پال آسٹر (Paul Auster) ایک انتہاء پسند امریکی یہودی مصنف نے اس وقت اپنے دوغلے پن کا کھل کا اظہار کر دیا جب وہ ایک جانب ترکی میں انسانی حقوق کی تاریخ پر تنقید کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل میں غیریہودیوں پر ڈھائے گئے مظالم اور غیر انسانی سلوک پر انتہائی پرسکون رہتے ہوئے بات کرنے پر بھی رضامند نہیں تھے۔ بالخصوص اسرائیل میں فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر وہ بالکل خاموش تھے۔
اپنی اخلاقی منافقت کو خاموشی سے تسلیم کرنے کے بجائے انہوں نے انتہائی آدھا سچ بیان کرتے ہوئے بڑے پرجوش انداز میں کہا کہ ہر ملک کی کچھ ناکامیاں ہیں اور دنیا کا کوئی ملک بھی مکمل نہیں۔
قبل ازیں ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے پال آسٹر کو نسلی تعصب کی آماجگاہ اسرائیل کا دورہ کرنے اور ترکی میں نہ آنے پر جاہل قرار دیا تھا۔ ایردوان کا کہنا تھا ’’اگر وہ آجاتا، تو کیا ہوتا؟ اگر وہ نہیں آتا تو کیا ہوتا؟ کیا ان کے دورہ نہ کرنے سے ترکی اپنی عظمت کھو دے گا؟‘‘
گزشتہ ہفتے نیو یارک ٹائمز کے آرٹس بیٹ بلاگ میں شائع اپنے ایک بیان میں صہیونیت نواز مصنف نے اپنا ترکی کے دورے کا بائیکاٹ کرنے کے دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترک وزیر اعظم اسرائیل کے متعلق جو مرضی کہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، یہاں پر کوئی صحافی اور مصنف جیل میں نہیں ہے۔
آسٹر کے دعووں کے برعکس نہ تو اسرائیل میں حقیقی آزادی اظہار رائے ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی سچائی ہے کہ خود ساختہ اسرائیلی ریاست میں کوئی صحافی حراست میں نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست میں صحافیوں کو متعدد وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا جاتا ہے۔ بعض کو سنسر شپ قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر تو بعض کو اپنے ذریعہ خبر کو ظاہر نے کرنے کی پاداش میں۔ مزید برآں ایسے دانشور خواہ وہ صہیونی ہی کیوں نہ ہوں کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے جو اسرائیلی نسل پرستانہ اور امتیازی پالیسیوں اور فلسطینیوں کے خلاف اس کے مجرمانہ طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنائے۔ اس طرح کے دانشوروں میں امریکا کے دو یہودی دانشور نوم چومسکی اور نارمن فنکلسٹائن ہیں، جن پر اسرائیلی جرائم، اس کی انتہاءپسندانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کی پاداش میں اس نام نہاد یہودی ریاست میں داخل ہونے پر پاپندی عائد کر دی گئی ہے۔
مزید آگے نہ جائیں خود فاضل مصنف کو بسا اوقات یہودی فاشزم اور نسلی تعصب کے خلاف بولنے پر شدید دباؤ اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غیر اخلاقی اور غیر انسانی سلوک کے علاوہ ان کے سفر پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ پریس آفس اور مشرقی القدس میں انکا ایک اخبار کو بند کر دیا گیا۔ مصنف یہ بھی کہ چکے ہیں کہ کچھ سال قبل اسرائیلی سول انتظامیہ نے مغربی کنارے میں تمام عربی اخباروں کو میرا کوئی بھی آرٹیکل نہ چھاپنے کی ہدایت کر دی ہے جس کی مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی۔
آج بھی اسرائیل میں متعدد صحافی بغیر کسی مقدمے اور ٹرائل کے، صہیونی عقوبت خانوں میں قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر نابلس کے قریبی علاقے بیت فورک سے گرفتار کیے گئے نواف العمر ایک طویل عرصے سے اسرائیلی عسکری جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔ انہیں بیروت کے ایک سیٹلائٹ چینل القدس ٹی وی میں کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔
ان کے وکیل متعدد بار اسرائیلی عدالتی حکام سے اپیل کر چکے ہیں کہ نواف العمر پر لگائے گئے الزامات بتائے جائیں تاہم یہ سب سے سود رہا۔
امین ابو وردہ ایک دوسرے صحافی ہیں جنہیں بغیر کسی فرد جرم یا عدالتی ٹرائل کے جیل کی تاریک کال کوٹھریوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ تدامن فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ابو وردہ کو آٹھ جنوری بروز بدھ سے پانچ ماہ کے لیے انتظامی حراست میں منتقل کریا گیا ہے۔
ان کو یہ شرمناک اور ظالمانہ سزا اسرائیلی داخلی سکیورٹی کی خفیہ ایجنسی شاباک کی جانب سے دی گئی ہے۔ تدامن کے مطابق چھیالیس سالہ ابو وردہ کو اٹھائیس دسمبر 2011ء کو نابلس سے اٹھایا گیا تھا اور وہ اب میگیڈو جیل میں مقید ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کے مطابق فلسطینی صحافی ابوردہ کو انتظامی حراست میں رکھنا واضح طور پر غیر قانونی اور انصاف کے تمام تقاضوں کے منافی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاباک کے پاس عدالت میں ان کے خلاف کسی بھی الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔
صہیونی مظالم کا شکار صحافیوں میں ایک معروف عرب سیٹلائٹ چینل ’’الجزیرہ‘‘ کے افغانستان میں نمائندے ’’سمر علاوی‘‘ بھی ہیں، انہیں کئیہ فتوں کو ایسی حراست میں رکھا گیا جہاں انہیں کسی سے بات چیت کی بھی اجازت نہیں دی گئی، مبینہ طور پر اسرائیلی تفتیش کاروں نے انہیں انتہائی معمولی نوعیت کے الزامات میں بہیمانہ تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا ہے۔
سمر علاوی اپنے خاندان سے ملنے مغربی کنارے آئے تھے، وہ ملاقات کے بعد واپس جا رہے تھے کہ انہیں اردن سے ملحق کراسنگ سے حراست میں لے لیا گیا۔ صہیونی سکیورٹی فورسز نے ان پر مختلف قسم کے الزامات لگانے کی کوشش کی تاہم بالآخر کسی بھی طرح کے الزامات ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد اسرائیلی سکیورٹی فورسز کو اس پینتالیس سالہ صحافی کو رہا کرنا پڑا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، آزادی اظہار رائے پر پابندی تو اسرائیل کے یہودیوں کی جانب سے نسل پرستانہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے جو وہ مقدس قبائل (یہودیوں) سے تعلق نہ رکھنے والوں کے خلاف کرتا ہے۔
پال آسٹرس کو یہ دعوی کرنے کہ اسرائیل ایسی ریاست ہے جہاں پر مذہب، نسل اور جنس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سب سے مساوی سلوک کیا جاتا ہےسو بار سوچنا پڑے گا۔ اس اظہر من الشمس حقیقت کو نظر انداز کرنے پر پال آسٹر کی ایمانداری اور حقیقت شناسی پر بڑے سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو اسرائیل ایک قابل نفرت ریاست ہے جو ایسے غلط اور تالمودی قوانین پر قائم ہے جس کے مطابق غیر یہودی بنیادی انسانیت کےدائرے سے ہی خارج کہلاتے ہیں۔ ہم اسرائیل کے بارے میں اکثر ایک ہی رٹ سنتے رہتے ہیں کہ یہ ایک یہودی اور جمہوری ریاست ہے۔ لیکن یہ بات ایک عام ذہن کا آدمی بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ جمہوریت کے تمام فوائد صرف یہودیوں کو ہی حاصل ہیں۔ مزیدبرآں یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ جہاں کہیں جمہوریت اور یہودیت میں تھوڑا سا بھی فرق آئے تو ترجیح کس کو ہوتی ہے۔
گزشتہ برس ہی کی بات ہے کہ مشرق وسطی کے یہودیوں کی ترجمان بنیاد پرست پارٹی شاس کے روحانی پیشوا اویدا یوسف نے مغربی القدس میں اپنےایک بیان میں یہ کہا تھا کہ امریکی اور یورپی عیسائیوں، جو اسرائیل کی حمایت کرنےمیں پاگل ہوئے جاتے ہیں، سمیت تمام غیر یہودی دراصل درندے اور گدھے ہیں جنہیں خدانے اس لیے پیدا کیا ہے کہ برگزیدہ اور اعلی یہودی نسل کی خدمت کریں۔
اویدا یوف اسرائیل میں کسی بھی طرح کوئی ناقابل اعتناء اور چھوٹی شخصیت نہیں۔ ہزاروں افراد ان پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وہ اسرائیل کے بادشاہ گر شمار ہوتے ہیں۔ بالخصوص انتخابات کے زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کے بیشتر سیاستدان ان کی چوکھٹ پر حاضریاں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ یوسف کے بیان اور بہت سےلوگوں کی جانب سے اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز بیانات کے بعد اسرائیلیوں کی اکثریت کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑتا۔ یہاں آسٹر سے ایک سوال پوچھنا انتہائی ضروری ہے کہ اگر کسی مسلمان یا عیسائی کی جانب سے کہا جاتا کہ یہودی گدھے ہیں اور ان کی زندگیاں اتنی اہم نہیں اور یہ کے ان کا اپنا کوئی وطن نہیں ہے تو اس پر ان کا ردعمل کیا ہوتا؟
ہمیں معلوم ہے کہ اکثر امریکی یہودی مصنف اسرائیلی نسلی تعصب یا زیادہ بہتر طور پر یہودی نسلی پرستی پر تنقید کرنے سے گریز کریں گے بالخصوص اس تعصب پر براہ راست حملے سے صہیونی قبائلیت پسندی کی حقیقت اور ان لکھاریوں کے آزادانہ اقدار کے دعووں کے مابین اسرائیل کی منافقت کی قلعی کھل کر سامنے آ جائے گی۔
اصل سچائی یہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران اسرائیل اور مغربی جمہوریت کے درمیان ایک بڑا خلا اور کھلا تضاد ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کے علاوہ باقی جمہوری دنیا کہاں چلی گئی ہے۔اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جس نے جرائم پیشہ عناصر سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور یہاں پر مجرمانہ سرگرمیوں کے ثبوت چھپا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات بذات خود ایماندارانہ نہیں کہ جمہوریت کے ایک رخ کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے جبکہ اس نظام میں بلاامتیاز انصاف کی فراہمی کی عدم موجودگی سے سے صرف نظر کی جاتی رہے۔ اسرائیل میں اس شخص کوکسی بھی طرح صحیح الدماغ قرار نہیں دیا جا سکتا جو یہ کہے کہ یہاں کی عدالتوں میں یہودیوں اور غیر یہودیوں کے ساتھ ایک سا سلوک برتا جاتا ہے۔
اکثر مقدمات میں بالخصوص جب جارحیت کا مرتکب کوئی یہودیہوں، ملزم کو بچانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی جاتی ہے اور اس یہودی کو بری قرار دیے دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب غیر یہودی ملزم جب تک اپنی بے گناہی ثابت نہ کر دے وہل ازمی طور پر مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی میڈیا میں یہ خبر بھی نشر ہوئی ہے کہ یہودی آباد کاروں نے القدس میں اسلامی اور مسیحی مقدس مقامات پر جارحانہ نعرے لکھڈالے ہیں۔ دیواروں پر درج عبارات میں ’’مسحیت کے لیے موت‘‘ اور ’’عربوں کے لیےموت‘‘ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ مزید برآں جنوبی القدس کے علاقے بیت صفافا میں ایک عرب ۔ یہودی اسکول کو بھی مشتبہ انتہائی پسند یہودی آباد کاروں نے ہدف بنایا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ غیر یہودیوں سے نفرت کرنے والوں یہودی آباد کاروں نے مغربی کنارے کی مساجد پر حملہ کیا ہو۔ صہیونی حملہ آور فلسطینیوں کی زرعی اراضی، زیتون کے درخت اور دیگر املاک کو بھی لگاتار ہدف بناتے رہتے ہیں لیکن اسرائیلی پولیس اور انتظامیہ ان جنگجو حملہ آوروں کو ان کارروائیوں سے باز رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
حتی کہ اسرائیلی تجزیہ کار بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسرائیلی پولیس، فوج حتی کہ سیاسی رہنما بھی ان آباد کاروں اور وقت کے ان نوجوان ہٹلروں کے ساتھ ہاتھ ملائے ہوئے ہیں۔
میں پال آسٹر سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنے امریکی قارئین کو اسرائیل کے اس بدنام زمانہ چہرے سے بھی آشنا کرائیں۔ میں جانتا ہوں کہ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے ایک معترف صہیونی کے لیے برے کو برا کہنا بڑا مشکل ہے۔ تاہم یہ بھی اخلاقی طور پر کرنے کا ایک کام ہے۔