جرأت و عزم کی علامات دیگر کئی فلسطینی قائدین کی طرح شیخ خضر عدنان نے بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں پر جاری مظالم کے خلاف فلسطینیوں کی تاریخی جدوجہد کی ایک اور شاندار مثال قائم کر دی ہے۔ یہ جدوجہد جرمنی کے نازی دور کے جرائم کو مات دینے والے صہیونی جرائم کے خلاف جاری ہے۔
شیخ عدنان نے چونسٹھ روز لگاتار بھوک ہڑتال کی جس کی بنا پر ان کا جسم اتنا کمزور ہوگیا کہ وہ کسی بھی وقت موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ان کی بیوی، جو کچھ روز قبل ہی ان سے ملاقات کر چکی ہیں، کہ مطابق ان کا وزن آدھا رہ گیا ہے۔ ان کے ارادے پختہ ہیں تاہم ان کا جسم دن بدن گھلتا جا رہا ہے۔
عدنان خود کشی کرنے یا آئرلینڈ کے معروف رضا کار اور آزادی کے لیے لڑنے والے بوبی سینڈ کی طرح کی بھوک ہڑتال نہیں کر رہے جو ہمیشہ کے لیے جاری رہے۔ فلسطین کے بوبی سینڈ اسرائیلی مظالم کی داستان کے ایک غلیظ باب کے سامنے علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔ یہ بے گناہ فلسطینی رضا کاروں کو بغیر کسی ٹرائل کے مہینوں اور سالوں تک عقوبت خانوں میں دردناک عذاب دینے کی کہانی ہے۔
ہزاروں فلسطینیوں کو اس کھلی مدت کی حراست کا ہدف بنایا جا چکا ہے گرفتاریوں کی اس تلوار کی دھار اسرائیل کی جانب سے اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والی صہیونی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے مظلوم فلسطینیوں کو کاٹتی جا رہی ہے۔
انتظامی حراست ایک طاقتور ریاست اور عسکری طور پر قابض حکومت کی جانب سے بے یار و مدد گار فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی ایک بھیانک صورت ہے۔ اسرائیل کو اپنے جرائم میں دنیا کے طاقتور ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ بالخصوص یورپ اور شمالی امریکا میں کئی صدیوں سے یہودیوں کے خلاف ہولو کاسٹ اور عیسائیوں کے آسمانی مذاہب مخالف رویے کی وجہ سے شرمندگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب فلسطینیوں پر نازیوں جیسے مظالم برپا کیے جانے پر بھی مدہوشی کے عالم میں ہیں۔
جہاں تک فلسطینیوں کے مصائب و آلام کا تعلق ہے شیخ عدنان نے ان کے دکھوں کو بڑے بہتر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس وقت شیخ عدنان کے ساتھ پورے فلسطین میں اظہار یک جہتی کیا جا رہا ہے۔ فلسطین کے دیہاتوں، شہروں اور مہاجرین کیمپوں شیخ کے ساتھ یک جہتی میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
شیخ عدنان کی لاچاری کی پکار اس وقت فلسطینیوں کی لاچاری کی نمائندگی کر رہی ہے۔ یہ پکار اسرائیل کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کر رہی ہے اس ذہنیت کے مطابق غیر یہودی کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی حرمت ہے۔ شیخ کے اس اقدام سے ان کی بہادی، جرأت اور اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے خود کو قربان کرنے کے جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک بار پھر کئی دہائیوں سے جرمن نازیوں جیسے اسرائیلی مظالم سہنے والے فلسطینیوں کے عزم و ہمت کو دوبارہ جلا ملی ہے۔
شیخ عدنان کی زندگی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ ان کی جانب سے اس بے مثال جدوجہد نے ایک بار پھر تمام فلسطینیوں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ انسانی اقدار کے تحفظ کے جدوجہد کے دوران نسل پرست اسرائیل پر کبھی اعتبار نہ کیا جائے۔
اپنے انتہائی فحش قسم کے انصاف کی توجیہ دیتے ہوئے اسرائیلی حلقے شیخ عدنان کو دہشت گرد قرار دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے ان دعووں پر کان دھرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے نازی ازم طرز کےمظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمیشہ اس قسم کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔
جی ہاں، اگر شیخ خضر عدنان واقعی دہشت گرد ہیں تو انہیں قابل عزت عدالت کے سامنے کیوں پیش نہیں کر دیا جاتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ خضر اور ان جیسے درجنوں دیگر بے گناہ فلسطینی بغیر کسی فرد جرم کے محض انتظامی حراست کاٹ رہے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں ان لوگوں کو ایک دن کے لیے بھی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم بے گناہ ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری ملک ہی نہیں ہے بالخصوص اس صورت میں جب تلمودی یہودیت کے رو سے یہاں پر بسنے والوں کو انسانیت سے خارج کر کے دنیا کے سب سے معزز یہودیوں کے لیے پانی بھرنے اور فصلیں اگانے والے خدمت گزار شمار کیا جاتا ہے۔
اس بات میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں کہ اسرائیل اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں غیر یہودیوں کے لیے کوئی انصاف نہیں ہیں اس مستزاد یہ ہے کہ یہودی پیشواؤں اور شمالی امریکا اور یورپ کے جانبدار میڈیا کی جانب سے فلسطینیوں پر تنقید کے تند و تیز تیر برسائے جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو کیا جرمنی، برطانیہ اور فرانس میں کوئی ایسا قیدی ہے جسے دس سال سے بغیر کسی فرد جرم کے حراست میں رکھا گیا ہو۔
بغیر کسی معیاد اور وجہ کے حراست میں رکھنا قید کی سب سے بدتر قسم ہے جہاں پر مظلوم شکار کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کس وجہ سے خاندان سے دور کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کب رہا کیا جائے گا اور کب رہا کرنے کے بعد دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔
اسرائیلی خفیہ ادارے اپنے اختیارات کا کھل کر ناجائز استعمال کر رہے ہیں بالخصوص فلسطینیوں کے حق میں ان کی کارروائیاں بدترین شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ ان سب غیر انسانی جرائم اسرائیلی عدالت کے علم میں ہوتے ہیں تاہم صہیونی عدالتوں نے ان مظالم پر خاموش رہنے کا خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس طریقے سے یہودی مذہبی پیشواؤں کی جانب سے غیر یہودیوں کو انسانیت کے دائرے سے خارج قرار دینے کی ہدایات پر بھی عمل ہوتا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فلسطینی قیدیوں کو شدید ذہنی صدمے سے دوچار کر رہے ہیں، بغیر کسی فرد جرم کے گرفتار کیے گئے قیدیوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ انہیں مطلوبہ ضروری کارروائی پوری کر کے رہا کر دیا جائے گا۔ ایسا ہی ہوتا ہے اسیر کو متعلقہ پروسیجر سے گزار کر جیل کے مرکزی گیٹ سے باہر نکالا جاتا ہے مگر ساتھ ہی انہیں دوبارہ حراست میں دوبارہ اسی بیرک میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
یہ غیر انسانی طرز عمل قیدیوں کے ساتھ اتنی بار دوہرایا جاتا ہے کہ اب فلسطینی اسیران نے ایسی صورتحال سے نمٹنے اور خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی راہیں ڈھونڈ لی ہیں۔ اسیران اس بات کی پہلے سے منصوبہ بندی کرنے لگے ہیں کہ جس وقت انہیں رہائی کی خوش خبری سنائی جائے گی اس صورتحال میں انہوں نے کس طرح خود کو اذیت سے بچانا ہے۔
اسرائیلی فورسز کی جانب سے قیدیوں کے ساتھ اپنائے گئے اوچھے ہتھکنڈوں کی ایسی ہی ایک مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب فوج نے چھ یا سات سے سے زیر حراست ایک فلسطینی اسیر کو رہا کر دیا، اسیر رہا ہو کر کچھ روز ہی اپنے گھر رہا کہ اسے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اس سب کا مقصد فلسطینی اسیر اور اس کے اہل خانہ کو ذہنی صدمے اور شدید اذیت سے دوچار کرنا تھا۔
یہ واقعہ تاریخی شہر الخلیل کے قریب گاؤں کے رہائشی میڈیکل عملے کا کارکن ایاض ڈیڈن کے ساتھ پیش آیا۔ انہیں چھ سال تک بغیر کسی فرد جرم کے حراست میں رکھ کر رہا کیے جانے کے چند روز بعد ہی ایک کارروائی میں دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔
میں ڈیڈن کی رہائی کے فورا بعد اس سے ملا تو اس کا مجھ سے یہی استفسار تھا کہ آیا یورپ اور امریکا اسرائیل کی جانب سے قانون کی حکمرانی کے ساتھ کیے جانے والے اس کھلواڑ سے آگاہ ہیں اور آیا انہوں نے اسرائیل کے متعلق اپنی ذہنیت تبدیل کی ہے یا نہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ مغربں قوتیں اور امریکا اچھی طرح اسرائیل کے نسلی تعصب اور مجرمانہ ذہنیت کو جانتے ہیں لیکن ان کے پاس برے کو برا کہنے کے لیے درکار سیاسی عزم کی کمی ہے۔ ایک بار پھر اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں انتظامی حراست کی پالیسی نا صرف غیر معمولی حیثیت اختیار کرگئی ہے بلکہ عدلیہ سے بالاتر ہوکر گرفتاریوں کے اس سلسلے کو فلسطینی سرگرم رہنماؤں اور کارکنوں کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ صہیونی حکام اس پالیسی فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اسرائیلی بہتر طور پر سمجھتا ہے کہ وہ ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کو بسوں اور ٹرکوں پر بٹھا کر ملک سے باہر نہیں نکال سکتا۔ تاہم اس کی یہ شدید خواہش ہے کہ فلسطین بھر کے تمام عرب باشندے دنیا کی اعلی ترین نسل پر مشتمل اپنے آقاؤں کے لیے خود ہی اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اسرائیلی حکومت کے خلاف میں منتخب یہودی قوم کے لیے ملک کو خالی کرنے کے بہتر طریقہ یہی ہے کہ فلسطینیوں پر اپنے ظلم ڈھائے جائیں کہ وہ اپنے ارادے سے ہی دیگر ممالک میں جا بسیں۔
ہم اس موقع پر یہ سوال بھی بھرپور طریقے سے اٹھاتے ہیں کہ آیا یورپ اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسرائیلی یہودیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر یہودی مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا یہودی رہنماؤں کو جواب دینا ہے۔
یہ ایک بدیہی امر ہے جسے قانون کا ہر طالب علم بڑی اچھی طرح جانتا ہے کہ کوئی بھی شخص جب تک اس کے خلاف جرم ثابت نہ ہوجائے بے گناہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ قانون کے طلبہ اور ان کے پروفیسرز یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو صرف اس بنا پر مجرم قرار دے دینا قرین از قیاس ہے کہ وہ مختلف قبیلوں پر مشتمل یہودی کلب کا حصہ نہیں۔
اسرائیلیوں اور صہیونیوں کی حس منصفانہ سے کسی قسم کی اپیل کرنا بے فائدہ ہو گا۔ یہ لوگ کسی بھی مبنی بر انصاف روش اور احساس سے عاری ہیں اگر ان میں انصاف اور اصول کی تھوڑی سی رمق بھی باقی ہوتی تو یہ آج جو کر رہے ہیں ایسا نہ کر رہے ہوتے۔
صہیونی انسانیت سوزیوں کے مدنظر فلسطینیوں، عرب اور اسلامی دنیا اور فلسطینیوں کے تمام دوستوں کو بدمعاش اور ظالم صہیونی حکومت کو ہٹانا اولین ترجیح بنانا ہوگی۔ اگر ایسا کرنے سے ہی نہ صرف فلسطینیوں بلکہ ساری دنیا کو اس بدکردار ریاست سے نجات مل جائے گی۔
اسرائیل کی اصلاح یا درستی کی جا سکتی ہے نہ ہی اسے منصفانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسے لازمی طور پر ختم یا اخلاقی جواز رکھنے والی کسی بہتر ریاست سے تبدیل کرنا ہو گا۔