اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” کے پارلیمانی بلاک اصلاح و تبدیلی کے خاتون رکن قانون سازکونسل”سمیر حلائقہ” نے کہا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی صدر محمودعباس کے زیرکمانڈ ملیشیا کی جانب سے بے گناہ شہریوں کی پکڑ دھکڑ کے باعث تمام شہروں میں فضاء نہایت خراب ہے۔ شہریوں میں شدید مایوسی اور پریشانی کی کیفیت طاری ہے اور تمام شہری اس مطالبے پر متفق ہیں کہ عباس ملیشیا کی جیلوں میں زیرحراست تمام قیدیوں کو بلا تاخیر رہا کیا جائے اور مزید گرفتاریوں اور معصوم شہریوں کا تعاقب بند کیا جائے۔
سمیرحلائقہ نے ان خیالات کااظہار مغربی کنارے کےشہر الخلیل میں مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔
حماس کی خاتون رہ نما کےساتھ ہونے والی بات چیت پیش ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ رمضان المبارک کے دوران مغربی کنارے بالخصوص الخلیل کی صورت حال کیا ہے۔ کیا عوام فلسطینی اتھارٹی کےاقدامات سے مطمئن ہیں؟
سمیرحلائقہ:۔ مغربی کنارے کے تمام شہروں بالخصوص الخلیل جیسے مرکزی شہرمیں فضاء نہایت سوگوار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے معصوم شہریوں کے خلاف جاری کری کڈاؤن اور جیلوں میں محروسین پر ہونے والا تشدد ہے۔ مغربی کنارے میں ہر شخص نالاں اور مایوس دکھائی دیتا ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں پر چھاپے، ان کی گرفتاریاں اور بچوں اور خواتین کو زد و کوب کرنے کا سلسلہ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ دو روز قبل عباس ملیشیا نے الخلیل میں بغیر کسی سبب اور الزام کے ایک مسجد میں باجماعت نماز تراویح ادا کرتے چا نوجوانوں کو حراست میں لے لیا اور ابھی تک ان کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ بغیر کسی الزام اور سبب کے شہریوں کا اغواء ایک خطرناک عمل ہے اور فلسطین کا کوئی بھی شہری اسے روا نہیں سمجھ سکتا۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ ایسا آخر کیوں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی حماس اور دیگر جماعتوں کے خلاف سیاسی کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے؟
سمیرحلائقہ:۔ مجھے یہ بات قطعا سمجھ نہیں آتی کہ آیا فلسطینی ملیشیا بے گناہ شہریوں کو گرفتار کر کے آیا کس کی خدمت بجا لا رہی ہے۔ فلسطینی عوام میں مفاہمت سے قبل اور اس کے بعد بھی کسی حلقےمیں فلسطینی مزاحمت کاروں کی گرفتاریوں کی حمایت نہیں کی جا رہی۔ یہ امر کس قدر افسوس ناک کے ہے عباس ملیشیا رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کی حرمت کا بھی کوئی خیال نہیں کرتی اور نہ ہی چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال کیا جاتا ہے۔ عباس ملیشیا چوبیس گھنٹے میں جب اور جس وقت چاہتی ہے کسی بھی شہری کے گھر میں گھس کر بچوں تک کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔
اس کی تازہ مثال ترقومیا قصبے سے چار نوجوانوں کا اغواء اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا جانا ہے حالانکہ ابھی تک عباس ملیشیا ان کی گرفتاری کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکی اور نہ ہی ان کے ٹھکانے کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے۔ رہا عام شہریوں کی مشکلات کا اندازہ تو یہ سوال بھی کم المناک نہیں۔ بات صرف شہریوں کی گرفتاریوں ان پر جسمانی تشدد تک محدود نہیں رہی بلکہ سلام فیاض کی سربراہی میں قائم حکومت نے سیاسی انتقام کے تحت 2000 افراد کو ان کی نوکریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ غریب اور نادار شہریوں کی بہبود میں سرگرم خیراتی ادارے بھی عباس ملیشیا اور سلام فیاض کی استبدادی حکومت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جس کے باعث ہزاروں خاندانوں کو زکواۃ اور دیگر مدات میں ملنے والی امداد سےمحروم کر دیا گیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ آپ کے خیال میں کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گرفتاریاں جاری رہیں اور مفاہمت بھی ہو جائے گی؟
سمیرحلائقہ:۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مغربی کنارے میں مفاہمت کے حوالے سے سخت مایوسی کی کیفیت ہے۔ اس مایوسی کی وجہ صرف گرفتاریاں اور کریک ڈاؤن نہیں بلکہ اوربھی کئی اسباب ہیں۔ ان میں شہریوں کو نوکریوں سے فارغ کر کے انہیں مشکلات سے دوچارکرنا بھی شامل ہے۔ موجودہ کیفیت میں کوئی ایک فلسطینی بھی مفاہمت کے حوالے سے پرامید دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ ہرشہری یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی مفاہمت کے معاملے میں غیرسجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ سننے میں آیا ہے کہ سلام فیاض کی حکومت نےرمضان المبارک میں علماء پر مساجد میں تقاریر پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پرلوگوں کا کیا ردعمل ہے؟
سمیرحلائقہ:۔ مغربی کنارے میں مساجد کے آئمہ اور خطباء کی پہلے ہی قلت پائی جاتی رہی ہے۔ تاہم اب کی بار سلام فیاض کی حکومت جس طرح دین بیزاری کا ثبوت دیتے ہوئے علماء پر مساجد میں درس و تدریس پر پابندی عائد کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
سلام فیاض کی حکومت میں شامل وزیر مذہنی امور واوقات نے علماء کے درس و تقاریر پرپابندی عائدکر کے ہرشہری کو اپنا مخالف بنا لیا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران بے گناہ شہریوں کی گرفتاریوں کے ساتھ علماء کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے عوام میں شدید بے چینی پیدا کی ہے۔
اس کے علاوہ علماء اور آئمہ مساجد کی بڑی تعداد اسرائیلی جیلوں میں زیرحراست ہے اور قابض صہیونی فوج مزید علماء کو حراست میں لینے کے لیے کوشاں ہے۔
رمضان المبارک کے دوران شہریوں کا مساجد میں اعتکاف کا رجحان بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ تاہم سلام فیاض حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ مساجد کو ویران کر دیا جائے۔ اپنے طور پراس نے علماء اور آئمہ پر پابندیاں عائد کر کے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے تاہم شہریوں کو اعتکاف سے روکنا سلام فیاض کی بس کی بات نہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین:۔ صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی اہالیان مغربی کنارا پر رمضان المبارک کے دوران کس حد تک اثر انداز ہو رہی ہے؟
سمیرحلائقہ:۔ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے بیشتر بڑے شہروں اور کئی دیہات کی ناکہ بندی سخت کر دی تھی۔ جگہ جگہ ناکے لگا کر شہریوں کی تلاشی کا سلسلہ تیز کر دیا گیا تھا جس سے کئی شہروں میں رمضان المبارک کے مصروف اوقات میں شہریوں کو ٹریفک جام سمیت کئی دیگرمشکلات کا سامان کرنا پڑ رہا ہے۔
اس کے علاوہ جمعہ کے روز صہیونی فوج خاص اہتمام کے ساتھ مغربی کنارے کے شہروں میں اپنی نفری بڑھا دیتی ہے۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ کی طرف نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے سے روکنا ہے۔
رمضان المبارک کے پہلے جمعۃ المبارک کو ہزاروں افراد کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیےمسجد اقصیٰ میں جانے سے روک دیا گیا۔