اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے کہا ہے کہ قومی حکومت اور قومی مفاہمت کے بارے میں ان کی جماعت میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ قومی مفاہمت کے بارے میں حماس کا موقف واضح اور دوٹوک ہے نیز حماس کی اندرون ملک اور بیرون ملک قیادت اس فیصلے سے مطمئن و متفق ہے۔
حماس کے مرکزی رہ نما اور پارلیمانی گروپ”اصلاح وتبدیلی” کے سربراہ ڈاکٹر بردویل نے ان خیالات کا اظہار مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس کی پوری قیادت کو خالد مشعل کی لیڈرشپ پر مکمل اتفاق ہے۔ قومی حکومت اور مفاہمت کے بارے انہوں نے جو فیصلے قاہرہ اور دوحہ میں کیے ہیں وہ حماس کی پوری قیادت کو منظور ہیں۔ حماس کی قیادت نے ایک زائد مرتبہ باضابطہ طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ مفاہمت کے بارے میں کیے گئے فیصلوں پر حماس کی پوری قیادت متفق ہے۔ انہوں نے صدر محمود عباس کی جماعت الفتح پر زور دیا کہ وہ حماس کے بارے میں ناپسندیدہ رویہ ترک کرتے ہوئے مفاہمتی عمل کوآگے بڑھانے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں صلاح الدین بردویل نے کہا کہ حماس کے خلاف "میڈیا وار” جاری ہے۔ اس وقت حماس کو بدنام کرنے کی اسی طرح سازشیں کی جا رہی ہیں جس طرح عرب ممالک میں انقلاب کو دبانے کے لیے بعض قوتیں سرگرم ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین بردویل کا یہ تفصیل انٹرویو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ فلسطین میں قومی حکومت کی تشکیل میں تاخیر کے سلسلے میں اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کا اصل محرک کیا ہے اور یہ تاخیر کب تک جاری رہے گی؟
ڈاکٹربردویل:۔۔قومی حکومت کی تاخیر میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ صرف صدر محمودعباس کی تجویز تھی جس سے حماس کی قیادت نے اتفاق کیا ہے۔ حکومت سازی کے عمل میں کچھ عوامل تاخیر کا موجب بن رہے ہیں۔ اس سلسلےمیں ایک تجویز یہ ہے کہ قومی حکومت صرف نوے روز کے لیے قائم کی جائے۔
اس حکومت کےسامنے بڑے قومی معاملات نہ ہوں بلکہ یہ صرف بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں انتخابات کرانے کی تیاریوں تک محدود رہے۔
قومی حکومت کی تشکیل میں تاخیر کے بارے میں میڈیا میں حماس پر الزام تراشی بلا جواز اورخلاف حقیقت ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ قومی حکومت میں تاخیر کا ایک سبب حماس کی مرکزی قیادت میں اختلافات بتائے جاتے ہیں۔ میں پورے وثوق اور دوٹوک الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ قومی حکومت اور مفاہمت کے تمام نکات میں حماس کی اندرون ملک اور بیرون ملک قیادت متفق ہے۔ حماس کی قیادت میں اختلافات کی خبریں سننا اور ان پر تبصرہ کرنا بھی میرےخیال میں وقت کا ضیاع ہے۔
دوحہ میں حماس اور صدر محمود عباس کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں صدر محمود عباس کو قومی حکومت کا وزیراعظم بنائے جانے کے بارے میں جماعت کی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں۔ حماس کی بقیہ قیادت نے اعلان دوحہ سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ معاہدے کے تمام نکات پر فوری طور پرعمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا۔
میرے خیال میں تمام معاملات فطری اندازمیں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فتح کی قیادت حماس پر الزام تراشی کے بجائے قومی مفاہمت کے اصولوں پرعمل درآمد کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ اعلان دوحہ کے بعد حماس کی قیادت میں اختلافات کی خبریں آئی تھیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر اختلافات تھے تو ان کی کیا حیثیت تھی اور کیا اب وہ دور ہو چکے ہیں؟
ڈاکٹر بردویل:۔۔ حماس نے میڈیا میں آنے والی خبروں کی تردید ایک نہیں کئی بار کر دی ہے۔ حماس کی جانب سے باضابطہ طور میڈیا کوایک پریس ریلیز جاری کر کے بتا دیا ہے کہ اعلان دوحہ کے بارے میں حماس کی قیادت میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ صدر محمود عباس کو قومی حکومت کا وزیراعظم مقرر کرنے پر سب کا اجماع ہے۔ حماس کی اندرون اور بیرون ملک قیادت نے اعلان دوحہ کی تمام شرائط کو جلد ازجلد نافذ العمل کرنے پر زور دیا ہے۔حماس کی قیادت میں اختلافات کی خبریں محض الفاظ کا کھیل تماشا ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ فتح کے بعض قائدین کا کہنا ہے کہ وہ حماس سے مفاہمتی معاہدے کو عمل شکل دینےکے لیے حتمی جواب کے منتظر ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا حماس کے ہاں ابھی کچھ امور زیرغورہیں کیا؟
ڈاکٹربردویل:۔۔ اس طرح کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں کہ حماس ابھی بہت سے امور پر غور کر رہی ہے۔ حماس کا تمام قومی معاملات پر موقف دوٹوک اور واضح ہے اور جماعت کی پوری قیادت اس موقف پر قائم ہے۔ اس طرح کی جتنی باتیں سامنے آئی ہیں، وہ فتح کےاندر داخلی اختلافات کا نتیجہ ہے۔ فتح کے داخلی اختلافات کو حماس کے کندھے پر ڈالنےاور گیند حماس کےکورٹ میں پھنیکنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ حماس کی داخلی قیادت میں جب سے اختلافات سامنےآئے ہیں۔اس کے بعد جماعت سے لگاؤ رکھنے والوں کو تشویش کا بھی سامنا رہا ہے۔ کیا اب لوگوں کے تحفظات دور ہو چکےہیں؟
ڈاکٹربردویل:۔۔ کسی بھی جماعت کی قیادت میں اختلاف رائے ایک عام سی بات ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس اختلاف رائے کو میڈیا اپنی انگلیوں پر اچھال کر اسے رائی سے پہاڑ بنا دیتا ہے۔ فرض کرو حماس کی قیادت میں اعلان دوحہ یا کسی بھی دوسرے معاملے میں کوئی بحث چل رہی تھی اور اس میں مختلف آراء بھی سامنے آ رہی تھیں تو اس میں کون سی پریشانی کی بات ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جماعت کی مرکزی قیادت کے داخلی اجلاسوں میں ہونے والی بات چیت کو میڈیا تک پہنچانا ہی نہیں چاہیے کیونکہ ذرائع ابلاغ بات کو بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔
کسی معاملے پر پائی جانے والی اختلافی آراء کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اصل چیز جماعت کی جانب سے باضابطہ طور پر جو موقف سامنے آتا ہے،وہ حتمی ہوتا ہے۔
چونکہ میڈیا میں اس طرح کی خبریں آئی تھیں کہ حماس کی قیادت میں اختلافات پائے جاتے ہیں، میں اس کی پہلے بھی وضاحت کرچکا ہوں کہ وہ اختلافات نہیں بلکہ رائے کا اختلاف تھا۔ جس کے بعد جمہور قیادت نے جس کا فیصلہ کیا اختلاف رائے رکھنے والوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہے۔ اب ایسی پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ حماس نے باضابطہ طور پر اپنے بیان میں بتا دیا ہے کہ جماعت کی قیادت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ برطانوی اخبار”الحیاۃ” نے اپنی رپورٹ میں یہ اطلاع دی تھی کہ اعلان دوحہ کے بعد حماس کی قیادت میں اختلافات پیدا ہوئے جس کے نتیجے میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے ناراض ہو کر آئندہ خود کو سیاسی شعبے کا سربراہ نامزد نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح کی افواہوں کوآپ کس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹربردویل:۔ ۔میں باربار اپنی بات دہرا رہا ہوں کہ حماس کےخلاف ایک میڈیا وار برپا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حماس اس وقت عرب بہاریہ کی چوٹی پر واقع ہے۔ اس میڈیا جنگ کی ایک وجہ جماعت ایک متوازن سیاسی اور اسلامی پروگرام ہے جوبعض قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
یہی وجہ ہےکہ یہ علاقائی قوتیں حماس کو اس قومی اصولی اور دینی پروگرام میں کامیابی سے روکنا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں حماس کو اس کی منزل سے دور رکھنے کے لیے میڈیا کا میدان استعمال کر رہی ہیں۔ حماس کی قیادت میں اختلافات کی جتنی خبریں آج کل سامنے آ رہی ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے۔
جہاں تک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل(ابو ولید) کی جانب سے خود کو جماعت کے سیاسی شعبے سربراہ کے لیے نامزد نہ کرنے کا اعلان کرنا ہے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں، اسلیےکہ حماس میں تنظیم کے کسی عہدے پر اپنی نامزدگی جماعت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم کسی بھی عہدے کے لیے خود کونامزد نہیں کرتے بلکہ جماعت کی ایک مجلس شوریٰ ہے جو ہر رکن کوجماعت کی ذمہ داری سونپتی ہے۔ جب ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے تو ارکان کو اس پرعمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔
خالد مشعل کی جانب سے جب اپنی نامزدگی کے برعکس بیان سامنے آیا تو حماس کی مرکزی قیادت کا ردعمل اس کا جواب ہے۔ کیونکہ حماس کی قیادت نے ان کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے خالد مشعل نے بھی اس کے بعد مزید کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ البتہ یہ کہنا قبل ازوقت ہےکہ حماس کے سیاسی شعبے کا آئندہ سربراہ کون ہو گا۔ آیا یہ ذمہ داری خالدمشعل کے پاس رہے گی یا اس پرکسی دوسرے رہ نما کو متعین کیا جائے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔۔ فلسطین میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے بارے میں ہونے والی پیش رفت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا مفاہمتی نکات کوعملی طور پر نافذ کیا جا رہا ہے یا نہیں؟
ڈاکٹربردویل:۔۔۔ فلسطین میں مفاہمت ایک ہمہ گیرعمل ہے۔ حماس اور فتح کے درمیان اعلان مکہ، اعلان قاہرہ اوراعلان دوحہ سمیت اور کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ حماس اور فتح کی قیادت میں بہت سے قومی امور کے بارے میں اختلافات ہیں۔ تاہم دونوں جماعتیں باہمی اتفاق رائے پیدا کرنے اور مشترکات کی تلاش میں ہیں۔
بیشتر امور ایسےہیں جن پر اتفاق رائے ہو چکا ہے اور کم ایسے ہیں جن پر بات چیت چل رہی ہے۔ دونوں جماعتیں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہیں۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آ سکتی ہیں تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں جماعتیں ایک مضبوط سیاسی ارادہ اور خلوص نیت کا مظاہرہ کریں۔ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرملکی دباؤ سے باہر نکل آئیں۔ مغربی کنارے میں سیاسی گرفتاریاں بند کی جائیں اور اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون ختم کیا جائے تو مفاہمت کا عمل حقیقی روپ اختیار کر سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ غیرملکی دباؤ سے باہر نکلنا اور مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ایک مشکل کام ہے تاہم عزم صمیم ہو تو یہ مشکل بھی حل ہو سکتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔۔ صدر محمود عباس ایک جانب اسرائیل سے مذاکرات کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ مفاہمت کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا صدر عباس کے اقدامات مفاہمت کا عمل تعطل میں ڈالنے کا موجب نہیں بنیں گے؟
ڈاکٹربردویل:۔۔۔ اسرائیل سے مذاکرات کے معاملے پر صدر محمود عباس کا اپنا مخصوص نقطہ نظرہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات مسئلہ فلسطین کا بہتر حل ہے۔وہ مذاکرات کی جانب اس لیے بھی مائل ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اگراسرائیل سے مذاکرات کا اگر انکار کر دیا جائے تو صہیونی ریاست کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آئےگا۔ ایسی صورت میں انہیں یورپی یونین اور کئی دوسری بڑی طاقتوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔
حماس کا اسرائیل سے مذاکرات کے بارے میں نقطہ نظر مختلف ہے۔حماس یہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل اسرائیل سے مذاکرات نہیں بلکہ قومی مفاہمت اور مسلح مزاحمت کے پروگرام سے ہے۔ اسرائیل سے مذاکرات کی بے سود مشق ختم کر کے اپنے حقوق کےلیے خود کو مادی طورپر مضبوط اور منظم کرنا چاہیے۔ جہاں تک صدر محمود عباس کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات کے مفاہمت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ اسرائیل سے مذاکرات ہی مفاہمت کی راہ میں اصل رکاوٹ ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔۔ حالیہ کچھ دنوں کےدوران غزہ کی پٹی میں ایندھن بالخصوص بجلی کے بحران نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کیا۔ یہ بحران ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا جب عرب ممالک میں تبدیلی کی ایک لہر چل رہی ہے۔ آپ کے خیال میں ایسے حالات میں جب فلسطینیوں کی ہمدردی کے جذبات بڑھ رہے ہیں غزہ کی مشکلات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ڈاکٹربردویل:۔۔غزہ کی پٹی میں بجلی اور توانائی کا حالیہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ کئی سال پرانا ہے۔ جب سے اسرائیل نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی شروع کی تھی، اس وقت سےغزہ میں صرف توانائی کا نہیں بلکہ کئی دیگر بحران بھی پیدا ہوئے ہیں۔ توانائی کےموجودہ بحران کا آسان حل نکال لیا گیا ہے۔ مصر نے غزہ کی پٹی کو ایندھن کی فراہمی اور اسلامی بنک کے تعاون سے غزہ میں پاور اسٹیشن چلانے میں تکنیکی اور مالی معاونت کے بعد اب بحران جلد ختم ہونے کا امکان ہے۔
میرے خیال میں غزہ کی پٹی میں توانائی کا تازہ بحران بعض سیاسی وجوہات کا بھی نتیجہ تھا۔ غزہ کی پٹی میں مغربی کنارے کی جانب سے بجلی اور ایندھن کی فراہمی روک دی تھی۔ اس کےعلاوہ کچھ ایسی ہی وجوہات تھیں جن کی بنیاد پراسرائیل کی جانب سے ایندھن کی فراہمی میں کمی کی گئی تھی۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ غزہ کی پٹی میں توانائی کے بحران کو فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت اور قومی حکومت کی تشکیل کے ساتھ مشروط کیا جا رہا ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ڈاکٹر برودیل:۔۔۔ میرا خیال ہے کہ غزہ کے بحران کے حل کو مفاہمت یا قومی حکومت کے قیام کے ساتھ مشروط کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کی کوششیں گذشتہ ایک سال سے جا ری ہیں۔ کیا یہ بحران مزید غیرمعینہ مدت تک کے لیے جاری رہ سکتا ہے۔ایسا ہرگزنہیں۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غزہ کی پٹی کے بچوں، بیماروں طلباء اور عام شہریوں کی مشکلا ت کو سیاسی معاملات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ حماس کے بارے یورپی یونین نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط اپنی جگہ اب بھی قائم ہے۔ آپ کے خیال میںیہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی؟
ڈاکٹربردویل:۔۔ حماس کی قیادت نے سوئس سفارت خانے کے ذریعے یورپی یونین کے حکام سےمتعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں حماس نے ان کے سامنے مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنا نقطہ نظررکھا۔ اس کےعلاوہ حماس کی قیادت کے سامنے یہ واضح ہوا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مسئلہ فلسطین کےحل کے بارے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور یورپ خطے میں جلد اور دیرپا امن کا خواہاں ہے۔
جہاں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی یورپی یونین کی شرط کا تعلق ہے کہ حماس نے ایک نہیں کئی مرتبہ واضح کر دیا ہے کہ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ یہ بھی ایک بڑی پیش رفت ہے کہ یورپ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط عائد کرنے کے باوجود حماس کی قیادت سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔
گوکہ ہماری ان ملاقاتوں میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ چھیڑا گیا لیکن حماس نے دوٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے وطن پر ناجائز طور پر قائم کیا گیا ہے۔ فلسطینی عوام اپنی آزادی جیسے بنیادی حق کے لیے جو جہدو جہد کر رہے ہیں وہ اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رو سے بھی جائز ہے۔
اس کے علاوہ یورپ کی جانب سے حماس کے ساتھ قربت کی ایک وجہ عرب ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات ہیں بالخصوص مصر میں اخوان المسلمون کی سیاسی اور انتخابی کامیابیوں نے یورپ کو اخوان المسلمون کے زیادہ قریب کیا۔ یوں بالواسطہ طور پر اخوان المسلمون سے رابطے یورپ کو حماس کے قریب لانے کا موجب بنے۔ اب یورپ کو بھی حماس کو تسلیم کرنے میں تاخیر کی غلطی کا احساس ہو رہا ہے یہی وجہ ہے وہ مختلف چینلز سے حماس کی قیادت کے ساتھ افہام و تفہیم کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ امریکا کی جانب سے مصر کی دینی جماعت اخوان المسلمون اور تیونس کی حکمراں النہضہ کے ساتھ قربت، کیا واشنگٹن اور حماس کو قریب لانے کا اشارہ ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹربردویل:۔۔ حماس کے ساتھ امریکا کے تعلقات کے دو پہلو ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسراثقافتی۔ یہاں پر بھی میں اخوان المسلمون کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھوں گا۔ کیونکہ حماس اور اخوان المسلمون کے فلسفہ سیاست اور فلسفہ ثقافت میں ہم آہنگی موجود ہے۔اب جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ امریکا نے اخوان المسلمون کو ثقافتی اور سماجی پہلو سےتسلیم کر لیا اور اس کے فلسفے سے واشنگٹن متفق ہو گیا تواس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ امریکا نے گویا حماس ہی کے فلسفہ سماجیات کو تسلیم کر لیا ہے کیونکہ بنیادی طور پر حماس اسی مدرسہ فکرSchool of thought”” سے تعلق رکھتی ہے۔
جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو حماس اور اخون المسلمون کے سیاسی فلسفےمیں بھی کوئی فرق نہیں۔ البتہ منشور کے طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ امریکا اخوان المسلمون کے ثقافتی فلسفے کو تسلیم کرتے ہوئے حماس کے ثقافتی نظریے کو بھی تسلیم کر لے گا لیکن سیاسی پہلو سے وہ حماس اور اخوان کو ایک دوسرے سے جدا کرے گا۔
ان حالات میں اخوان المسلمون کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حماس کو امریکا اور بعض دوسرے ممالک کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اقدامات کے خلاف مہم چلائے اور حماس کو ان ممنوعہ فہرستوں سے نکالے۔ اگر اخوان المسلمون بھی یہ کام نہیں کر سکے گی توہم کسی اور سے اس کی توقع نہیں کر سکتے۔