی مذہبی رہنما موجود ہیں جو غیر یہودیوں کو انسانی شکل میں پیدا ہونے والے گدھے قرار دیتے ہیں جن کی زندگی کا کوئی احترام نہیں اور انہیں کسی طرح کے انسانی وقار کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ بہت سے ایسی یہودی مذہبی پیشوا (ربی) ہیں جو اسرائیلی ڈاکٹرز کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہفتے کے روز ٹریفک حادثے کے زخمی ہونے والے کسی بھی غیر یہودی کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں اور اس کا علاج بالکل نہ کریں۔

حتی کے بعض ایسے یہودی ربی بھی موجود ہیں جو یہودیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ اگر کسی یہودی کو کسی انسانی عضو کی ضرورت ہو تو اس کے لیے کسی بھی غیر یہودی کو مارا جا سکتا ہے۔

بدقسمتی سے اسرائیل میں اس طرح کے گھٹیا اسکینڈلز پر بہت کم نظریں بلند ہوتی ہیں۔ یہ سب اس وقت ہورہا ہے جب یہودی رہنما معمول کے مطابق اسرائیلی رہنما ہر اسرائیلی جرائم  کا ذکر کرنے والے ہر شخص پر حسب سابق نفرت اور اخلاقی حدود سے تجاوز کا الزام لگا رہے ہیں۔

لیکن کیا ہوگا؟ جب تک امریکا، اسکی حکومت، کانگریس، میڈیا یہودیوں کے جیب میں ہیں انہیں خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انتہائی طاقتور اور بلیک میل کرنے والی یہودی لابی امریکی سیاستدانوں کو ایک ایسے سیاسی مہروں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو اسرائیل کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

لچسپ امر یہ ہے کہ اس سب کا اسرائیل پر بڑا گہرا اثر پڑا ہے۔ کچھ سال پہلے یہ افواہ گردش میں تھی کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے اس وقت کے وزیر خارجہ شمعون پیریز کو ایک موقع پر یہ کہ کر خاموش کرایا تھا ’’اسرائیل پر امریکی دباؤ کے بارے میں پریشان نہ ہو، ہم امریکی عوام اور ان احمق امریکیوں کو کنٹرول کرلیتے ہیں، سمجو اسے‘‘

اس سب کے باوجود اسرائیل کی حکمران اشرافیہ طبقہ ایسا رویہ اپناتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیلی جتنا جرائم پیشہ اور خونخوار ہوتا جائے گا، غیروں کے پیچھے چلنےوالے واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کی مدد اور حمایت میں بھی اضافہ ہوتا رہیگا۔

سیاسی سماجیات اور سیاسی نفسیات کے نقطہ نظر سے اس منفرد صورتحال کو بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تاہم امریکی تابعداری کی اس صورتحال کی صرف یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل یہودی دولت اور طاقت نے امریکی سیاسی ثقافت کو اس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ امریکا اب اس گندگی کے شرمناک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے جو یقینی طور پر کوئی بڑی ڈرامائی بات نہیں ہے۔

اس بات میں ذرہ بھر شک کی گنجائش نہیں ہے کہ فلسطینی عوام اس وقت تک خود کو نازی طرز کے صہیونی شکنجے سے آزاد نہیں کرا سکیں گے جب تک امریکا صہیونی دنیا کا بے دام غلام بنا رہے گا اور صہیونی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے گا۔

یہ خدشات بھی بجا ہیں کہ صہیونی قوتیں شاید جلد ہی چین کے ساتھ بھی اتحاد کرلیں گی کیونکہ مستقبل میں چین دنیا کی سپر پاور اور امریکا دوسرے یا تیسرے درجے کی قوت کے درجے پر فائز ہونے جا رہا ہے۔

کچھ بھی ہو دنیا کے اندر امن اور استحکام کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر رہیگا کہ عالمی کمیونٹی کینسر کی طرح بڑھتے والے اس صہیونزم کو کنٹرول کرنے کے لیے کتنا پختہ ارادہ رکھتی ہے اور کس حد تک اس پر قابو پانے کی صلاحیت کی حامل ہے۔

یہ بات یقینی ہے کہ اسرائیل کبھی بھی انصاف اور امن کے لیے ٹھوس بنیادوں پر سرگرم عالمی قوتوں کے سامنے سفید پرچم نہیں لہرائے گا۔ بلاشبہ صہیونی قوتیں اس بارے میں انتہائی طاقتور اور مغرور ہیں۔ تاہم عالمی کمیونٹی کی جانب سے اس نازی طرز کی صہیونی حاکمیت کو کنٹرول کرنے کے ارادے سے ایک معنی خیز تبدیلی ضرور رونما ہوگی اور اسرائیل کو دنیا کا امن تباہ کرنے اور بے گناہ انسانوں کے کسی بھی قتل عام سے پہلے ٹھہر کو سوچنا ضرور پڑے گا۔

مجھے اس بات میں ذرا تامل نہیں ہے کہ ایک دن اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹنا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ مبارک دن کب ہوگا تاہم اتنا ضرور کہ سکتا ہوں کہ ایسا بعض لوگوں کے خیال کی امیدوں سے کافی پہلے ہوجائیگا۔ اسرائیل برائی اور ظلم کی بنیاد پر قائم ہے اور خود اپنی تباہی کے بیچ بو رہا ہے۔ 

مختصر لنک:

کاپی