پنج شنبه 01/می/2025

غزہ میں قتل عام اور ٹولوز میں اموات

ہفتہ 21-اپریل-2012

کیا فرانسیسی شہر ٹولوز میں القاعدہ کے ایک یہودی سکول پر حملے اور مقبوضہ فلسطینی شہروں میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام میں کوئی تعلق ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا اسرائیلی آفشلز اور پروپیگنڈا کرنے والوں کا سامنا ہے۔ بلاشبہ اس سوال کے سنتے ہی اسرائیلی غصے میں آکر جذباتی اور دفاعی ہوجاتے ہیں۔

میں کسی بھی طرح یہ نہیں کہ رہا کہ فرانس کے شہر ٹولوز میں بچوں کے اسکول پر ہونے والا حملہ درست تھا اور  نہ ہی میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور قتل و غارت گری کی کارروائیوں کا ذمہ دار ہر یہودی ہے چنانچہ ہر کسی کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

تاہم صہیونی یہودیوں پر اسرائیل یا کسی دوسرے ملک میں ہونے والے حملے گزشتہ چونسٹھ برسوں میں اسرائیلیوں فلسطینیوں اور دیگر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی طرح حیران کن نہیں۔

بہ بات مکمل طور پر غلط ہوگی کہ ٹولوز کسی دوسرے سیارے پر واقع ہے۔

اس طرح کے اقدامات کا جواز پیش کرتے ہوئے بعض فلسطینی گولڈا مئیرز کا بجا طور پر یہ غیر معروف مقولہ سامنے لائیں گے کہ ’’ہم فلسطینیوں کو اپنے بچوں کو مارنے پر معاف کرسکتے ہیں تاہم ہم اس بات پر کسی صورت درگزر نہیں کر سکتے کہ انہوں نے ہمیں انکے بچے مارنے پر مجبور کیا‘‘

بحرحال اگر یہودی شہریوں کا قتل اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل کا جواز فراہم کر سکتا ہے تو پھر اسی طریقے پر فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام کے بعد غمزدہ عربوں اور مسلمانوں کی جانب سے کسی بھی یہودی کو قتل کرنا بھی درست قرار پائے گا۔

درحقیقت میں دونوں واقعات میں کوئی حقیقی مماثلت پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ اب تک فلسطینیوں کی قبریں کھودنے اور ان پر مظالم ڈھانے میں اسرائیل کا کوئی ثانی نہیں۔ ان فلسطینیوں بچوں کے برخلاف جنہیں فلسطینیوں کے مضبوط ارادوں کو توڑنے کے لیے قتل کردیا جاتا ہے، فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلیوں کو صرف کبھی کبھار ہی فلسطینی قومی وجود کے خاتمے کے درپے صہیونی یہودیوں کے مظالم کے رد عمل میں ہلاک کیا جاتا ہے۔

ایک فاشسٹ ذہن رکھنے والی اسرائیلی حکومت، جسے مکمل طورپر امریکی حکومت کی غیرمشروط حمایت بھی حاصل ہے، کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے راہیں مسدود کرنے کی یہی کارروائیاں ہیں جو ان کو مشتعل کرتی ہیں اور مظالم کا شکار ہونے کے بعد اپنے دفاع پر مجبور کرتی ہیں۔

ایک امریکی شاعر ایڈن کا کہنا ہے۔

میں اور ساری قوم جانتی ہے

جو تمام اسکولوں کے بچے سیکھتے ہیں

جس کے ساتھ برائی کی گئی ہے

اسے چاہیے کہ جواب میں بھی برائی کرے

اس سب کے باوجود اسرائیل واضح طور پر فلسطینیوں کو تین اختیارات دے رہا ہے ’’یا تو تم پانی لانے اور لکڑیاں کاٹنے والے غلاموں کی مانند بن جاؤ، یا کسی صحراء میں در بدر ہو جاؤ یا پھر خاتمے کے لیے تیار رہو‘‘

اسرائیلی حکومتی عہدیدار جو شاید کسی قدر نفیس ہیں غالبا اس قسم کے الفاظ استعمال نہ کریں لیکن عام یہودی آباد کار ان کے انتہاء پسند مذہبی پیشوا اس وقت یہودیوں کی اجتماعی سوچ کی عکاسی اپنے بیانات سے بخوبی کر رہے ہیں۔ صہیونی ذہن رکھنے والے یہودی ایک لمحے کے لیے بھی اس قسم کی صریح نسل پرستانہ گفتگو سے باز نہیں آتے، کیونکہ فلسطینیوں کے لیے تین اختیارات ان کی قابل تبدیل سیاسی سوچ نہیں بلکہ ان کا اٹل مذہبی عقیدہ ہے۔

مسئلہ صرف ان اشتعال انگیز بیانات اور دعووں تک محدود نہیں رہتا، صہیونی اس سے بڑھ کر عملی اقدامات بھی کرتے رہتے۔    اس کا اندازہ ڈینیلا وائس (Daniela Weiss) کے کچھ سال قبل کے  اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کے ساتھ نمٹنے کا راستہ صرف ’’یوشووا طرز‘‘ ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ طریقہ قتل عام، مزید قتل عام اور پھر اس سے بھی زیادہ قتل عام کا طریقہ ہے۔

جیسا کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی فلسطینی شہریوں کے خلاف اس وقت بھی یوشووا کی تلوار بڑی آزادی سے استعمال کر رہا ہے۔ ابھی صہیونی فوجیوں کی جانب سے جان بوجھ کر فلسطینی بچوں کے قتل عام کو ایک ماہ بھی نہیں گزرا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک جانب اسرائیلی فرانسیسی شہر ٹولوز (Toulous) میں ہونے والے واقعے سے زیادہ سے زیادہ سیاسی اور پروپیگنڈ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب درجنوں فلسطینی خاندانوں میں اپنے بچوں کے بہیمانہ قتل پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔

چار سال قبل غزہ پر اپنی غارت گری کے دوران اسرائیل 360 فلسطینی معصوم بچوں کو بھی قتل کر چکا ہے، اس 23 روزہ قتل عام کے دوران 1500 فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ بزعم خود دنیا کی سب سے زیادہ بااخلاق فوج نے سیکڑوں دوسرے افراد کو زخمی اور متعدد کو سفید فاسفورس کے ذریعے جلا کر راکھ کردیا تھا۔

ٹولوس میں چار یہودیوں کا قاتل نے تو اپنے گناہ کے کفارے میں اپنی زندگی کا نذرانہ دے دیا لیکن معصوم بچوں کے قاتلوں سمیت ہزاروں فلسطینی غنڈے آج بھی اپنی سوسائٹی میں ہیروز کا اعزاز حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف زندگی بھر کسی عدالتی ٹرائل کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔

دوسری جانب فلسطین، لبنان اور دیگر مسلمان ملکوں میں مارے جانے والے ہزاروں مسلمانوں پر کوئی رونے والا بھی نہیں ہے، منافق میڈیا مسلمانوں کے خون کے بجائے یہودیوں کے خون کو زیادہ سرخ اور زیادہ شفاف قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ حالانکہ اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ خون، خون ہے چاہے مسلمان کا ہو یا کسی یہودی کا۔

لیکن افسوسناک حقیقت ہے کہ یہودی طرز فکر میں تعصب اور امتیازی سلوک رچ بس چکا ہے۔ تلمودی حلقوں سمیت عام یہودی خدائی احکامات میں کسی کو قتل نہ کرنے کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ آپ کسی ایک یہودی کو بھی قتل نہیں کر سکتے تاہم کسی بھی عیسائی کو قتل کیا جا سکتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بے قصور کیوں نہ ہو۔

بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتل، چاہے وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا عیسائی یا کوئی دوسرے، بھلے کسی جوابی کارروائی کے طور پر ہی کیوں نہ ہو، غلط اور غیر اخلاقی ہے. لیکن غلط اور غیر اخلاقی کا مطلب یہ نہیں کہ "ناگزیر‘‘ بھی نہیں ہے۔  میرے خیال میں ٹولوس میں ہونے والا واقعہ جوابی ردعمل کے طور پر ناگزیر تھا اور اس واقعے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔

اسرائیلی عوام اور ان کے لیڈر اس روسی ماں کی کاربن کاپی بن چکے ہیں جس کے بیٹے کو ترکوں کے خلاف جنگ کے لیے روسی حکمرانوں کے سامنے بھیجا گیا تھا۔ اسرائیلی مصنف اڑی ایوری کی کہانی کے مطابق ماں نے اپنے بیٹے کو ترکوں کے قتل پر ابھارتے ہوئے کہا ’’اپنے آپ کو بہت زیادہ مشقت میں مت ڈالنا، ایک ترک کو قتل کرنا اور پھر آرام کرلینا، اس کے بعد دوسرے کو قتل کرنا اور پھر آرام کرلینا‘‘

بیٹے نے جواب دیا ’’اور اگر اس دوران کسی ترک نے مجھے قتل کردیا تو کیا ہوگا‘‘

ماں نے بڑی سادگی گویا ہوئی ’’کیوں، تم نے اس کا کیا بگاڑا ہوگا کہ وہ تمہیں قتل کرے‘‘

آج سے تین دہائیاں قبل میرے تین آبائی بے گناہ اور معصوم چچاؤں کو اسرائیلی گولیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن آج تک مجھے معافی کا ایک لفظ بھی وصول نہیں ہوا، بھیانک اور درناک جرم کے معاوضے یا نقصانات کی تلافی کو تو چھوڑیے اسرائیلی حکومت یا وزارت خارجہ کی جانب سے اپنی غلطی تک کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

اسرائیل کا یہ متکبرانہ برتاؤ کیوں ہے؟ کیا یہودیوں کو واقعی لگتا ہے کہ ان کی زندگی کی تو حرمت ہے لیکن دوسروں کی جانوں کی کوئی حرمت نہیں؟ کیا یہودیوں کا خیال ہے کہ ’’منتخب قوم‘‘ کے افراد کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ غیر یہودیوں کی زندگیوں کی قیمت کو انتہائی کم شمار کریں؟ اور یہ بات اسرائیل کے قول و فعل سے بخوبی عیاں بھی ہو رہی ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا کرہ ارض پر آباد تمام  انسان برابر نہیں ہیں؟

میں اس بات کی امید اور درخواست کرتا ہوں کہ ٹولوس جیسا واقعہ بار بار نہیں ہوگا۔ لیکن میں یہ بھی اچھی جانتا ہوں کہ جب تک اسرائیلی فلسطینیوں کے قتل عام، انہیں تعذیبی مراحل سے گزارنے، ان کی اراضی ہتیھانے اور ان کے مواقع محدود کرنے کی سرگرمیاں جاری رکھیں گے اس طرح کے واقعات مکمل طور پر ختم نہیں ہونگے۔

خود تورات میں یہ بات بار بار کہی گئی ہے ’’کسی غیر ملکی پر ظلم نہ کرو، کیونکہ تم پر بھی مصر میں ظلم کیا گیا تھا‘‘ اگر یہودیوں نے تورات میں تسلسل کے ساتھ آنے والے ان الفاظ پر توجہ دی ہوتی تو ٹولوس جیسا واقعہ کبھی بھی وقوع پذیر نہ ہوتا۔

مختصر لنک:

کاپی