فلسطین کی منظم مذہبی سیاسی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ڈپٹی پولیٹ بیوو رڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں سیاسی انتقام اور حماس کے کارکنوں کی بلا جواز گرفتاریوں نے مفاہمت کا باب بند کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کے لیے حماس جتنا زور صرف کر رہی ہے دوسری کوئی جماعت اتا نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی صدرمحمود عباس اب بھی سلام فیاض کو قومی حکومت کا سربراہ بنانے پر مصر ہیں(خیال رہے کہ ڈاکٹر موسیٰ مرزوق نے یہ انٹرویو قطر میں خالد مشعل اور محمودعباس کے درمیان مذاکرات سے ایک روز قبل دیا تھا۔ حماس اور فتح کی سربراہ ملاقات میں صدر محمود عباس کو قومی حکومت کے سربراہ کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے)۔ اردن کے ساتھ حماس کے تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حماس پڑوسی اور برادر اسلامی ملک اردن کے ساتھ دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ حماس کی قیادت کے ایک ہفتے تک عمان میں قیام سے دوطرفہ تعلقات کو ایک نیا رخ دینے میں مدد ملی ہے۔
ڈاکٹر مرزوق نے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ ان کا یہ انٹرویو تفصیل کے ساتھ مرکزاطلاعات فلسطین کے ارد قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔ حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان مفاہمت کے لیے جتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں اتنے ان کے مثبت نتائج مرتب نہیں ہوئے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ابومرزوق:۔۔۔ یہ بات درست ہے کہ حماس اور فتح کی قیادت میں جتنی ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ بہت موثراور نتیجہ خیزنہیں رہیں لیکن ان ملاقاتوں میں کم سے کم یہ احساس تمام فلسطینی دھڑوں کو ہوگ یا کہ مفاہمت کتنی ناگزیر ہے۔ قومی مفاہمت کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں میں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ مصالحت کو عملی شکل میں لانا اور انتشار کوختم کرنا دیگر قومی ایشوز کی طرح ایک قومی ایشو ہے۔ یہ صرف حماس یا فتح کی ضرورت نہیں بلکہ پوری قوم کی اجتماعی ضرورت ہے کیونکہ بے اتفاقی کے ہوتے ہوئے کوئی ایک بھی جماعت اپنے اصل اہداف و مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ اندرونی خلفشار کے ہوتےہوئے ہمب یرونی سطح پر مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے بھی کوئی کھلی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے قومی مصالحت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیے رکھا اور اسے قوم کے دیگر اہم ایشوز کی طرح ایک بنیادی ایشو کے طور پر ڈیل کیا۔ فتح کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتائج سے قطع نظر ہم نے مصالحت کی کوششیں جاری رکھیں اور آج ہم اپنی منزل کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فتح کے ساتھ ملاقاتوں میں امید کا ایک نیا باب وا ہوا، لیکن ہمیں ان ملاقاتوں سے جوکچھ حاصل کرنا چاہیے تھا وہ نہیں ہو سکا، تاہم اس کے باوجود ہم مایوس اور ناامید نہیں ہیں۔ آئندہ کی ملاقاتوں میں مزید بہتری اور مثبت پیش رفت کا امکان ہے۔ مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ جن نکات پر اتفاق رائے ہو چکا ہےانہیں عملی شکل دی جائے۔ غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت نے متفق علیہ نکات پرعملدرآمد کیا ہے لیکن مغربی کنارے میں عمل درآمد سے فرار کی شکایات مل رہی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ اگر مغربی کنارے میں سیکیورٹی فورسز کی کمان صدر محمودعباس کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس ہے۔ ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ مغربی کنارےکا سیکیورٹی ڈھانچہ مفاہمتی امور کو دانستہ طور پر نظرانداز کر رہا ہے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟
ابومرزوق:۔۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی انتظامیہ کے زیرکمانڈ سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول صدر محمود عباس کے پاس نہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو اسرائیل کنٹرول کر رہا ہے۔ میں سیکیورٹی اداروں سے دوٹوک الفاظ میں کہوں گا کہ ہم سب کو سیاسی فیصلوں کا پابند ہونا چاہیے۔ جہاں تک مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کا رویہ حیرت ناک ہی نہیں بلکہ افسوسناک بھی ہے۔ کیونکہ سیاسی سطح پر فتح نے حماس کو یقین دہانیاں کرائی ہیں سیکیورٹی اداروں ان پرعمل درآمد نہیں کیا ہے۔ یہ طرزعمل قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ مغربی کنارے میں حماس کے منتخب اراکین پارلیمنٹ کے پاس شکایات کا ایک انبار ہے۔ فتح کی جانب سےحماس کے 60 اراکین یی رہائی کی سفارش کی گئی ہے تاہم سیکیورٹی ادارے نہ صرف ان ساٹھ قیدیوں کی رہائی کو نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ مزید گرفتاریوں کا اندھا دھند سلسلہ جاری ہے۔
گرفتاریوں کےاس بڑھتے عمل نے مفاہمت کا باب بند کردیا ہے۔ حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان جس فراخ دلی کا مظاہرہ ملاقاتوں میں کیا جاتا ہے سیکیورٹی ادارے اتنی ہی گھٹن کی فضاء پیدا کر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ مغربی کنارے میں حماس کو سیاسی سرگرمیوں اور دفاتر کے قیام کی اجازت ہو گی لیکن یہ یقین دہانی صرف کاغذی سفارشات تک محدود ہے۔ عملا حماس کا سیاسی ناطقہ بند کرنے کی پوری کوشش ہو رہی ہے۔ حماس کواب بھی دیوار سے لگایا جا رہا ہے جو ایک ناپسندیدہ عمل ہے، جس نے مفاہمت کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ فلسطین کی موجودہ مکدر سیاسی فضاء کے باوجود خالد مشعل اور محمود عباس دوحہ میں ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ مذاکرات کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد کریں گے، کیا حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں کوئی جاندار پیشرفت ہو گی یا یہ محض سابقہ ملاقاتوں کی طرح ایک روایتی ملاقات ثابت ہوگی؟
ابومرزوق:۔۔میرے خیال میں دوحہ ملاقات میں حماس اور فتح کی سربراہ قیادت قومی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس وقت حماس اور فتح کی قیادت مثبت انداز میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ گوکہ فتح کی جانب سے کچھ عملی رکاوٹیں بھی حائل ہیں،اور ملاقات کے سلسلے میں کوئی واضح ایجنڈا نہیں دیا گیا، تاہم اس سب کے باوجود یہ امکان ہے کہ خالد مشعل۔ محمودعباس ملاقات قومی حکومت کے قیام کا باب کھولنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔(خیال رہے کہ ڈاکٹر ابومرزوق نے یہ انٹرویو قطر میں خالد مشعل اور محمود عباس کے درمیان ہونے والی ملاقات سے ایک روز قبل لیا گیا تھا جس میں انہوں نے مثبت پیش رفت کا اشارہ دیا تھا۔ اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کی قیادت نےقومی حکومت کی تشکیل پر اتفاق کیا ہے، اور قومی حکومت کی ذمہ داری صدر محمود عباس کو سونپےجانے کا فیصلہ کیا گیا ہے)۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔۔ حماس اور فتح کے درمیان مفاہمتی مذاکرات کا آغاز قاہرہ میں ہوا تھا۔ لیکن اب خالد مشعل اور محمود عباس دوحہ میں کیوں ملاقات کر رہے ہیں؟
ابو مرزوق:۔۔ قاہرہ میں حماس اور فتح کی قیادت کے مابین بات چیت کو آگے بڑھانے میں دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی قاہرہ حکومت کی جانب سے ایسی کوئی رکاوٹ ہے۔البتہ دوحہ میں مذاکرات کی خواہش صدر محمود عباس نے پیش کی تھی۔ اس لیے حماس کی قیادت نے اس تجویز کو تسلیم کرلیا۔ ویسے بھی قطر فلسطین کے بارے میں عرب لیگ کی فالواپ کمیٹی میں جلد شامل ہونے والا ہے۔ لہٰذا دوحہ میں ملاقات فلسطینیوں کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ قاہرہ کے بجائے دوحہ میں فلسطینی جماعتوں کے مذاکرات کے بارے میں مصری حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔۔ اردن میں حماس کی قیادت کی آمد کو اردن کے ساتھ حماس کے تعلقات کو ایک نئی اور تاریخی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ آپ ان رابطوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ابومرزوق ۔۔حماس اور برادر ملک اردن کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ حماس کی قیادت نے سب سے پہلے سنہ 1993ء میں اردنی وزیراعظم زید بن شارک کےساتھ مذاکرات سے تعلقات کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حماس کی قیادت اور اردن کے درمیان رابطے مزید مضبوط ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اردنی انٹیلی جنس حکام کے ساتھ حماس کی قیادت کے کئی بار مذاکرات ہوئے۔ یہ درست ہے کہ حاکم وقت کے ساتھ مذاکرات یا ملاقات کی اپنی ایک الگ حیثیت ہوتی ہے۔بعض وجوہات کی بنا پر حماس کی قیادت اور اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ملاقات موخرہوتی رہی۔ حماس کی اردنی انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں بھی کوئی جامع نہیں تھیں۔ اب حماس نے ایک مرتبہ پھر اردن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنےکا آغاز کیا ہے۔ حماس اور اردن کے درمیان اگرچہ کچھ عرصہ کے لیے تعلقات منقطع رہے ہیں تاہم مختلف چیلنز سے ہمارے رابطے بھی رہے ہیں۔ حال ہی میں حماس کی قیادت کےشاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ملاقات نے دوطرفہ تعلقات کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ حماس اردن کی سلامتی اور یکجہتی و خودمختاری کی حامی ہے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ مزید جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں حماس اور اردن ایک دوسرے کے بہت قریب آ جائیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ یہ اطلاعات آئی ہیں کہ حماس نےاپنے قومی موقف میں تبدیلی کی ہے جس کے بعد حماس کو تنظیم آزادی فلسطین(پی ایل او)میں شامل کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟
ابومرزوق:۔۔ ایسا ہرگز نہیں کہ حماس اپنے قومی موقف کو تبدیل کر کے تنظیم آزادی فلسطین میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ اس طرح کی جتنی بھی اطلاعات آئی ہیں وہ قطعی بےبنیاد ہیں۔ حماس کی قیادت نے پی ایل او میں نہ تو مخصوص کوٹے کے ذریعے شمولیت کی تجویز قبول کی ہے اور ن ہہی جماعتی بنیاد پرحماس اس میں شامل ہوگی۔ حماس کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظرہے۔ وہیہ کہ پہلے پی ایل او کے ڈھانچے کوقومی اصولوں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ لیکن اسسےبھی پہلے فلسطین میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کرائےجائیں، ان انتخابات کےنتیجے میں جو قیادت سامنے آئے اس پر مشتمل تنظیم آزادی فلسطین کا ڈھانچہ بنایا جائے۔
یہ تاثر بھی غلط ہے کہ حماس اب یورپ کی مرضی کے مطابق یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔اس میں تو شبہ نہیں کہ حماس کی قیادت کے یورپی یونین کے عہدیداروں کے ساتھ متعدد چینلز سے رابطے ہوئے ہیں۔ یہ رابطے اب بھی جاری ہیں۔ حماس کے اراکین پارلیمنٹ نے یورپی پارلیمنیٹیرینز سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ حماس کی تنظیمی قیادت کے بھی پوری حکام سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن یہ مذاکرات ملاقاتیں محض حماس کے موقف کو یورپ تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یورپی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں یورپ میں یہ احساس تیزی سے زور پکڑ رہا ہے کہ حماس کا یورپی بائیکاٹ غلط فیصلہ تھا، جسے تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین فلسطین میں حماس کو ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ حماس کے یورپی ممالک کے ساتھ رابطے صرف قومی، دینی اورعالمہ مسلمہ اصولوں کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ حماس اپنے قومی موقف میں یورپیین کی خوشنودی کے لیے تبدیلی پیدا نہیں کرے گی۔ اس وقت عرب ممالک میں اسلامی تحریکوں کا سونامی بھی یورپی ممالک کو حماس کے قریب کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ یورپی ممالک کی حماس کے بارے میں رائے میں تبدیلی کی ایک وجہ انقلابات سے گذرنے والے ممالک اور ان میں ابھر کر سامنے آنے والی دینی قوتیں بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ یورپ اب فلسطین میں بھی حماس کو نظرانداز کر کے آگےنہیں بڑھ سکتا۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ عرب بہاریہ کے باوجود غزہ کی معاشی ناکہ بندی کا بلاجوازعمل جاری ہے۔ صہیونی دشمن کا یہ ظالمانہ طرزعمل کب تک جاری رہے گا؟
ابومرزوق:۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے ظالمانہ معاشی مقاطعے میں صرف اسرائیل ہی ذمہ دار نہیں بلکہ فلسطین کے اندر ایک گروہ اورعرب ممالک کا ایک حصہ بھی معاشی ناکہ بندی کو طول دینے کا ذمہ دارہے۔ یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے کہ عرب ممالک میں جاری انقلاب کی تحریک نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ انقلابی تحریک نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو قومی ،علاقائی اور عالمی سطح پر اٹھانے میں معاونت کی ہے۔ انقلاب کی تحریک سے قبل عرب ممالک میں فلسطینیوں کے حقوق کے لیے اتنی آوازیں نہیں اٹھ رہی تھیں جتنی اب عرب ممالک میں معاشی ناکہ بندی کےخلاف اٹھائی جا رہی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ مصرمیں مابعد انقلاب حماس کے قاہرہ سے تعلقات مضبوط ہوئےہیں۔ آپ کی جماعت فلسطین اور مصر کے درمیان گذرگاہوں اورمعاشی ناکہ بندی کا معاملہ کس طرح حل کر رہی ہے؟
ابومرزوق:۔۔حماس اور مصر کے درمیان تعلقات میں غیرمعمولی نوعیت کا اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب نے حماس اور مصر کو یک جان و دو قالب کر دیا ہے۔ آج حماس اور قاہرہ کے درمیان روزمرہ کی بنیاد پر تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔ مصر میں انقلاب کے بعد غزہ کی معاشی ناکہ بندی میں خاطرخواہ کمی دیکھی گئی ہے۔غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی بارڈر کو کھولنے کے سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔ فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کے بعد یہ امکان ہے کہ غزہ اور مصرکے درمیان بارڈرکا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ محمود عباس کے اسرائیل کےساتھ مذاکرات کیا مفاہمتی عمل کو متاثر نہیں کر رہے؟
ابومرزوق:۔۔۔اسرائیل کے ساتھ صدر محمود عباس کے مذاکرات نے صرف مفاہمت ہی نہیں بلکہ اورکئی اہم قومی ایشوز کو نقصان پہنچایا ہے۔ ابو مازن کے خیال میں اسرائیل سے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ ہیں نہیں۔ یہی وجہ ہے وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر، بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کی صہیونی سازشوں اور فلسطینیوں کی املاک اور اراضی پر یہودیوں کے غاصبانہ حملوں کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ صدر محمود عباس کے اس رویے نے مفاہمت کےعمل کو آگے بڑھانے میں مشکلات پیدا کی ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ اسرائیل سےاب ہونے والے مذاکرات بے سود ہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ گذشتہ 18 سال سے ایک فلسطینی تصفیے کی ایک ناکام مشق کر رہی ہے۔ یہ سوال آج بھی محمود عباس کے سامنے اپنی پورے مفہوم کے ساتھ موجود ہے کہ آیا انہیں اسرائیل سے مذاکرات میں کیا حاصل ہوا ہے۔