شیخ یوسف قرضاوی اس وقت بلاشبہ دنیا میں سب سے زیادہ باخبر رہنے والے مسلم مذہبی عالم شمار ہوتے ہیں۔ شریعت اور اسلامی فکر اور فلسفہ کے تمام پہلوؤں پر درجنوں کتابوں کے مصنف نے سنہ 1985ء میں دنیا کو اپنے قابلیت، مدبری اور گہری سوچ کے نادر نمونوں سے روشناس کروایا۔ ان کا ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا ہفتہ وار پروگرام ’’شریعت اور زندگی‘‘ اس وقت تعلیم یافتہ اور عام آدمی اسی طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں میں یکساں مقبولیت حاصل کیے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر قرضاوی نے عرب ممالک میں چلنے والی تحریکات کی بھرپور معاونت کرنے کی پاداش میں مصر کی جمال عبد الناصر، انور سادات اور بالخصوص حسنی مبارک کی حکومت کی جانب سے قید وبند، بہیمانہ تشدد اور ہراساں کیے جانے کی مصیبتیں جھیل رکھی ہیں۔ تمام تر مظالم کے باوجود وہ مسلمانوں کو آزادی، جمہوریت اور عظمت کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔
گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران شیخ قرضاوی کو فرانسیسی حکومت، کچھ شیعہ اور ایران کے حامی حلقوں، متحدہ عرب امارات کے سیکورٹی سربراہ اور فلسطینی خود مختار اتھارٹی کے وزیر برائے وقف کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا
بلاشبہ شیخ قرضاوی کسی بھی فانی مخلوق کی طرح غلطیوں سے مبرا نہیں، نہ ہی وہ اپنے معصوم اور مکمل ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
تاہم اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ وہ اس وقت اعلی ترین اخلاقی اقدار پر موجود ہیں بالخصوص خود پر تنقید کرنے والے ان حلقوں کی نسبت جن کا اہم ترین متاع ہی ان کی جہالت اور دروغ گوئی کی شہرت ہے۔
بہرحال ہم حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے وقف و اسلامی امور کے وزیر کی جانب سے شیخ پر تنقید کی چلائی گئی مہم سے شروع کرتے ہیں، اس مہم میں انہوں نے اپنے ایک جمعہ کے خطبے میں شیخ کو ’’تقسیم کرنے والا اور اختلافات کے بیج بونے والا‘‘ تک قرار دے دیا۔
مسلمانوں کے محبوب عالم شیخ قرضاوی کے خلاف بدسلوکی اور طعن و تشنیع کی یہ مہم ان کے اس فتوے یا فیصلے کے بعد شروع کی گئی ہے جس میں انہوں نے غیر فلسطینی مسلمانوں کے لیے مقبوضہ بیت المقدس کے دورے کو ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح کے دورے اسرائیل اور اسلامی دنیا کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے اقدام شمار ہوتے ہیں۔
شیخ قرضاوی نے دلیل دی ’’دنیا بھر کے مسلمان کس طرح مسجد اقصی کا دورہ کریں جب اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے اس مقدس مسجد کے گرد پھیلے شہر کے باسیوں، مغربی کنارے اور غزہ کے شہریوں کے اس مقدس مسجد میں داخلے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں‘‘
ان کا مزید کہنا ہے ’’ہمیں مسلمانوں اور صہیونی ریاست کے مابین کھڑی نفسیاتی روکاوٹوں کو عبور نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ہمارے دشمن ہیں جن کے ساتھ کسی صورت تعلقات معمول پر نہیں لائے جا سکتے‘‘
شیخ قرضاوی کے یقینی طور پر بالکل سچ ہیں کیونکہ کسی بھی حتمی تجزیے کے مطابق مسلمانوں کی جانب سے اسرائیلی زیر تسلط مقبوضہ بیت المقدس کے دورے لازمی طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں بڑے پر اثر ہیں۔
مسلمان رہنماؤں کے دورہ القدس نے لاشعوری طور پر بالخصوص دور دراز کے اسلامی ملکوں کے مسلمان اس بات پر قائل ہونگے کہ اسرائیل کے ساتھ حالات اس حد تک ناقابل برداشت نہیں ہیں۔ اور یہ کہ اسرائیل کے ساتھ عارضی صلح اسکے زیر قبضہ مقدس شہر کو آزاد کروانے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
القدس میں مسلمانوں کی آمد کے سلسلے کے بعد صورتحال یہ ہو جائے گی کہ معاشروں سے کٹے ہوئے چند ہزار مسلمان سیاح اپنے دورہ القدس کے دوران چند گھنٹے قبلہ اول کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے، اس دوران ان کے دلوں دکھیں گے اور اپنے حرم ثالث پر صہیونی قبضہ دیکھ کر تھوڑی دیرکے لیے ان کی غیرت بھی جاگے گی اور وہ دلوں میں دکھ محسوس کرینگے۔ تاہم اس سب کے باوجود یہ نام نہاد سیاح تھوڑی ہی دیر بعد تل ابیب کا رخ کرلینگے۔ مشرقی وسطی کی واحد جمہوری ملک میں جاری پر لطف گزرتی زندگی تھوڑی ہی دیر میں یہ بھلا دے گی کہ اس ریاست میں قائم ہر شہر کو فلسطینیوں کی آبادیوں کو تہس نہس کر کے ہزاروں بے گناہوں کو شہید کرکے قائم کیا گیا ہے۔
اس طرح مسلمانوں کا یہ ذہن بن جائے گا کہ مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطین کو خود ہی آزاد ہونے دیں، ان کی آزادی کے لیے معاشرے سے کٹے ہوئے کچھ ہزار مسلمان ہی جدوجہد کرتے رہیں جن کو قبلہ اول کی زیارت کے دوران اپنی بے عزتی، ہتھک محسوس ہو یا جنہیں قبلہ اول پر صہیونی تسلط دیکھ کر تکلیف ہوتی ہو۔
میں انفرادی اور بین الاقوام رابطوں کی نفی سے ہرگز نہیں کر رہا ہے لیکن اسرائیل ایک نارمل قوم نہیں ہے۔ وہ ماضی میں کبھی بھی ایک معتدل قوم نہیں رہی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل انسانیت کے خلاف خوفناک جرائم کا ایک نام ہے۔ اس ریاست کی بنیاد نسلی تعصب، قتل و غارت گری اور فریب پر رکھی گئی ہے۔ اسرائیل نے ہمارے لوگوں کا قتل عام کیا، فلسطینیوں کے گاؤں کے گاؤں تباہ کیے اور لاکھوں لوگوں کو ملک سے باہر ہجرت پر مجبور کر دیا۔
مسلمانوں کو کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لانا چاہیں، ہم کبھی بھی اپنی ہی قبریں کھودنے والوں اور خود پر ظلم کرنے والوں کا ہاتھ چوم کر مسلمانوں کی عزت اور وقار کا سودا نہ کر سکتے۔ جی ہاں صہیونی یہودیوں نے فلسطین پر ظالمانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اس ظلم میں اسے اقوام متحدہ جیسے طاقتور عالمی اداروں کی پوری حوصلہ افزائی بھی حاصل ہے۔
لیکن کیا ہوگا؟ رومن امپائر کہاں گئی، برطانوی بادشاہت آج کہاں ہے؟ نپولین بونا پارٹ کا کیا ہوا؟ سوویت یونین کہاں ہے؟ اڈفا ہٹلر کا آج کہیں نام و نشان نہیں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اسرائیل کی ایک مصنوعی ریاست ہے جس تاریخ کے کڑے امتحان کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکے گی اور ختم ہو جائے گی۔ یہ وہ ریاست ہے جو انصاف، اخلاقیات اور انسانیت سے عاری اور محروم ہے۔ یہ ایک ایسا شرارتی اور گندا بچہ ہے جسے اس جیسے گندگی سے لت پت حالات نے ہی پیدا کیا ہے۔ اسے بالآخر ختم ہونا ہی ہے۔
حالیہ دنوں شام میں ظلم، بربریت، فرقہ واریت اور ناانصافی کے شکار عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی پاداش میں شیخ یوسف قرضاوی کے خلاف ایران کے حامی حلقوں کی جانب سے بدنام کرنے، ان کی قدر کم کرنے اور بے جا تنقید کی جو مہم دیکھنے میں آئی تو یہ یاد رہے کہ شام کے حق میں ایران کا رویہ مشتبہ، ناقابل دفاع اور کم سے کم شدید الفاظ میں بھی غیر اسلامی ہے۔
شیخ قرضاوی کون ہیں؟ یہ وہ شخص ہے جس نے ہمشہ اسلامی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کی بنیاد پر شیعہ سنی تعمیر مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ ذرا تصور کیجئیے جب وہ، دنیا کے دیگر کروڑوں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی طرح، ایک نازی طرز کی فوج کے ہاتھوں ہزاروں بچوں کے بے رحمانہ قتل عام کو دیکھ رہے ہوں تو وہ کیا کرینگے۔
کیا ہم یہ فرض کرلیں کہ شیخ قرضاوی جو قتل عام دیکھ رہے ہیں وہ اس دنیا نہیں بلکہ کسی اور سیارے پر ہو رہا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنی ایمانداری اور حقیقی جمہوریت پر استقامت سے دستبردار ہو جائیں؟
شیخ قرضاوی نے دیگر بہت سے سنی مسلمانوں کی طرح اس وقت ایران کی حمایت کی تھی جب اس کا تنازع مغرب سے چل رہا تھا۔ وہ ایران کی حمایت اس لیے نہیں کر رہے کہ وہ ایران ہے بلکہ وہ یہ حمایت مسلمان کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے کر رہے ہیں۔
لیکن ایران اور اس کے فرقہ واریت پر یقین رکھنے والے اتحادی اور ہم نوا بہت دور تک جا رہے ہیں کیونکہ شیعہ میں جب یزید پیدا ہوتا ہے کہ تو وہ سنی یزید سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ایک قتل عام جب اسے شیعہ کر رہے ہوں کوئی خوشگوار اور قابل برداشت نہیں بن جاتا۔
مستزاد یہ کہ کچھ شیعہ حلقے فلسطینیوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچنے کے خطرے کے پیش نظر شام میں جاری قتل و غارت گری کا جواز پیش کر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلبہ یہ نہیں کہ صرف فلسطینی مقصد کی خاطر شیعہ حکومتیں عربوں کی خونریزی اور ان جبر استبداد کو درست سمجھتی ہیں؟