پنج شنبه 01/می/2025

حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ مرزوق کا خصوصی انٹرویو

منگل 29-نومبر-2011

فلسطین کی منظم مذہبی سیاسی اور عسکری تنظیم "اسلامی تحریک مزاحمت "حماس”کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے مرکز اطلاعات فلسطین کے خصوصی انٹرویومیں کہا ہے کہ ہماری قوم کی عسکری قوت کا حصول آزادی فلسطین کے پروگرام کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نےکہا کہ انکی جماعت اور صدرعباس کی جماعت فتح کے درمیان اٹھارہ دسمبر کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ ان مذاکرات میں چوبیس نومبرکو ہونے والی قاہرہ سربراہ ملاقات میں جن امورپر اتفاق رائے ہوا تھا ان میں فلسطین میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی تیاری اور اس کا شیڈول، تنظیم آزادی فلسطین کی دوبارہ تنظیم سازی اور قومی عبوری حکومت کا قیام جیسے معاملات شامل تھے۔ ان تمام معاملات پر بات چیت کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کے مابین اٹھارہ دسمبر کو دوبارہ قاہرہ میں مذاکرات ہوں گے۔

حماس رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے اپنے انٹرویو میں فلسطین اور خطے کی مجموعی صورت حال بالخصوص عرب ممالک میں جاری انقلاب کی تحریکوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس بارے میں حماس کا نقطہ نظر پیش کیا۔ ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا یہ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ ہمارا پہلا سوال قاہرہ میں حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان سربراہ ملاقات کے بارے میں ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آیا یہ ملاقات ہر اعتبار سے کامل تھی، یا اس میں کوئی کمی رہ گئی؟

ڈاکٹر موسیٰ مرزوق:۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حماس نے قاہرہ سربراہ ملاقات میں پوری فراخ دلی اور لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے تمام تصفیہ طلب امور پر مثبت اور نتیجہ خیز پیش رفت کے لیے فضاء کو سازگار بنانے کی کوشش کی۔ الحمدللہ ہم اس میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ تاہم یہ کہنا ہے کہ قاہرہ میں ہونے والی فتح۔ حماس سربراہ ملاقات ہر اعتبار سے کامل اور مکمل تھی یہ درست نہیں ہو گا کیونکہ ابھی ہم نے مفاہمت اوراتحاد کے لیے بہت سی منزلیں طے کرنا ہیں۔ اس کے لیے بات چیت کے مزید کئی اور دور ہوں گے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ تو گویا ہم آپ کی بات سے یہ مفہوم اخذ کریں کہ فلسطینیوں کے مابین مصالحت کا کوئی کامل سمجھوتہ نہیں طے پایا ہے؟

ڈاکٹر مرزوق:۔ ملک میں مفاہمت اور مصالحت تمام سیاسی جماعتوں کا ایک دیرینہ خواب ہے مگر اس کے طریقہ کار میں اختلاف ہے۔ جن امور کو ہم اپنے مشترکات میں شامل کرتے ہیں ان پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے مذاکرات کاروں اور ہماری دانست میں مفاہمت کی کامیابی کے لیے جن امور پر اتفاق رائے ہونا ضروری ہے انمیں ملک میں متحدہ سیاسیی پروگرام، جس کے لیے تنظیم آزادی فلسطین کے پلیٹ فارم سےنئی عبوری حکومت کا اعلان۔ فلسطین میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کا شیڈول جیسے مسائل پر اتفاق رائے ہونا ضروری تھا۔ اس پراتفاق رائے ہو چکا ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین کی بحالی اور اس کی  نئے سرے سےتنظیم سازی کے لیے دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اٹھارہ دسمبر کو قاہرہ میں ملاقات ہو گی جس کے دو روز بعد 20 دسمبر کو فلسطین کے تمام سیاسی دھڑوں پر مشتمل گرینڈ اجلاس ہو گا۔ اس اجلاس میں تنظیم آزادی فلسطین کی نئی باڈی کا اعلان کیا جائے گا۔ یہ باڈی ملک میں عبوری حکومت اور پارلیمانی اورٓ صدارتی انتخابات کا انتظام کرائے گی۔ بعض امور تاحال حل طلب ہیں، جن میں دستور کی تدوین اورغزہ اور مغربی کنارے میں مشترکہ سیکیورٹی سسٹم جیسے مسائل شامل ہیں۔ اس اعتبار سے ہم قاہرہ کی ملاقات کو ایک کامیاب ضرور قرار دیں گے البتہ اس کے کامل اور مکمل ہونے پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ عبوری حکومت اور وزیراعظم کے نام پرعدم اتفاق سے کیا یہ اشارہ نہیں ملتا کہ حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے راستے میں ابھی بھی کئی رکاوٹیں حائل ہیں؟

 ڈاکٹر مرزوق:۔۔ میں تو سمجھا ہوں کہ فلسطین میں مفاہمت اور مذاکرات سمیت تمام امور ممکن ہیں۔ میرے خیال میں فلسطینی حکومت اور وزارت عظمیٰ کے نام پرعدم اتفاق کے باعث مفاہمت کو درپیش بحران مشکلات کا سبھی کو اندازہ ہے۔ اس کے حل کے لیے فلسطینی تنظیموں نے خود ہی اقدامات کرنے ہیں۔ مصرکی جانب سے فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کا جو فریم ورک جاری کیا گیا ہے اس میں قومی عبوری حکومت جیسا کوئی نقطہ شامل نہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ فلسطین میں قومی حکومت کے لیے فوری انتخابات ضروری ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا قاہرہ میں حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان جو ملاقات ہوئی اس میں قومی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ضمن میں جو نام پیش کیے گئے کیا اس ملاقات میں ان ناموں پر غور کیا گیا؟

ڈاکٹرابو مرزوق:۔ نہیں۔ حماس اور فتح کی قاہرہ سربراہ ملاقات میں جن اہم امور پرغور کیا گیا ان میں تنظیم آزادی فلسطین کی نئی باڈی کی تشکیل ہے۔ پی ایل او کی نئی گورننگ باڈی کی تشکیل کے بعد یہ باڈی خود ہی عبوری حکومت کے لیے فیصلہ اور اعلانات کرے گی، کیونکہ حکومت سازی کے امور کی نگرانی پی ایل او کی نئی باڈی کو سونپی گئی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ میڈیا کے ذریعے ایک حساس موضوع پر بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ حماس نے فتح کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات میں مسلح جدو جہد کے اصول کو ترک کرنے پرآمادگی ظاہر کی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

ڈاکٹر ابو مرزوق:۔ قطعی طور پر ایسا نہیں۔ حماس فلسطین میں آزادی اور قومی حقوق کے حصول کو ایک بنیادی ذریعہ ہی خیال نہیں کرتی بلکہ ہم مسلح مزاحمت کو آزادی فلسطین کے پروگرام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دیتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی قوم کی بنیادوں کو ایک مرتبہ پھرسے مضبوط کرنا ہوگا۔ میری مراد وہ قومی اصول ہیں جن کی بنیاد پر فلسطینی ریاست کےحصول کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ مسلح مزاحمت کو اہم اپنے اذہان سے ایک لمحے کے لیے بھی غائب نہیں کر سکتے۔ ہم فتح کے ساتھ مذاکرات میں بار بار یہ نقطہ اٹھا تے رہے ہیں کہ ہمیں مل کر مسلح جد وجہد کو عام کرنا چاہیے۔ فتح کو بھی اسرائیل کے ساتھ نام نہاد مذاکرات کی بلا جواز حمایت کے بجائے مزاحمت کے پروگرام کی حمایت کرتے ہوئے اس کے لیے تمام تر وسائل کےاستعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔

میں جانتاہوں کہ  برادر ابو مازن مسلح کارروائیوں کے مخالف ہیں تاہم میرے خیال میں عوامی مزاحمت کے تو وہ بھی خلاف نہیں ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔ تو کیا اگراسرائیل غزہ کی پٹی پر حملہ کرتا ہے توآحماس اور فلسطینی عوام جواب میں وہی راستہ اختیار کریں جو قابض دشمن نے اپنائے ؟

ڈاکٹرمرزوق:۔آپ کا کیا خیال ہے کہ اسرائیل غزہ میں ہماری قوم پر جارحیت مسلط کرے تو ہم اس پر خاموش رہیں؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اگر اسرائیل کی جانب سے اس طرح کی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا فطری ردعمل صرف کسی ایک جماعت کی جانب سے نہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم کی جانب سے سامنے آئے گا۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگرغزہ کی پٹی پر دشمن کوئی جارحیت کرے گا تو اس کا فیصلہ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمتی قوت کرے گی کہ آیا ہم نے دشمن کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے۔ جب ہم مزاحمت کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد صرف مجاہدین یا عسکری تنظیمیں نہیں بلکہ پوری قوم مراد ہوتی ہے کیونکہ دشمن کےخلاف پوری فلسطینی قوم نبرد آزما ہے۔ قوم کے کئی دھارے میں جن میں سماجی دھار، اقتصادی دھارے، سیاسی دھارے اور ان میں ایک بندوق کا دھارا بھی شامل ہے۔ دشمن کی جارحیت کی شکل میں یہ تمام دھارے متحرک ہوں گے۔ سیاسی دھارے اپنی جگہ پر کام کریں گے اقتصادی دھارے دشمن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے اورعسکری تنظیمیں دشمن کو مادی اور معنوی نقصان پہنچانے کے لیے آپریشن کریں گی۔ یوں اس طرح تمام فلسطینی دشمن کےخلاف جنگ میں شامل ہو جائیں گے۔

مرکز اطلاعات فلسطین: ایک جانب حماس اور فتح قاہرہ میں مفاہمتی معاہدے پر دستخط کر رہی تھیں اور دوسری جانب مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی فورسز حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی تھی۔ آپ کے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کا یہ طرز عمل مفاہمت کےلیے نقصان دہ نہیں؟

ڈاکٹرمرزوق:۔ ہم نے مغربی کنارے میں سیاسی گرفتاریوں کا مسئلہ صدر ابو مازن کے سامنے بھی اٹھایا اور ان پر واضح کر دیا ہے کہ اگر وہ مفاہمت کا عمل کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں مغربی کنارے میں اپنی فورسز کو لگام دینا ہو گی۔ ہم نے صدر عباس سے مغربی کنارے میں حماس سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے گرفتار کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ہمارا مطالبہ تسلیم کیا اور مزید گرفتاریوں کا باب بند کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے مطالبات کے باوجود رام اللہ اتھارٹی نے سیاسی پکڑ دھکڑ بند نہیں کی۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔ حماس اور فتح کے درمیان سابقہ مذاکرات میں بھی سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدے ہوتے رہے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر مرزوق:۔نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ حماس اور فتح کے درمیان اسیران کی رہائی کے لیے جو معاہدے ہوئے ہیں ان پر کافی حد تک عمل درآمد کیا گیا۔ گذشتہ ایک معاہدے کے  تحت غزہ میں حماس کی حکومت اور مغربی کنارے میں فتح کی حکومت نے اپنے ہاں سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد کو رہا کر دیا تھا۔ غزہ میں سیاسی اسیران کی تعداد بیس اور مغربی کنارے میں 45 رہ گئی تھی۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔ سنہ 2007ء میں حماس نے سیکیورٹی رسک قرار دے کر فتح کے کئی تخریب کاروں کو وہاں سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ کیا بلیک لسٹ کیے گئےان تمام تخریب کاروں کو مشترکہ سیکیورٹی کنٹرول کے تحت دوبارغزہ لائے جانے پراتفاق ہو گیا ہے؟

ڈاکٹرمرزوق:۔۔غزہ آمد سے تو کسی فلسطینی شہری کو نہیں روکا جا سکتا۔ البتہ جولوگ نقصِ امن کےمرتکب  ہوئے ہیں ان کا تعلق چاہے کسی بھی فریق، گروہ یا جماعت سے ہو، اس کےخلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی اور ان کا محاسبہ کیا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ موضوع ابھی زیرغورہے کہ آیا مشترکہ سیکیورٹی سسٹم کے تحت کس نے کیا کام کرنا ہے اور کیا سنہ 2007ء میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث کسی شخص کو کوئی عہدہ کب اور کیوں کر دیا جا سکتا ہے۔ اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ حماس کی قیادت اور خالد مشعل کے دورہ اردن کی تیاریوں کی اطلاعات ہیں۔ کیا اس دورے کی کوئی تاریخ مقرر کی گئی ہے؟

ڈاکٹرمرزوق:۔اس سلسلے میں میڈیا میں بہت سی باتیں آئی ہیں لیکن ہر رپورٹ کو درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حماس کی قیادت کے دورہ اردن کے بارے میں کوئی ٹائم فریک طے نہیں ہوا۔ تاہ موہ جلد عمان کا دورہ کریں گے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔خالد مشعل کے دورہ اردن کے کیا خاص مقاصد ہیں، کیاں حماس اپنا بیرون ملک ہیڈکواٹرعمان منتقل کرنا چاہتی ہے؟

ڈاکٹرمرزوق:۔ہم برادر مُلک اردن کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مستحکم اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ فی الحال حماس اپنا ہیڈ کواٹر دمشق سے کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ خالد مشعل کے دورہ اردن کا اصل مقصد صرف دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی