فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر اور بزرگ سیاست دان ڈاکٹرعزیز دویک نے کہا ہے کہ فلسطینی سیاسی جماعتوں کے مابین مفاہمت کی راہ میں دیگر رکاوٹوں کی طرح ایک بڑی رکاوٹ سیاسی قیدیوں کی بدستور جیلوں میں موجودگی اور سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں قوم سیاسی قیدیوں کی رہائی کی خوش خبری سنے گی کیونکہ حماس اورفتح کی مشترکہ کمیٹی نے ایک ہفتے کے اندر اندر تمام سیاسی اسیران کی رہائی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مفاہمت کا عملی شکل میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ تمام سیاسی اسیران کو رہا کر دیا جائے۔ سیاسی کارکنوں کی مزید گرفتاریاں اور ان پر تشدد روک دیا جائے۔ اگر یہ سب کچھ جاری رہتا ہے تو مفاہمت کو حقیقی معنوں میں عملی شکل میں نہیں لایا جا سکتا۔
ڈاکٹرعزیزدویک کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی حکومت نے صدر محمود عباس کی رہائش گاہ کو فتح کی لیڈرشپ کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں مرکزی الیکشن کمیشن کا دفتر قائم کرنے اوراس کی چھ ذیلی شاخوں کے قیام کی بھی اجازت دے دی ہے۔ غزہ کی حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں انتخابات یا توعبوری سیٹ اپ کی نگرانی میں ہوں گے یا ٹیکنوکریٹ کی حکومت کی نگرانی میں کیے جائیں گے تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں برابر شرکت کا موقع دیا جا سکے۔ فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر نے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔ انٹرویو کے تین روز بعد قابض صہیونی فوج نے انہیں مغربی کنارے کے شہر رام اللہ سے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ مجلس قانون ساز کے اسپیکر کی حیثیت سے یہ ان کی دوسری گرفتاری ہے۔
ان کا یہ انٹرویوتفصیل کے ساتھ اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ مصالحت کے جلو میں آپ فلسطین کی موجودہ داخلی صورت حال کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹردویک:۔۔ فلسطینیوں کے مابین مفاہمت اور مصالحت کا عمل سنہ 2007ء کے بعد سے مسلسل نشیب و فراز کا شکار رہا ہے۔ بال آخر گذشتہ برس مصری حکومت اپنی کوششوں سے فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کا ایک معاہدہ کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جب سے مصرکی نگرانی میں حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کےسمجھوتے پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس وقت سے اب تک مفاہمت نشیب و فراز کے بجائے ایک جگہ پر رکی ہوئی ہے۔ اس میں اگر اتار چڑھاؤ نہیں آیا تواس میں کوئی مثبت پیش رفت بھی نہیں دیکھی گئی، سوائےاس کے کہ حماس اور فتح کی قیادت کے مابین قاہرہ میں ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ جہاں تک مفاہمت کو عملی شکل دیے جانے کا تعلق ہے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ مغربی کنارے میں سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جیلوں میں موجود سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے سے لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔
آخری دفعہ 20 اور22 دسمبر کو ہونے والی ملاقاتوں میں ہم نے مفاہمت کے حوالے سے ایک بڑا "بریک تھرو” کیا ہے۔ قاہرہ میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ اس ضمن میں تمام اسیران کی رہائی کے لیے قاہرہ کی نگرانی میں کمیٹی اور تمام سیاسی جماعتوں کےاراکین پر مشتمل کل جماعتی مشاورتی کمیٹی جیسی اہم کمیٹیاں شامل ہیں۔ ان کمیٹیوں میں سیاسی عمل کو آگے بڑھانے اور قومی اتحاد کی راہ ہموار کرنےکے لیے عملی اقدامات کرنا تھا۔
اس وقت قومی کمیٹیوں کے زیراہتمام قیدیوں کی رہائی کے لیے بات چیت حتمی مراحل میں ہے جبکہ غزہ کی پٹی کے شہریوں کے مغربی کنارے آزادنہ آمد و رفت کو یقینی بنانے اور پاسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔ پیش آئند چند ایام میں پاسپورٹس کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں فتح کی قیادت کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت فراہم کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں غزہ میں حماس کی حکومت نے فتح کو صدر محمود عباس کی رہائش گاہ کا کنٹرول سپرد کر دیا ہے۔ وہ جس طرح چاہیں اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کےعلاوہ حماس نے غزہ کی پٹی میں الیکشن کمیشن کےقیام اور اس کے ذیلی کمیٹیوں کے چھ دفاتر کے قیام کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ سیاسی گرفتاریوں کا معاملہ فلسطینی انتظامیہ اور حماس کے درمیان پہلے بھی متنازعہ رہا ہے۔ آپ کے خیال میں کب تک یہ تنازع حل ہونے کا امکان ہے؟
ڈاکٹر دویک:۔۔ میرے خیال میں سیاسی گرفتاریوں کا معاملہ ایک حساس موضوع ہے۔ مفاہمت کے لیے سرگرم ہر دو فریقین نے اپنی اپنی جانب سےاسیران کی فہرست دوسرے کو تھمائی ہے۔ گذشتہ ماہ قاہرہ میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں بھی جلد ازجلد سیاسی گرفتاریوں کا معاملہ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ بعض اسیران کی فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں سے رہائی کے بعد یہ امکان ہے کہ اسرائیلی فوج انہیں گرفتار کر لے، تاہم اب مصری حکومت کی نگرانی میں اسیران کے مسئلے کے حل کے لیے مساعی کی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں ایک ہفتے کے اندر اندر دونوں جانب سے اسیران کی رہائی کے بارے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ مجھے تو پورا یقین ہے کہ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے میں سیاسی کارکنوں کی رہائی کے اپنے وعدے جلد پورے کرے گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ پارلیمانی انتخابات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ وہ مئی میں اپنے وقت مقررہ پر ہو سکیں گے؟
ڈاکٹردویک:۔۔ فی الحال پارلیمانی انتخابات کے لیے مئی کی تاریخ رکھی گئی ہے تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ انتخابات کی تیاری کے لیے یہ وقت کم ہے۔ نیز یہ کہ انتخابات قومی عبوری حکومت یا ٹیکنوکریٹ پر مبنی حکومت کے ساتھ مربوط ہیں۔ انتخابات کے لیے سات اہم نکات پیش کیے گئے ہیں، جن میں انتخابات کے لیے فضاء کو سازگار بنانے اور انتخابی عمل کوشفاف بنانے کی ضرورت پرزور دیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ آپ مجلس قانون ساز کے اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کی بات کرتے رہےہیں۔ کیا دوسرے سیاسی معاملات کے حل کے ساتھ آپ مجلس قانون ساز کی کارروائی شروع کر سکیں گے؟
ڈاکٹردویک:۔۔ میں اس سلسلے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ میرے خیال میں مفاہمت کے ذریعے سیاسی عمل کو آگےبڑھانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ معاملات کے حل کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جا چکی ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کر رہی ہیں۔ مجلس قانون ساز کے مشترکہ اجلاس کےلیے فروری کے اوائل کی تاریخ رکھی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ بے اتفاقی کے عرصے میں سیاسی بنیادوں پر نوکریوں سے برطرف کیے گئے ملازمین بالخصوص اسکولوں کے اساتذہ کے معاملے کو آپ کس طرح حل کریں گے؟
ڈاکٹردویک:۔۔ سیاسی بنیاد پر مغربی کنارے کی حکومت کی جانب سے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیے جانے کا معاملہ مفاہمتی معاہدے کے تحت "فریڈم کمیٹی” کے سپرد کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی اس امرکا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے گی آیا گذشتہ تین چارسال کےدوران مغربی کنارے میں کون سے ملازمین کو کن بنیادوں پر نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مغربی کنارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے تاجروں اور دکانداروں کے کیے جانے والےنقصانات کا جائزہ لینے اور اس دوران قتل کے بعض واقعات کی چھان بین کے لیے مشترکہ قومی کمیٹی کو معاملہ سپرد کیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات مفاہمت کی مساعی کو متاثر کریں گی یا نہیں؟
ڈاکٹردویک:۔۔۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی مختلف مواقع پر کہہ چکا ہوں کہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی انتظامیہ کے مذاکرات مفاہمت کے ضمن میں طے پائے اصولوں کے برعکس ہیں۔ قاہرہ میں حماس اور فتح کے درمیان طے پائے معاہدے میں دوٹوک الفاظ میں یہ اصول تسلیم کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے راست یا بالواسطہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین۔ اسرائیل امن مذاکرات فلسطینیوں کے مابین مصالحت کی راہ میں کھلی رکاوٹ ہیں۔ مفاہمت میں تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سےاسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن فلسطینی اتھارٹی نے اس باب میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا بھی گوارا نہیں کیا۔
سیاسی جماعتوں کے اتفاق اور حمایت کے بغیر اسرائیل کے مذاکرات ماضی کی ناکام مذاکراتی کوششوں کا حصہ ہیں۔ اردن کی نگرانی میں ہونے والے مذاکرات بے سود ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور مطالبات کے حوالے سے نقصان دہ بھی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کہہ چکے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ کرتے ہوئے مغربی کنارے سے چند ایک فوجی چوکیاں ختم کر دیں گے جبکہ صہیونی ریاست اس کے بدلے میں فلسطینیوں سے اپنی مکمل سیکیورٹی اور اقتصادی ضمانتیں طلب کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ مذاکرات عدم توازن کی کیفیت میں ہو رہے ہیں،جو فلسطینیوں کے مابین اتحاد کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچائیں گے۔