انیس مارچ کو فرانس میں ایک یہودی اسکول کے باہر فائرنگ کے واقعے پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کا اشتعال قابل دید تھا۔ غصے میں بپھرے نیتن یاھو نے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے دیا۔
صہیونی وزیر اعظم کا کہنا تھا ’’ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے اس واقعے کی مذمت نہیں آئی، بلکہ اس کی ایک تنظیم انسانی حقوق کونسل نے تو امریکیوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کے قتل کی مذمت کرنے اور متعدد یہودی رہنماؤں، خواتین اور بچوں کو قتل کرنے والی تنظیم حماس کے نمائندوں کو اپنے اجلاس میں مدعو کر ڈالا۔ یہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل (UNHRC) ہے۔ مجھے اس کونسل کو ایک بات کہنے دیجیے ’’آپ انسانی حقوق کے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہیں، تمہیں اپنے آپ پر شرم آنی چاہیے‘‘
نیتن یاھو ایک جانب مقبوضہ فلسطین میں چند یہودیوں کی ہلاکت پر روشنی ڈال رہے ہیں حالانکہ ان کی اموات کے مکمل ذمہ دار خود اسی قوم کے بدقماش رہنما ہیں۔ کیونکہ انہیں عالمی صہیونی غنڈوں نے مشرقی یورپ کے مختلف مقامات سے یہودیوں کو ورغلا کر فلسطین بھیجا اور غیروں کی سرزمین پر قابض بنایا ہے۔ تاہم وہ اپنی آقا قوم، مقدس قبیلے کی جانب سے فلسطین میں غیر یہودیوں کے قتل عام پر کمال تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل خاموشی اختیار کیے رہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ مرض کی حد تک جھوٹ بولنے والا نیتن یاھو فرانس میں ہونے والے واقعے کی تو پرزور مذمت کر رہا ہے لیکن خود اس کے اپنے ہاتھ سیکڑوں بے گناہ اورمعصوم فلسطینی بچوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ نیتن یاھو اور دیگر اسرائیلی عسکری و سیاسی قائدین نے طویل عرصے سے ہر یہودی تہوار کے موقع پر اپنے قوم کو عرب بالخصوص بچوں کے خون کے نذرانہ پیش کرنے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے۔
یہی کچھ چند ہفتے قبل غزہ میں بھی ہوا جب اسرائیلی جنگی مشینری نے فلسطینی ساحل پر پھیلی 360 مربع کلومیٹر پر مشتمل غزہ کی پٹی پر قیامت برپا کی۔ اور غزہ کے کسانوں، مزدوروں، بچوں اور خواتین کو بے دردی سے خون میں نہلا دیا۔ بے یارو مددگار فلسطینیوں پر اس وقت امریکی ٹیکنالوجی کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود اسلحے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم نے 1933 تا 1945 کے جرمن نازی دور میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بھی مات دے دی ہے۔
بہ چیز بذات خود بزدلی کا ایک بڑا مظہر ہے کہ آپ بے گناہ لوگوں بالخصوص ان لوگوں پر حملہ کریں جن کے پاس اپنے دفاع اور اپنے اسکول جانے والے بچوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں۔
چار سال قبل دسمبر 2008ء تا جنوری 2009ء غزہ پر مسلط کیے گئے قتل عام (Genocide) کے دوران اسرائیل نے لگاتار تیئس روز تک بے گناہ فلسطینیوں کو قتل عام کیا۔ اس غارت گری میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہریوں کو شہید کردیا گیا، ہزاروں گھروں، مساجد، ہسپتالوں اور مفاد عامہ کی عمارات کو نیست و نابود کردیا گیا۔ پوری غزہ کی پٹی پر آگ کی برسات تھی۔ یہودی مذہبی پیشواؤں کی تعلیمات کے مطابق دنیا کی سب سے اعلی نسل ہونے کے جذبے سرشار اسرائیلی فوجی باعث ثواب سمجھ کر فلسطینی خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رہے تھے۔ غیر یہودیوں کو نسلی انسانی کے رتبے سے نکال کر جانور سمجھنے والے صہیونی اہلکاروں کو ہزاروں افراد کے قتل پر اتنی بھی شرمندگی نہیں تھی جتنی کسی جانور کو مارنے پر ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس اجتماعی قتل عام کے دوران جان بوجھ کر قتل کیے جانے والے بچوں کی تعداد 360 تھی، ذرا سوچیے کہ اگر اکیس روز کے دوران 360 یہودی بچوں کو اس طرح جان بوجھ کر قتل کردیا جائے تو کیا سماں ہوگا۔ ہذیان میں مبتلا صہیونی رہنماؤں کے جنونی بیانات اور انتقامی شعلہ بیانی کس درجہ تک جا پہنچے گی۔
حماس نے شہریوں سمیت کچھ اسرائیلیوں کو ضرور مارا ہے لیکن یہ کارروائی اس دور کی نازی ریاست کے خلاف جنگ آزادی کے تناظر میں کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی ریاست کے خلاف جدوجہد ہے جو دنیا میں کسی بھی فلسطینی کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
دنیا کی ساری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں باہر سے آکر قبضہ کرنے والوں اور حملہ آوروں پر کبھی پھول نچھاور نہیں کیے گئے۔ مظلوم اقوام نے ہمیشہ ظالموں کا ہینڈ گرینیڈز اور پٹرول بموں سے استقبال کیا اور ان کے خلاف اپنی تمام مقدور بھر قوت کا استعمال کیا۔ کیا دوسری جنگ عظیم کے دوران روسیوں نے اپنے ملک کے دفاع میں اور نازیوں کے مظالم کے خلاف جدوجہد میں قوم کے بیس لاکھ افراد کی جانیں نہیں گنوائیں؟ کیا فرانس نے اپنا ملک آزاد کروانے کے لیے یہی طریقہ استمال نہیں کیا تھا؟ پیٹرک ہنری کا مشہور زمانہ قول آج بھی مشہور ہے ‘‘مجھے آزادی دو یا موت دو‘‘
اس سب کے باوجود حماس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں یہودیوں یا کسی بھی دوسری قوم کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے نہیں گئی بلکہ اس کا ایک چھوٹا سا وفد سوئٹزر لینڈ میں عالمی برادری کے سامنے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی شرمناک اور انسانیت سوز غارت گریوں کی تفصیلات بتانے اور صہیونی حکومت کی جانب سے کئی سالوں سے فلسطینیوں کے بغیر کسی فرد جرم کے حراست میں رکھنے کے معاملے سے آگاہی دینے گیا تھا۔
فلسطینیوں کے خلاف شعلہ بیانی کرنے والے نیتن یاھو سے ذرا یہ پوچھا جائے کہ دنیا بھر میں بالخصوص جمہوری ممالک میں ایسا کونسا ملک ہے جہاں پر ایک یونیورسٹی کے استاذ، ایک ڈاکٹر اور مجلس قانون ساز کے ایک منتخب نمائندے اور اس کے خاندان کو رات کی تاریکی میں کیمپوں اور گھروں سے اٹھایا جاتا ہے اور پھر دس دس اور بارہ بارہ سال تک بغیر کسی فرد جرم اور ٹرائل کے حراستی مراکز اور جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایسا صرف خود کو دنیا کی سب سے بہتر قوم کہنے والی یہودیوں کی ریاست میں ہو رہا ہے۔
نیتن یاھو ظالموں اور اپنے بچوں کے قاتلوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ لیکن اسے یہ بھول گیا ہے کہ 1933-45 کے عرصے میں جرمن لیڈر آڈولف ہٹلر کی سربراہی میں نازی پارٹی (NSDAP) کی سکیورٹی فورسز ’’ویر ماخت‘‘، خفیہ ادارے ’’گستاپو‘‘ اور سکیورٹی اہلکاروں ’’شٹس شٹافل‘‘ کے مظالم کی طرح آج کے یہودی ویر ماخت، گستاپو اور شٹس شٹافلز نے لاکھوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کرڈالا ہے۔ جرمنی میں قائم ہونے والی اس ڈکٹیٹر شپ کے دوران یہودیوں کے خلاف برپا کیے جانے والے نام نہاد ہولو کاسٹ (اجتماعی تباہی) کے شکار بننے والے یہودیوں نے گزشتہ کئی سالوں سے فلسطینیوں کے خلاف بھی سست رو ہولو کاسٹ شروع کر رکھا ہے۔ تاہم جرمن نازیوں کے مقابلے میں یہودی نازیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی کہیں زیادہ اموات کو یکسر انداز کیا جا رہا ہے۔
مسٹر نیتن یاھو یاد رکھو تم نے فلسطینیوں سے ان کا وطن چھین کر ان کے گھر، شہر اور دیہات تباہ کرڈالے ہیں ایک چوتھائی آبادی کو ہجرت پر مجبور کردیا اور اب آپ ان ہی لوگوں کو دہشت گرد کہ رہے ہو؟
ٹولائز کے حملہ آوروں کی شناخت اگرچہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی تاہم اس سب کے باوجود یہ حملہ ظالمانہ تھے جس کی ہر حال میں مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن اس مذمت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اسرائیل کی قتل و غارت گریوں نے ہی یہودیوں پر ان حملوں کو ناگزیر بنا دیا ہے۔
میں لازم کہ رہا ہوں اس کارروائی کو درست قرار نہیں دے رہا۔
س شخص کو چشم تصور میں لائیے جس کی سارا خاندان اسرائیلی حملوں میں مارا گیا ہے تو وہ اپنے پیاروں کے انتقام کا کوئی موقع کیسے ہاتھ سے جانے دیگا؟ کیا تھرڈ ریچ (1933-45) کا عرصہ ختم ہوتے ہی یہودیوں نے فرشتوں کی صفات اختیار کرلی تھیں اور انہوں نے نازیوں کی طرح برتاؤ نہیں کیا تھا؟ اور یہاں آج تک دنیا بھر میں نازی قاتلوں کا پیچھا نہیں کر رہے؟
آپ پسند کریں یا نہ، اسرائیلی فلسطینیوں کے لیے جرمن نازی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونیوں نے مغربی میڈیا، امریکی حکومت اور کانگریس کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے اسی وجہ سے یہ سب آج کے دور کی ’’دوسری جنگ عظیم‘‘ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ یہودی جب بھی جرمن نازیوں کی طرح سوچیں گے، ان کی طرح کا رویہ اپنائیں گے اور انہیں کی طرح کے اعمال کریں گے تو چاہے وہ جتنے بھی یہودی نام رکھ لیں اور یہودی علامتی ٹوپیاں سر پر سجا لیں وہ جرمن نازی ہی کہلائیں گے۔