چهارشنبه 30/آوریل/2025

ہمیں اپنے شہداء کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے

منگل 29-مئی-2012

فلسطینی سیاسی اور مزاحمتی رہنماؤں اور کارکنوں نے حال ہی میں اسرائیلی تاریک کال کوٹھریوں اور زندانوں میں ایک طویل بھوک ہڑتال کی، یہ ہڑتال تشدد، جبرواستبداد کے خلاف جہاد یا مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہے۔

ہمارے قید تنہائی میں ڈالے گئے اسیران رہنما اس لیے صہیونی عقوبت خانوں میں گئے تاکہ ہم ممکنہ حد تک اسرائیل کی جانب سے ہماری زندگیوں، وقار اور بقا کے خلاف جاری مظالم سے محفوظ رہ سکیں۔

ان میں سے بہت سے رہنماؤں نے اس دشمن سے جنگ لڑی ہے جس نے ظلم و ستم میں جرمن نازیوں کی نہ صرف نقالی کی بلکہ انہیں بھی مات دے رکھی ہے۔ ان فلسطینی رہنماؤں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں، ذلت آمیز سلوک اور غیر انسانی رویوں کی ایک داستان رقم کی گئی ہے۔

قید خانوں میں بھوک ہڑتال کرنے والے قیدی بلاشبہ ہمارے وہ عظیم ہیروز ہیں جنہیں معطل شدہ شہداء قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے قومی انصاف کے مقصد کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کی اور اس میں کامیاب بھی ٹھہرے۔

ان ہیروز میں سے بہت سے وہ ہیں فلسطینی معاشرے کا لب لباب ہیں۔ اسرائیل نے ڈاکٹرز، ائمہ مساجد، وکلاء اور دیگر پیشہ ور افراد کو بغیر کسی فرد جرم اور الزام کے گرفتار کر کے محض اس لیے انتظامی حراست میں دھکیل دیا تاکہ ان کی انفرادی اور قومی قوت ارادی کو توڑا جا سکے۔

سادہ سی بات ہے کہ اسرائیل دراصل ان پنجرے میں بند شیروں اور بے یارو مدد گار اسیران پر مظالم توڑ کر فلسطینیوں میں سے دفاع اور مزاحمت کے جذبے کو نکالنا چاہتا ہے۔ وہ فلسطینی قوم کی مزاحمت سرشت کو متنازع بنانے اور مسخ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری بھرپور ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے ساتھ ایسے بھرپور انداز میں اظہار یک جہتی کریں کہ انہیں یہ یقین ہو جائے کہ ان کی جدوجہد اور خودانکاری بے فائدہ نہیں ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران کی بڑی تعداد کی بھوک ہڑتال دراصل تاریک کوٹھریوں میں ظلم و ستم اور نفرت کا نشانہ بنانے والے ان قیدیوں کی قوت فیصلہ کی جنگ ہے۔ یہ ہڑتال عزت اور وقار کے ساتھ جینے کی آرزو رکھنے والوں کے صبر کا امتحان بھی ہے۔

یہ جنگ درندگی اور تہذیب، آزادی اور ظلم کے درمیان ایسا معرکہ ہے جس میں بالآخر فتح آزادی کو ہی ہو گی۔

لیکن اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے فلسطینی عوام، تمام آزاد مرد و خواتین، عرب اور اسلامی دنیا کے مسلمانوں کو اپنے وقت کے اس اسرائیلی نامی نازیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلنا ہو گا۔ یہ اسرائیلی فلسطینیوں پر اپنے ان تجربات کو آزما رہے ہیں جو نازیوں نے ان پر کیے تھے۔

 ہمیں لازمی طور پر دنیا بھر کے ممالک میں پھیلے اپنے نمائندوں پر لازم کرنا ہوگا کہ اپنے وقار اور آزادی کے لیے اپنے سب سے قیمتی سرمایہ جان کی بھی قربانی دینے کے لیے اپنی حکومتوں پر تیار ناداروں اور بے یارومددگار افراد کی مدد کا دباؤ ڈالیں۔

 اردن اور مصر سمیت عرب حکومتوں پر بھی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ اسرائیل کے خلاف قابل بھروسہ اقدامات اٹھائیں جس سے اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے باز آجائے۔ اسرائیل کے حمتی اتحادی امریکا کو بھی باور کروانا کہ اس پر لازم ہے کہ جیلوں میں پڑے فلسطینی اسیران کو مناسب سہولیات فراہم کرے۔

صرف صہیونی حکومت کے سفیر کو معطل کرنا کافی نہیں ہے، وقت اور واقعات یہ ثابت کر رہے کہ ایسے اقدامات صرف علامتی اقدامات ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیل کے خلاف فی الفور زیادہ معنی خیز اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان اقدامات میں قتل عام کرنے والی اسرائیلی حکومت کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی تعلقات کے مکمل خاتمے کی دھمکی بھی شامل ہے۔

اور اگر اسرائیلی حکومت اپنی مجرمانہ سرشت کی تسکین کے لیے فلسطینی قیدیوں کی تکالیف میں اضافہ کرکے ساری امت مسلمہ کی اس دھمکی کو بھی خاطر میں نہں لاتا تو پھر اس کے خلاف مزید دور رس نتائج کے حامل سنجیدہ اقدامات اٹھانا لازم ہوگا۔

 مصر اور اردن کئی مرتبہ دوہرا چکے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ان ریاستوں کے لیے قومی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذرا سوچیے ایسے قومی اثاثے رکھنے کا کیا فائدہ جنہیں استعمال کر کے آپ زندگیوں کی حفاظت نہ کر سکیں۔ ہمیں اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ ہمارے درجنوں قیدی ایسے ہیں جنہیں ان کی قسمت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔  اس سے قبل کہ ہم ان قیدیوں کے بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں صہیونی حکام ان کی قسمت کا بدترین فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔

تاہم اس سے قبل کہ ہم غیر فلسطینی عربوں سے اپنے فرائض کی ادائیگی کی اپیل کریں ہمیں خود فلسطینی اتھارٹی پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا دباؤ بڑھانا ہوگا۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی، اسرائیلی فوج کے ساتھ سکیورٹی انتظامات میں شریک ہے جسے وہ ’’سکیورٹی تعاون‘‘ قرار دیتی ہے۔ اس سکیورٹی تعاون پر اسرائیل بھی فلسطینی اتھارٹی کی کارکردگی کو سراہتا رہتا ہے۔

لہذا، اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے اس شرمناک تعلق، جو ہمارے لیے صرف دکھاوے کا نہیں بلکہ حقیقی خطرہ ہے، کو ختم کر دیا جائے تو شاید اس سے بالآخر اسرائیلی حکومت کو ہمارے لوگوں کے ساتھ اس ظالمانہ سلوک پر نظر ثانی پر قائل کیا جا سکے۔ یہ الفاظ میں دل و دماغ پر بڑھے بوجھ اور غم کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔

جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید تنہائی کے شکار ان بھوک ہڑتالی ہیروز کو احساس دلانے کے لیے کہ انصاف اور آزادی کے لیے اس جنگ میں وہ تنہائی نہیں بلکہ ان کی قوم بھی ان کے ہمراہ ہے بہت سے اقداماٹ اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ہمیں اور ہماری تمام معاون قوتوں کو آزادی اور انصاف کی اس جنگ میں ظلم وستم کی تاریکیوں میں پڑے فلسطینی اسیران کی اس تحریک میں تعاون کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔

 مزید برآں، ہم جو نازی طرز کی اسرائیلی حکومت کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں کو یہ بھی جاننا ہوگا کہ اسرائیلی ریاست کس حد تک سخت گیر اور مکار ہو سکتی ہے۔ غالبا اسرائیلی ریاست کے فیصلہ سازوں کی فطرت کے بدلنے اور ان کی ذہن بدلنے کی کوئی امید کرنا قطعی بے فائدہ ہوگا۔

ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجموعی طور پر نفسیاتی خوف اور پاگلپن کی شکار اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کی جانب سے اپنی آزادی، انصاف، وقار اور انسانیت کی خاطر اٹھائے گئے معمولی سے اقدام کو بھی صہیونی ریاست کی بقا کے لیے بڑا خطرہ شمار کرتی ہے۔

اسی لیے اس بات کی امید کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اسرائیل کی جانب سے آزادی اور انصاف کی اس جدوجہد کے اس افسوسناک باب کو بند کرنے کے لیے کوئی بھی  معقول اور شریفانہ اقدام اٹھایا جائے گا۔ تاہم صہیونی حکام مقدر بنانے والے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ لوگوں کی قسمت کا پہلے سے کرنے والے خدا ہیں۔

آخر میں اسرائیلیوں کے لیے ایک نصیحت۔ تم اپنے بدتمیزی، طاقت کے غرور، انتشار میں حد سے گزر چکے ہو، ایسا کرتے ہوئے تم دنیا میں آباد کروڑوں ایسے لوگوں کے دلوں کو توڑ رہے ہو اور ان کے جذبات کو مجروح کر رہے ہو جو پھر تمہارے مظالم بھلا کر تمہیں معاف نہیں کر سکیں گے۔

تھوڑی دیر کے لیے اپنے تکبر اور طاقت کے نشے کو ایک جانب رکھتے ہوئے ٹھنڈے دماغ سے اپنے شرمناک اور ظالمانہ رویے کی نتائج اور اپنی اگلی یہودی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں غور کرو۔ ایک لمحے کے لیے غور کرو کہ طاقتور ہمیشہ طاقتور نہیں رہتا اور نہ ہی کمزور ہمیشہ کمزور رہتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی