جمعه 02/می/2025

فتح کی جانب سےمفاہمت کی صرف باتیں سن رہے ہیں، عملا کچھ نہیں ہو رہا

جمعرات 15-دسمبر-2011

فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی جماعت”اسلامی تحریک مزاحمت "حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح و تبدیلی میں خواتین ونگ کی سربراہ منٰی منصور نے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں حکمراں جماعت "فتح” نے ملک میں مفاہمت کے حوالے سے فضاء سازگار بنانے کے بارے میں اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور جیلوں میں ان پر تشدد اب بھی بدستور جاری ہے اور یہ ایک خوفناک رجحان ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں فلسطینی خاتون رہ نما نے کہا کہ دونوں بڑی جماعتوں حماس اور فتح کی مرکزی قیادت نے گذشتہ ماہ قاہر مذاکرات میں غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے اپنے ہاں سیاسی گرفتاریاں روکنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن مغربی کنارے میں حالات جوں کے توں ہیں۔ سیاسی گرفتاریوں  کا باب کیا بند ہونا تھا، زیرحراست سیاسی کارکنوں پر تشدد بھی بڑھا دیا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں  منیٰ منصور کا کہنا تھا کہ قاہرہ سربراہ ملاقات کے بعد حالات میں بہتری کی امید کی جا رہی تھی، لیکن مغربی کنارے کی حکمران قیادت نے اس سلسلے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی،کیونکہ ہمیں عملی سطح پر کسی قسم کی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔ اسی طرح کی گرفتاریاں اور وہی جیلوں میں  ٹارچر کا سلسلہ بدستور قائم ہے۔

ان کا تفصیلی انٹرویو حسب ذیل ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ گذشتہ ماہ قاہرہ میں محمود عباس اور خالد مشعل کے درمیان مفاہمتی ملاقات سےآپ کس حد تک مطمئن ہیں؟

منٰی منصور:۔۔ مفاہمت کی باتیں سن سن کر ہمارے کان تھک گئے ہیں۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مغربی کنارے میں فتح کی جانب سے مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے کسی قسم کا ماحول سازگار نہیں کیا گیا۔ صرف میڈیا کےذریعے مفاہمت اور اتحاد کی رٹ لگائی جا رہی ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائےتو مغربی کنارے میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں حماس اور دیگرسیاسی جماعتوں کے کارکنوںں کی گرفتاریاں نہ صرف بدستور جاری ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر سرکاری ملازمین کو ان کی نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے، جومفاہمت کے عمل میں حقیقی رکاوٹ ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ آپ کےخیال میں مفاہمت کی فضاء سازگار بنانے کے لیے ایسے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

منیٰ منصور:۔۔ مفاہمت کا ماحول بنانے کے لیے کوئی بڑی اور مشکل صورت حال کا سامنا کرنے کی نہیں بلکہ صرف سیاسی گرفتاریوں کا باب بند کرنے اور تمام گرفتارشدگان کی رہائی کی فوری ضرورت ہے۔ لیکن دیکھا جائے توعملا گرفتاریوں اور اغواء کی وارداتوں میں سنگین نوعیت کا اضافہ ہو چکا ہے۔ زیرحراست بے گناہ شہریوں کوجعلی مقدمات کے تحت جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اورانہیں عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ جب ہم بار بار اس رجحان کو بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں تو لامحالہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیاسی گرفتاریوں کا دروازہ بند کرنا ہی مفاہمت کی حقیقی کنجی ہے۔ حماس کے سیکڑوں کارکنوں کو مغربی کنارے کی فوجی عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں جن خطرناک نوعیت کے اقدامات کا ملاحظہ کیا گیا ان میں زیرحراست شہریوں پر وحشیانہ تشدد تھا۔ سیکیورٹی فورسز جیلوں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ڈالے گئے سیاسی قیدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

ابھی تک توہم صرف یہ سنتے آ رہے ہیں کہ آئندہ سال مئی میں پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ لیکن انتخابی عمل سے قبل جس طرح کی سیاسی فضاء سازگار بنانے کی ضرورت تھی اس پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ قاہرہ میں محمود عباس اور خالد مشعل کے درمیان خوشگوار ماحول میں ملاقات کے باوجود مغربی کنارے میں گرفتاریوں کا عمل کیوں جاری ہے۔ اس کے پیچھے ایسے کیا محرکات ہیں؟

منیٰ منصور:۔۔ مغربی کنارے کی سیاسی صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ یہاں کئی گروہ ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا میدان ہے لیکن حماس کے سوا ان تمام کے سیکیورٹی مقاصد مشترک ہیں۔

میں پہلے ذکرکر چکی ہوں کہ مغربی کنارے میں صدرمحمود عباس کے زیرکمانڈ سیکیورٹی فورسز مصالحت کے حق میں ہے ہی نہیں۔ اس سیکیورٹی ادارے کا کام ہی سیاسی گرفتاریاں ہیں۔ اگر یہ گرفتاریاں رک جاتی ہیں تواس کے پاس پیچھے کیا کام رہ جاتا ہے۔

 اس کے علاوہ مغربی کنارے میں سیکیورٹی فوسزکو یہ خطرہ لاحق ہے کہ حماس کے ساتھ مفاہمت ہو گئی تو اس کے نتیجے میں ادارے کے سینیئر اہلکاروں کا بلاجواز گرفتاریوں کےخلاف ٹرائل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ سیکیورٹی فورسزمفاہمت کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکا رہی ہیں۔

مفاہمت کے عمل میں تاخیر یا تعطل کا ایک عنصر بیرونی بھی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو امریکا اور اسرائیل کےبھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ وہ اسی دباؤ کے تحت مفاہمت کےاہم نکات پرعمل درآمد میں مسلسل تاخیر کر رہی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ آپ کےخیال میں سیاسی گرفتاریوں کا باب بند کرنے کا بہتر راستہ کیا ہے؟

منیٰ منصور:۔۔ میرے خیال میں فتح کی جانب سے مفاہمت کےبارے میں کوئی ٹھوس اور جاندار موقف کے بجائے لیت  و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس وقت صدر محمود عباس کو چاہیے کہ وہ قوم کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کریں کہ انہوں نے حماس کی قیادت کے ساتھ جن امور پر اتفاق کیا ہے، ان پر ہر قیمت پرعمل درآمد یقینی بنایا جائےگا۔ اس کے علاوہ معاملے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں بالخصوص قاہرہ کی ثالثی کی کوششیں تیز کی جانی چاہئیں تاکہ عباس گروپ پر مفاہمتی معاہدے پرعمل درآمد کے لیے دباؤ بڑھایا جا سکے۔

مجھے یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 15 جنوری سےقبل وہ کسی سیاسی قیدی کی رہائی کا اعلان نہیں کریں گے۔ پندرہ جنوری2012ء کو فلسطین کی صورت حال پر گروپ چار کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سخت بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔۔ زیرحراست سیاسی کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کوآپ کیا  خصوصی پیغام دیں گی؟

منیٰ منصور:۔۔ مجھے فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں پر گہرا دکھ ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ اس بات پر افسوس ہے کہ ہمارے سامنے اس معاملے کےحل تمام راستے بھی بند کردیے گئے ہیں۔ ہم نہ اسیران کی رہائی کی کوئی کوشش کرنے میں کامیاب ہو پائے ہیں اور نہ ہی ان کےاہل خانہ کی مشکلات کم کر سکے ہیں۔ ہمیں اپنی ان ناکامیوں پر سخت شرمندگی ہے۔۔ ہم نے اسیران اور ان کے اہل خانہ کو جتنی بھی یقین دہانیاں اور تسلیاں کرائی تھیں۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے باعث ہم انہیں پورا نہیں کر سکے ہیں۔ میں اس مشکل کی گھڑی میں اسیران اور ان کے اہل خانہ کو وہی پیغام دوں گی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ستم رسیدہ آل یاسر کے پاس سے گذرتے ہوئے اس وقت دیا تھا کہ "اے اہل یاسر صبر سے کام  لو آپ کا ٹھکانہ جنت ہے”۔ میں بھی تمام سیاسی کارکنوں اور ان کے اہل خانہ سے مسلسل صبر کی تلقین کروں گی۔

مختصر لنک:

کاپی