فلسطینی اتھارٹی (PA) کے نام نہاد وزیر اعظم سلام فیاض نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیلی پابندیوں اور رکاوٹوں کےباعث لاچار اور معذور ہے. چار فروری کو جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’’یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ ہم اسرائیلی پابندیوں اور کمزور کرنے والے اقدامات کی بدولت انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں‘‘
’’ہم اسرائیل کے فوجی تسلط کے نیچے رہ ہے ہیں، اور اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں‘‘ ان کا مزید کہنا تھا۔
سلام فیاض نے کانوں سے بہری عالمی برادری سے اپیل کی وہ اسرائیل پر اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل کرنے، مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع روکنے، فلسطینی اراضی کو ہتھیانے اور فلسطینی شہریوں کی نسلی صفائی سے بازرہنے کا دباؤ بڑھائے۔
مغربی حمایت یافتہ وزیر اعظم فیاض نے اس موقع پر مغربی کنارے اور غزہ کی دگرگوں اور ابتر معاشی صورتحال کے متعلق ایک اور مایوس کن پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین بھر میں بڑھتی مہنگائی اور امیر اور غریب کے مابین روز افزوں خلا کی بنا پر مزید ٹیکس نافذ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
حالیہ چند ماہ میں مجموعی طور پر مقبوضہ فلسطین میں رہنے کے لیے حالات واضح طور پر شدید خراب ہوئے ہیں۔ بہت سے فلسطینی خاندانوں کو آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بے پناہ اخراجات، شدید افراط زر، نیچے آتی شرح امدنی اور بالخصوص خوراک، ایندھن، گھروں جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں بےرحم اضافے نے اپنے اخراجات کو خطرناک حد تک کم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بہت سے خاندانوں نے اپنے بچوں کو کالجوں سے اس لیے اٹھا لیا ہے کہ وہ ان کی تعلیم کی فیسز ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
بدقسمتی سے بہت سے فلسطینی طلبہ یہودی بستیوں کے کالجز سےاس بنا پر نکالے گئے کیونکہ وہ بھاری فیسیں ادا کرنے میں ناکام رہے تھے۔ چند سال قبل کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک فلسطینی یونیورسٹیوں میں طلبہ کو اسپانسر کرتے تھے جس کی بنا پر غریب فلسطینی طلبہ کو اپنےکورسز مکمل کرنے میں معاونت ملتی تھی۔
تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ کالج کی تعلیم صرف وہ ہی حاصل کر سکتا ہے جس کے پاس خطیر رقم موجود ہو۔ یہ اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کہ مغربی کنارے کی یہ صورتحال فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے عالمی بنک کی ہدایت پر اپنائی گئی سادگی کے اقدامات کی وجہ سے ہے یا پوری دنیا میں آنے والا مالیاتی اور اقتصادی بحران اس مخدوش حالت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے۔
یہ دوہرانے کی اب کوئی ضرورت نہیں کہ دنیا بھر کے بحران کی وجوہات وہاں کی حکومتوں کے معاشی اور مالیاتی اقدامات ہیں تاہم فلسطینی میں صورتحال اس حیثیت سے مختلف ہے کہ یہاں فلسطینی اتھارٹی کی جان بسے کوئی بھی حقیقی معاشی سرگرمی اسرائیلی رکاوٹوں کے بغیر سرانجام طے نہیں پا سکتی۔
بلاشبہ فری معاشی سرگرمیاں اور بیرونی فوجی تسلط دونوں ایک وقت میں اکٹھے نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ دونوں مخالف اصطلاحات ہیں۔ کیونکہ تمام کراسنگز پر فلسطینی اتھارٹی کے بجائے اسرائیل کا کنٹرول ہے چنانچہ ہر طرح کی درآمد اور برآمد حتی کے ٹریفک تک پر کنٹرول بھی صہیونی فوج کا ہی ہے۔ فلسطین میں کلی معاشیات کے ماہرین اس صورتحال کو ’’حقیقی گناہ‘‘ کی اصطلاح سے بیان کرتے ہیں،جس کے مطابق ایک جانب اتھارٹی سرمایہ کاری کے لیے بڑے پروجیکٹس تعمیر کر رہی ہے تو دوسری جانب فلسطینی اسرائیلی فوجی تسلط کی مشکلات جھیل رہے ہیں۔
کچھ سال قبل تک فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور اس کی معاندانہ پالیسیوں کو خاطر خواہ اہمیت دیتی نظر نہیںآرہی تھی، اس کی معاشی پالیسیاں ایسی تھیں گویا مغربی کنارے میں اسرائیل کا وجودہی نہیں اور یہاں کی معاشی ترقی پر صرف فلسطینی اتھارٹی ہی اثر انداز ہوگی۔
فلسطینی اتھارٹی کا خیال تھا کہ شاید دکھاوے کی اندرونیمعاشی اٹھان اور عالمی دباؤ کا ملاپ اسرائیل کو مغربی کنارے میں معاشی سرگرمیوں میں مداخلت سے باز رکھے گا، اور اس طرح مغربی کنارے کے معاشی سرگرمیاں اسرائیلی گرفت سے نکل جائیں گی۔
فلسطینی اتھارٹی کے ناتجربہ کاروں کی ایک قلیل تعداد نےمغربی کنارے میں معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنا شروع کر دیے تھے، یہ لوگ اس حقیقت کو پس پشت ڈالے ہوئے تھے کہ یہ ساری ترقی حقیقی کے بجائے مصنوعی تھی اور اسکے برقرار رہنے کا انحصار بھی اسرائیلی موڈ پر تھا۔
مزید برآں فلسطینی اتھارٹی کی پیشہ ورانہ دانش اس بات کو بھی نظر انداز کر چکی تھی کہ ان کی مالیاتی پالیسی دراصل اسرائیل کی مرہون منت ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اب تک اپنی کوئی کرنسی نہیں ہے بلکہ وہ اسرائیلی کرنسی شیکل کو ہی لین دین کے لیےاستعمال کرتے ہیں۔
سکیولر ذہنیت کے حامل مغربی کنارے کے وزیر اعظم سلام فیاض نے اتھارٹی کی سکیورٹی سمیت دیگر معاملات پر کامیابیوں کے خطرے میں ہونے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو لازمی طور پر پیغمبر اسلام کے راستے پر چلنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی انصاف اور دیگر تعلیمات کو اپنا کر ہی اسرائیلی بوجھ کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
سلام فیاض اگرچہ اسرائیلی اقدامات کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کی بات واضح طور پر کر رہے تھے تاہم ان کی اکثر باتیں صرف خطیبانہ جوش کا مظہر تھیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ مثال کے طور پر وہ اس حقیقت کوبھول رہے تھے کہ امریکا اور یورپ اگرچہ زبانی کلامی فلسطینیوں کی ثابت قدمی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تاہم ساری عالمی برادری اسرائیلی جارحیتوں پر مجرمانہ خاموشی اپنائے رکھتی ہے۔
فلسطین کے متعدد سنجیدہ معاشی تجزیہ نگار نے کچھ سال قبل ہی اسرائیلی فوجی قبضے کے برقرار رہتے ہوئے اپنائی جانے والی فلسطینی اتھارٹی کی معاشی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان معاشی ماہرین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی ان غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں سے معاشی خوشحالی آئی نہ سیاسی آزادی۔ وجہ یہ تھی کہ پالیسی سازوں نے گھوڑے کے بجائے چھکڑے کو ہی گھوڑے کے آگے لگا دیا تھا۔
بدقسمتی یہ رہی کہ سلام فیاض سیمت فلسطینی اتھارٹی کے رہنماؤں نے معاشی اور مالیاتی میں اچانک تبدیلی کو سیاسی حقائق پر ترجیح دیے رکھی،ان کی دلیل یہ تھی کہ کسی بھی پالیسی کے ایک ہی رخ کو مکمل طور پر دیکھنا چاہیے۔
مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ اکثر فلسطینیوں نے سلام فیاض کو شک کا فائدہ دیا، وہ یہ سمجھتے رہے کہ امریکا جس کی اپنی معاشی پالیسیوں پر صہیونیوں کی زبردست گرفت ہے مغربی کنارے میں ڈالروں کی برسات کر دے گا اور مغربی کنارہ جلد ہی قطر اور دبئی کا منظر پیش کرنے لگے گا۔
سادہ لوح فلسطینی بھلے معاشیات سمجھنے پر اتنے قادر نہ ہوں تاہم وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے شاہراہوں کو بلاک کرنا، اسی طرح چیک پوسٹیں قائم کرنا ہی ایسے امور ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین کی معاشی لگام فلسطینی اتھارٹی نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے ہاتھوں میں ہے۔
سلام فیاض شاید برا، گمراہ اور جاہل شخص نہ ہو تاہم میرا مخلصانہ خیال یہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی عوام کو آزادیاں فراہم کرنے کے اسرائیلی وعدے کو سمجھنے میں سخت غلطی کی اور وہ اسرائیل کے فریب، خود غرضی اور بدکرداری کوسمجھ نہ پائے۔ آزادیاں کبھی سونے کی پلیٹ میں رکھ کر بھی ملی ہیں؟ اسرائیل کےسرپرست اتحادی امریکا میں آج تک یہ محاورہ مشہور ہے ’’مجھے آزادی دو یا موت‘‘