پنج شنبه 01/می/2025

حماس کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق سے مکالمہ

جمعہ 19-اگست-2011

ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق فلسطین کی منظم سیاسی اورعسکری تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ہیں۔ فلسطین کے داخلی سیاست اورعلاقائی و عالمی صورت حال پر گہری نظر رکھنےوالے حماس رہ نما سے حال ہی میں ان کے دورہ مصر کے دوران مصری جریدہ”الاخبار” نے خصوصی بات چیت کی۔

انٹرویو میں ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کےتبادلے کے لیے ترکی اور فرانس نے ثالثی کی پیش کش کی ہے تاہم وہ مصری حکومت کو اس معاملے کا اہم ثالث سمجھتے ہوئے قاہرہ کی ثالثی پر قائم ہیں۔

 انہوں نے انکشاف کیا ہے صدر محمود عباس نے مصر کی نگراں حکومت سے باضابطہ طور پر درخواست کی تھی کہ فلسطینی شہرغزہ کی پٹی سے ملحقہ سرحدی بارڈر رفح کراسنگ پوائنٹ نہ کھولا جائے تاہم قاہرہ نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کے ساتھ ہونے والی بات چیت ملاحظہ کیجیے۔

الاخبار:۔۔ ہماراپہلا سوال مصری انقلاب اور اس کے مسئلہ فلسطین پر اثرات کے بارے میں ہے۔ 25 جنوری کے مصری انقلاب سے آپ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کیا توقع رکھتے ہیں؟

ابو مرزوق:۔ مصر میں اس سال کے آغازمیں برپا ہونے والا انقلاب اپنے جلو میں فلسطین کے لیے بہت کچھ امید افزا پیغامات لے کر آیا ہے۔ اس انقلاب کا سب سے پہلا اثر یہ ہوا کہ تمام عرب ممالک ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے حقوق کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ عرب اقوام اور حکام میں ایک تحریک دکھائی دیتی ہے۔ اس کا اثرعرب ممالک کے فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں سےلگایا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب نے مصر کی غیر فطری بنیادوں پر قائم خارجہ پالیسی کو فطری حدود کا پابند کیا ہے اور قاہرہ کو فلسطین کے بارے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس کے اصل مقام پرلا کھڑا کیا ہے۔ ہم مصر کو خلیجی اور عرب ممالک پر مشتمل خیمے کا ایک اہم ستون سمجھتے ہیں۔ سابق مصری حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی اور اسرائیل سے مذاکرات کی رٹ نے بیس سال میں ہمیں کچھ نہیں دیا، اب یہ انقلاب بیس سال کی خامیوں کو دور کرنے کا پہلا قدم ہے جو اصلا مسئلہ فلسطین کے حل ہی کی ایک نوید ہے۔

رہی یہ بات کہ ہم اس انقلاب سے کیا توقع رکھتے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ اس انقلاب کا ثمر یہی نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم ہو جائے، بلکہ ہم چاہتےہیں یہ انقلاب فلسطینیوں کی تمام مشکلات کے حل کا ذریعہ ثابت ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین اور مصر کے درمیان شہریوں کی آزادانہ آمد و رفت کو اہمیت دی جائےاور بارڈر کھلا رکھنے کے معاہدے کی پابندی کی جائے۔

الاخبار:۔۔ عرب ممالک میں انقلاب کی لہر سے حماس اور قضیہ فلسطین کو کوئی فائدہ ہو گا؟

ابومرزوق:۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ عرب ممالک میں تبدیلی کے لیے جاری تحریک امن، کامیابی، سلامتی اورجمہوریت کے فروغ کا باعث ہو گی۔ اس کے دیگر مثبت نتائج میں ایک بات یہ بھی کہ عرب ممالک میں کرپشن،بدعنوانی اور لوٹ مار کو تحفظ دینے والے استبدادی نظام ہائے حکومت کی جگہ عوامی نمائندے اپنی اقوام کی ترجمانی کریں گے۔

عرب ممالک کی اپنی ایک جمہوری ثقافتی پہچان ہے۔ ہمیں اس پہچان کو برقرار رکھنے کے لیے جمہوری تبدیلی کے ساتھ اسرائیل کے استبدادی نظام کے سامنےمضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے۔تمام عرب ممالک کو ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی وضع کر کے مسئلہ فلسطین کی خدمت کرنا ہوگی۔ حماس کو امید ہے کہ یہ انقلابات عوام اور حکام کے درمیان پائی جانے والی فاصلوں کی خلیج کو ختم کرنے، خطے میں امریکی بالادستی کو کمزور کرنے اور فلسطین کے مسئلے کے حل کے ضامن ثابت ہوں گے۔ اگر یہ مقاصد حاصل ہو گئے تو یہی حماس، فلسطین اور تمام عرب اقوام کی کامیابی ہو گی۔

الاخبار:۔۔۔ ما بعد انقلاب مصر کا فلسطینیوں اور حماس کے بارے میں کیا طرزعمل ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ جیسا کہ میں ذکر کیا ہے کہ 25جنوری کے انقلاب کے بعد مصر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اپنے اصل دور کی طرف واپس آ گیا ہے۔ اب مصری قوم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اس کا اظہار مصر کی نگراں حکومت کے بیانات سے نہیں بلکہ عمل سے ہو رہا ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت حسنی مبارک کی اسرائیل اور فلسطین بارے پالیسی کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ سابقہ دور میں ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ بھی کر رہی ہے۔

حکومت کےعلاوہ مصر کی اصل حکمراں مسلح افواج کا موقف بھی قابل تحسین ہے۔ مصری آرمی کونسل نے رفح بارڈر کھولنے کے لیے جو پالیسی بیان جاری کیا ہے وہ نہایت امید افزا ہےاور حماس اور فلسطینی قوم کو اس سے حوصلہ ملا ہے۔

سابق صدرحسنی مبارک کے دور میں حماس کے خلاف زہرآلود پروپیگنڈہ کیا جاتا اور تنظیم پر افتراپردازی کی جاتی رہی ہے لیکن موجودہ حکومت نے حماس کے ساتھ دوستانہ طرز عمل اختیارکرتے ہوئے ماضی میں ہونے والی تلخیوں پر معذرت بھی کی ہے۔

الاخبار:۔۔۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے جرمنی ڈیلنگ سے باہر ہو چکا۔ اس سلسلے میں قاہرہ کیا کردار ادا کر رہا ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ حماس اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے کی جانے والی مساعی میں مصر کردار کلیدی سمجھتی ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں ترکی اور فرانس کی پیشکش بھی موجود ہے اور انقرہ اور پیرس دونوں اپنی مداخلت کا عندیہ دے چکے ہیں تاہم حماس مصر کو اس ضمن میں زیادہ بہتر ثالث سمجھتی ہے۔ رہا جرمنی کا ثالثی سے علاحدگی اختیار کرنا تو اس کی تمام ذمہ داری اسرائیل پرعائد ہوتی ہے۔ گیلاد شالیت کی رہائی کےلیے جرمنی نے کئی مثبت قدم اٹھائے لیکن اسکی کوششوں میں بھی اسرائیل کی طرف داری نمایاں تھی لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اسرائیلی حکومت کی ہٹ دھرمی تھی ، جس کے نتیجے میں جرمنی کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

حماس اور اسرائیل کے درمیان میڈیا کی نظروں سے اوجھل کوششیں ہوتی رہی ہیں کیونکہ ذرائع ابلاغ ہمیشہ افواہیں پھیلا کر معاملات کو اور گھمبیر کرتے رہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل پربھی سخت دباؤ ہے کہ وہ مصرکی نئی حکومت سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے اس کے ذریعےحماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل قبول کر لے۔ مصر بھی اس خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

الاخبار:۔۔۔ رفح کراسنگ کے معاملے پرآپ کونسا میکینزم بہتر خیال کرتے ہیں؟

ابو مرزوق:۔۔۔ میرے خیال میں فلسطین اور مصر کے درمیان ہم آہنگی سے بڑھ کر بہتر کوئی اور میکینزم نہیں ہو سکتا۔ اگر فریقین رفح بارڈر پر دو طرفہ آمد و رفت کے کسی ایک ایجنڈے پر متفق ہو جاتے ہیں تو وہی بہتر لائحہ عمل ہو گا۔ اس کے باوجود حماس نے اس کے حل کے لیے ایک درمیانہ راستہ نکالا ہے وہ یہ کہ کراسنگ کا مسئلہ حل کرتے وقت مصر کی سلامتی اور اس کے مفادات کو اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے اور کراسنگ کھولنے کے نتیجے میں قاہرہ کو کسی قسم کی مشکل میں نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ دو طرفہ آمد و رفت کے لیے جو شرائط اور ضوابط طے کیےجائیں ہر دو فریق ان کی سختی سے پابندی کریں۔

دوسری بات یہ کہ رفح کراسنگ کا مسئلہ زیربحث لاتے ہوئے یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اس مسئلےکا براہ راست تعلق غزہ کی سترہ لاکھ آبادی اور اس کی معاشی مشکلات سے ہے۔ ماضی قریب میں رفح بارڈر کو سامان اور بعض مشکوک افراد کی آمد ورفت کی بنا پر بند کیا جاتا رہا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے بعد اس بارڈر کا کھلا رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ بارڈر اہالیان غزہ کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔

الاخبار: کیا یہ خبر درست ہے کہ محمود عباس نے قاہرہ سے کہا تھا کہ وہ رفح کراسنگ نہ کھولے؟

ابو مرزوق:۔۔ یہ اطلاعات حقیقت پر مبنی ہیں کہ صدر محمود عباس نے مصر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ کے بین الاقوامی کراسنگ پوائنٹ کو بند رکھے۔ صدر عباس نے مصری حکومت کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا کہ رفح بارڈرکا انتظام سنہ 2005ء کو فلسطینی اتھارٹی اورمصر کے درمیان طے کردہ معاہدے کےتحت ہی چلایا جانا چاہیے جب تک سنہ 2005ء والا نظام بحال نہیں ہو جاتا تب تک رفح رہداری کو بند رکھا جائے۔

رفح بارڈر کو بند رکھنےکا مطالبہ صرف محمود عباس کی جانب سے نہیں آیا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کےمذاکرات کاراعلیٰ صائب عریقات نے بھی مصری آرمی سپریم کونسل کے سامنے یہ مطالبہ رکھا۔ بعد ازاں صدر عباس نے برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی” کو انٹرویو میں بھی یہ مطالبہ دہرایا تھا نیز رفح کراسنگ کو بند رکھنا محمود عباس کی جماعت فتح کی پالیسی تھی اور فتح نے مصری حکام سے رابطوں میں باربار یہ مطالبہ کیاتھا۔

الاخبار:۔۔۔ حماس کو مصر کی سب سے منظم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کا خارجی ونگ قرار دیا جاتا ہے اور حماس پر الزام ہے وہ اخوان المسلمون کے ایجنڈے پرکام کر رہی ہے۔ حسنی مبارک کے پس منظر میں چلے جانے کے بعد کیا اخوان المسلمون اور حماس کے درمیان تعلقات میں کوئی نئی جہت آئی ہے یا تعلقات بدستور اسی ڈگر پر قائم ہیں؟

ابو مرزوق:۔۔۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حماس کی جڑیں اخوان المسلمون ہی سے جا ملتی ہیں لیکن حماس کا اپنا سیاسی اور مزاحمتی پروگرام ہے جو اخوان المسلمون کے سیاسی طریقہ کار سے بہت مختلف ہے۔ اخوان المسلمون ایک ہمہ جہت جماعت ہے جو کئی عرب ممالک میں تبدیلی کے لیے سرگرم عمل ہےجبکہ حماس صرف فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ گوکہ اخوان المسلمون بھی اسرائیلی استبداد کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتی ہے لیکن صہیونی جبر و استبداد کےخلاف عملا صر حماس کام کر رہی ہے۔

 رہا سوال حماس اور اخوان المسلمون کے درمیان تعلقات کا ہے تو میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حماس اور اخوان المسلمون کے درمیان تعلقات نہ کبھی خراب ہوئے اور نہ ہی آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات مصر میں ماقبل اور مابعد میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ایک سنہری تاریخ ہے جو تاابد قائم رہے گی۔

الاخبار:حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے لیے جاری کوششوں کو آپ کس مقام پر دیکھتےہیں اور کیا آپ جو ہو رہا ہے اس سے مطمئن ہیں؟

ابو مرزوق:۔۔ حماس اور فتح کےدرمیان مفاہمت کی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں تاہم ان میں مثبت پیش رفت اس سال مصر میں آنے والے انقلاب کے بعد آئی ہے۔ ما بعد انقلاب مصری حکومت نے مفاہمت کے لیےجو کردار ادا کیا ہے وہ قابل تحسین ہے، یہ مصر کی کوششوں کا نتیجہ ہےکہ فتح اپنے کئی مطالبات سے دستبردار ہوئی اور امریکی دباؤ سے نکل کر اس نے فیصلے کیے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود ابھی بہت سے رکاوٹیں مفاہمت کو عملی شکل دینے کی راہ میں مزاحم ہیں۔ بدقسمتی سے جن امور پر اتفاق نہیں ہو سکا اس کی بنیادی وجہ بھی امریکی اور صہیونی مداخلت ہے۔ جب تک فتح بیرونی اثرات سے باہر نہیں آئے گی مفاہمت کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔

الاخبار:حماس سلام فیاض کو قومی حکومت کا وزیراعظم کیوں تسلیم نہیں کرتی؟

ابو مرزوق:۔۔۔ سوال یہ نہیں کہ حماس سلام فیاض کو بطور وزیراعظم کیوں قبول نہیں کرتی بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا سلام فیاض کے علاوہ پورے فلسطین میں وزارت عظمیٰ کے لیےکوئی دوسرا امیدوار کیوں نہیں۔ یہ سوال محمود عباس سے پوچھا جانا چاہیے کہ آیا وہ صرف سلام فیاض ہی پر کیوں مصر ہیں۔

حماس اور فتح کے درمیان قاہرہ میں طے پانے والے امور میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ وزیراعظم سمیت قومی حکومت کے تمام عہدوں پر تعیناتی صرف اتفاق رائے سے ہو گی۔ اب حماس اگر سلام فیاض پراتفاق نہیں کرتی تو فتح کو کوئی دوسرا امیدوار سامنے لانا چاہیے نہ کہ سلام فیاض ہی کو ناگزیر قراردے  کر اس پر اڑ جانا چاہیے۔

حماس سلام فیاض کو اس لیے وزیراعظم کے طور پر قبول نہیں کرتی کیونکہ سلام فیاض ملک میں تقسیم کی علامت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ وہ حماس اور فتح کو اس فلسطینی عوام کو آپس میں جوڑنے کے بجائے مزید پھوٹ پیدا کرتے ہیں۔ بھلا ایسے شخص کو وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

مفاہمت کی صورت میں حماس یہ بات قبول نہیں کرے گی کہ غزہ میں اسماعیل ھنیہ کی سربراہی میں حکومت مستعفی ہو جائے اور مغربی کنارے میں سلام فیاض کی حکومت کو قومی حکومت مان لیا جائے۔ سلام فیاض پر حماس اور دیگر جماعتوں کو کئی اعتراضات ہیں۔ انہوں نے مغربی کنارے میں اپنی حکومت کے دوران تمام رفاہی اور فلاحی ادارے بند کر دیے، زکواۃ کمیٹیاں تک ختم کر دیں اور سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے سیکڑوں ملازمین کو انکی نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بھلا ایسا شخص فلسطینیوں کے لیے کیسے مفاد کا باعث بن سکتا ہے۔

الاخبار:۔۔۔ دیگر فلسطینی جماعتیں حماس اور فتح کے مفاہمت بارے کردار پرخوش نہیں۔ کیوں؟

ابو مرزوق:۔۔۔ ہر جماعت کا اپنا نقطہ نظر ہے اور ہم سب کے نقطہ ہائے نظر کا احترام کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینی جماعتوں نے حماس اور فتح کو مفاہمت کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو امور حماس اور فتح کے درمیان طے پائے وہ تمام دیگر جماعتوں نے بھی قبول کیے ہیں تاہم اختلافی امور پر دیگر فلسطینی دھڑوں کا موقف وہی ہے جو حماس کا ہے۔

الاخبار:۔۔۔ حماس کا صدر عباس کی جانب سے ستمبر میں فلسطینی ریاست کے لیے جنرل اسمبلی سے رجوع کے بارے میں کیا موقف ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ میرے خیال میں فلسطینی ریاست کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کے لیے محمود عباس کی اب تک کی کوششیں ان کی ذاتی شخصیت تک محدود رہی ہیں۔ حالانکہ یہ پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ پہلے تو صدر عباس کو ایسے کسی بھی اقدام سے قبل پوری قوم اور تمام نمائندہ جماعتوں کو اعتماد میں لے کران کی مشاورت سےکوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ لیکن ابھی تک صدر عباس کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

دوسری اہم بات یہ ہےکہ اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حقوق کےلیے پہلے بھی کئی قرارادادین منظور کی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو متنازعہ قرار دے رکھا ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر متنازعہ ہے اور سب سے اہم یہ کہ اقوام متحدہ کےایجنڈے کے مطابق تمام فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی ان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ جب یہ تمام بنیادی نوعیت کی قراردادیں بھی غیرموثر ثابت ہوئی ہیں تو بھلا اقوام متحدہ ایک اور قرارداد منظور بھی کر لے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔

جہاں تک دیگر فلسطینی جماعتوں بشمول حماس کا ستمبر اقدام کے بارے میں موقف ہےتو وہ یہ ہے کہ فلسطینی قوم ایسا کوئی معاہدہ تسلیم نہیں کرے گی جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ویسے بھی صدر عباس کو جنرل اسمبلی میں صرف ایک سو سات ممالک نے حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ تمام ممالک فلسطینی اتھارٹی کے اس مطالبے پر اپنا ووٹ بھی محمود عباس کی قرارداد کے حق میں دیں۔

الاخبار:۔۔۔ حماس اور فتح کے درمیان وزارت عظمیٰ کا تنازعہ کب تک حل ہونے کی امید ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ مجھے امید ہے کہ یہ کوئی ایسا ایشو نہیں کہ جو لاینحل رہے بلکہ جلد ہی دونوں بڑی جماعتیں اتفاق رائےسے قومی حکومت کا وزیراعظم لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ اس سلسلے میں بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔

البتہ جہاں تک بغیر حکومت کے انتخابات کا سوال ہے یہ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات کا اعلان مجلس قانون ساز ہی کو کرنا چاہیے اس کے بغیر انتخابات کا اجرا ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہہے کہ آزاد الیکشن کمیشن، انتخابات کے لیے آزاد عدلیہ کا قیام اور انتخابی شیڈول کا بہتر اعلان حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔

الاخبار:۔۔۔ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کےخلاف جاری عوامی تحریک میں حماس کا کیا موقف ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حماس اپنا دفتر مصر منتقل کر رہی ہے؟

ابومرزوق:۔۔۔اس سلسلے میں حماس کا موقف واضح اور اصولی ہے کہ ہم کسی عرب ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ حماس کا دفتر دمشق سےقاہرہ منتقل  کیے جانے کی باتیں محض افواہیں ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔

الاخبار:۔۔۔ حماس کی فلسطین میں موجود قیادت اور بیرون ملک قیادت کے درمیان اختلافات کی بھی خبریں آتی رہی ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ابومرزوق:۔۔۔حماس ایک وسیع حلقہ اثر رکھنے والی جماعت ہے۔ اس میں مختلف الخیال افراد موجود ہیں تاہم حماس کی مرکزی قیادت میں چاہے وہ فلسطین کے اندر ہو یا باہر کوئی اختلاف پیدانہیں  ہوئے۔ اگر اس طرح کی کوئی بات تھی بھی تواسے دور کر دیا گیا ہے۔ نقطہ نظر کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں۔ اہمیت کی بات فیصلوں کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ حماس کی مرکزی قیادت جو فیصلہ کرتی ہے تنظیم کےبقیہ ارکان کے لیے اسے تسلیم کرنا لازم ہوتا ہے۔

الاخبار:۔۔۔ کیا یہ تاثر درست ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھنے والی جماعت اسرائیل پر راکٹ حملے کرنے والی دیگر جماعتوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے؟

ابو مرزوق:۔۔ یہ بات میری سمجھ سے باہرہے کہ فلسطینیوں کا اسلحہ اسرائیل کا محافظ بن گیا۔ حالانکہ ایسا قطعی طور پر نہیں۔ حماس ہی وہ واحد تنظیم ہے جس نے نہ صرف دشمن کےخلاف مسلح جدو جہد متعارف کرائی بلکہ اپنے ہزاروں جانثاروں کی قربانیاں دے کر اسے جاری رکھا ہے۔

جہاں تک غزہ سے راکٹ حملوں کی روک تھام کا سوال ہے تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل اورغزہ حکومت کے درمیان ایک سیزفائر معاہدہ ہے۔ اگر حماس اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے دیگر فلسطینی جماعتوں کو ایسی کسی کارروائی سے روکتی ہے تو اسے یہ تاثر کیسے پیدا ہو جاتا ہے کہ حماس کا اسلحہ اسرائیل کی حفاظت کر رہا ہے؟

الاخبار:۔۔۔ غزہ میں حماس کی حکومت پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ شہریوں سے بھاری ٹیکس وصول کرتی ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ اس طرح کی باتیں اور الزامات صرف سیاسی مفادات کےحصول کے لیے عائد کیے جاتے ہیں،جن میں کوئی صداقت نہیں۔ غزہ میں حماس کی حکومت عوام کی منتخب حکومت ہے۔ غزہ حکومت نے نئے انتظات کےتحت عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بجائے سابق دور میں فتح کی حکومت کےلاگو کردہ ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے۔ غزہ کی پٹی میں معاشی ناکہ بندی کے باوجود آپ دیکھیں تو اشیائے صرف کی قیمیتں مغربی کنارے میں اشیاء کی قیمتوں سے کم ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ بھاری ٹیکس مغربی کنارے میں فتح کی حکومت لگا رہی ہے یا حماس کی حکومت۔

الاخبار:۔۔۔  کیا غزہ میں حماس کی حکومت اور تنظیم دونوں ایک ساتھ کام کر رہی ہیں۔ یا دونوں کا الگ الگ میدان ہے؟

ابو مرزوق:۔۔۔ حکومت اور حماس کی تنظیم دونوں کا الگ الگ کام اور میدان ہے۔ حکومت فلسطینی مجلس قانون ساز کے سامنےجواب دہ ہے حماس کےسامنے جواب دہ نہیں۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی سربراہی میں قائم فلسطینی حکومت کے فیصلوں پر پارٹی کو کوئی اختلاف نہیں ہوتا، کیونکہ اسماعیل ھنیہ وہی فیصلہ کرتے ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں ہوتا ہے۔ حماس حکومت کے فیصلوں پر نہ اثرانداز ہوتی ہےاور نہ ہی مداخلت کرتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی