چهارشنبه 30/آوریل/2025

دکھاوے کا کھیل

منگل 1-مئی-2012

محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی کے اعمال تھیٹر ڈرامے کے فنکاروں سے مختلف نہیں۔ اس کا طرز عمل یہ ہو چکا ہے کہ ہمارے کاموں پر تنقید کے بجائے صرف ان کو دیکھو۔

  فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کو مذاکرات بحال کرنے کے مطالبے پر مشتمل خط  ایک  بار پھر ہمیں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہونے والے اقدامات اور ’’ستمبر استحقاق‘‘ کی یاد دلا رہا ہے۔ ایناپولی کی کانفرنس، متعدد دیگر جھوٹے وعدے، امریکا کے تعاون سے کیے جانے والے دکھاوے کے اقدامات، فلسطینی قوم کو دھوکے دینے والے گمراہ کن بیانات اور قوم کے لیے جھوٹی امیدوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ۔

اس وقت محمود عباس کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم کے نام خط پر فلسطینی اتھارٹی کا میڈیا کا جھوٹا پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھانے کے نت نئے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے ہی یہ خط یہودی نیتن یاھو کو ملے گا اور اس کی جانب سے اس کا جواب آئیگا قیامت واقع ہو جائے گی۔

حالیہ رپورٹس کے مطابق امریکا اور یورپی شرکاء نے ابو مازن محمود عباس کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اس فلسطینی اتھارٹی کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے یہ خط لکھیں۔

بعض اوقات محمود عباس عالمی برادری کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اگر اسرائیل کو سنہ 1967ء سے قبضہ کیے گئے علاقوں سے دور نہ کیا گیا تو فلسطینی اتھارٹی تحلیل ہو جائے گی۔

لیکن امریکا اور نہ ہی اسرائیل اتھارٹی کی ان دھمکیوں پر کان نہیں دھرتے۔ یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ فلسطینوں کی اکثریت فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کا وجود اسرائیل کی کامیابی اور اسی کا مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور خاص طور پر امریکا محمود عباس کو کشتیاں جلانے کی اجازت دینے سے قبل کئی بار سوچیں گے۔

یہ بات کسی صورت نہیں کہی جا سکتی کہ اسرائیل اور اس کے محافظ دوست امریکی عباس کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع روک دیں گے اور سنجیدگی سے بحران کے شکار دو ریاستی حل پر موثر انداز میں عمل کی جانب آئیں گے۔

اس ضمن میں بالخصوص اس خاص موقع پر اوباما انتظامیہ زیادہ سے زیادہ جو کریں گی وہ یہ ہوگا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کو کچھ رقم دے کر منہ بند رکھنے کے احکامات جاری کردے گی۔ رقم جاری کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی کچھ خوش آمد کی جائے گی اسے پیار سے راغب کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس کو تحکمانہ انداز میں کسی بھی ناگوار عمل سے دور رہنے کے احکامات بھی دیے جائیں گے۔

لالچ اور دھونس یا گاجر اور چھڑی والا یہ طرز عمل ہے جو امریکا اور یورپ یاسر عرفات بلکہ اس سے بھی پہلے کے دور سے فلسطینی اتھارٹی سے روا رکھے ہوئے ہیں۔

میرا یقین ہے کہ فلسطینی عوام کی اکثریت اسی طرح بیرون فلسطین آباد مہاجرین محمود عباس کی خبطی جوشیلی تقریروں سے اکتا چکے ہیں۔ اس طرح کی منافقانہ اور مداہنت پر مبنی بیانات عوام کو عباس کی حمایت سے مکمل طور پر دستبردار کر دیں گے۔ تاہم اس سب کے باوجود رذیل خوش آمدیوں کے لیے اس قسم کے بیانات اپنے آقاؤں کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن معاملہ یہیں تک محدود نہیں ۔سب سے پہلے فلسطینی اتھارٹی، بالخصوص محمود عباس، کو لوگوں کو واضح طور پر پوری ایمانداری سے یہ بتانا ہوگا کہ مغربی کنارے میں ایک خودمختار اور قابل قبول ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے کیونکہ پورے مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر ہوچکی ہیں۔

اور اس بات کا ذرہ بھر بھی کوئی ثبوت سامنے نہیں کہ اسرائیلی حکومت، نازیوں کے مظالم کو مات دینے والا حالیہ حکومتی اتحاد، سخت گیر صہیونی، اور نسلی تعصب پر مبنی تلمودی عبارات کو ماننے والے انتہاء پسند رہنما کسی بھی حال میں ان یہودی بستیوں کو خالی کرنے یا ختم کرنے کی اجازت دیں گے۔ چاہے اس کے بدلے میں انہیں کسی بھی طرح کے امن معاہدے کی پیشکش کردی جائے یہودی بستیوں سے دستبرداری کے آثار نظر نہیں آرہے۔

اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت الگ سے انتہائی مغرور، اپنے آپ میں مگن اور نظریاتی طور پر سخت گیر ہے جو کسی بھی حقیقی امن پر مشتمل اختیارات کی منتقلی کی اجازت نہیں دے گی۔ ان دنوں اسرائیل میں صرف ایک تبدیلی کی جانب سے جانے کے آثار نظر آرہے ہیں اور وہ یہودی فاشزم کا رجحان ہے۔

حالیہ انتخابات میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی کادیما پارٹی کی صدارت کے لیے کسی بھی معیار کے مطابق سر تا پا جنگی جرائم میں ملوث شاؤل موفاز کے چناؤ سے ہمیں اس ضمن میں مزید سوچنے کا موقع ملتا ہے۔

دوسرا فلسطینی اتھارٹی اور اس کے ہمنواؤں کی جانب سے اب بھی امریکا کے ساتھ امن اور انصاف کی امیدیں ہی مسئلے کی اصل جڑ ہیں۔ اسرائیل اپنی یہودی لابی کے توسط سے امریکا کے گلے تک پہنچ چکا ہے۔ کسی نہ کسی طرح امریکی سیاستدانوں کو بھی یہ محسوس ہورہا ہے کہ اگر وہ یہودی لابی کی گود میں جا گریں گے تو ان کے انتخابات میں جیتنے کی گنجائش نہیں رہے گی اور اس معاملے میں باراک اوباما کو بھی کوئی استثنی حاصل نہ ہوگا۔ میرے خیال میں امریکا کے سیاستدانوں کی جانب سے اسرائیل پر تنقید کی ہلکی سی لہر اور فلسطینیوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار صرف دکھاوا ہے وگرنہ تمام امریکی سیاسی دلال ہمیشہ سیاسی طور پر طاقتور اور دولت والی پارٹی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور یہ امریکی یہودی اس وقت طاقت بھی رکھتے ہیں اور دولت بھی۔

امریکا میں موجود مذکورہ حقائق ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر فلسطینی امریکا کی جانب سے انصاف کی فراہمی، اخلاقیات اور مشرق وسطی کی پالیسیوں میں اعتدال چاہتے ہیں تو انہیں اس مقصد کے لیے کچھ دہائیاں یا کئی دہائیاں اور شاید کئی صدیاں انتظار کرنا پڑے گا۔ خلاصہ یہ کہ امریکا اس مسئلے کا حصہ ہے وہ مسئلے کے حل کا حصہ کبھی نہیں بن سکتا۔

یورپین کی طرف دیکھا جائے تو وہ بظاہر فلسطینیوں کے لیے زیادہ خطرناک نظر نہیں آتے، لیکن اسرائیل کا رخ موڑنے کے لیے ان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ سیدھی کی بات ہے کہ یورپ بہت کمزور، انتہائی کم پر عزم، انتہائی غیر اصولی اور اسرائیل کو امن کی دلیل سمجھانے میں بہت زیادہ بٹا ہوا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے ’’دوریاستی حل‘‘ کا نظریے میں جان نہیں رہی۔ امریکی، یورپی اور بعض فلسطینی رہنما اس نظریے کی بات تو گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں مگر سب دل یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس حل پر حمل اب ممکن نہیں رہا۔

گزشتہ ہفتے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے عہدیدار احمد قریع نے اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا کہ ایک فلسطینی ریاست جس کی اپنی خودمختار سرحدیں ہوں اور جس کا دارالخلافہ مشرقی القدس ہو کے قیام کے سلسلے میں اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ محمود عباس اور ان کے حواریوں کا حلقہ احمد قریع کے ان الفاظ کو کیوں نہیں سمجھ رہا۔ کیا یہ سب اندھے ہوچکے ہیں؟ یا یہ سب لیڈر قومی مفاد اور اپنی عوام کے قانونی حقوق کے ساتھ کھیل کرنے اور انہیں ضائع کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں؟

یہی وہ وقت ہے کہ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کے لیے ایک نیا راستہ چنیں جس پر چل کر مکمل آزادی حاصل کی جا سکے۔ یہ واضح رہے کہ ہم محمود عباس اور اس کے ہمنواؤں سے کسی معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہم صرف انہیں مستقبل کے لیے بہتر طور پر سوچتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

مختصر لنک:

کاپی