پنج شنبه 01/می/2025

عربوں کا مستقبل اطمینان بخش ہے۔ اسرائیل کو اپنی پوزیشن بدلنا ہو گی : اسلامی مفکر ھویدی

جمعہ 17-جون-2011

معروف اسلامی مصنف اور مفکر ’’فھمی ھویدی‘‘ نے عرب انقلابات کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے اسے مستقبل میں استبدادی نظام سے چھٹکارے کا سبب قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں صہیونیت نواز حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کو اپنی گرتی علاقائی اور عالمی ساکھ پر شدید رنج ہے۔

ھویدی نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ اپنی ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ مصر اور اسرائیل کے مابین مستقبل کے تعلقات انتہائی پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں تیل بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ تعلقات کا انحصار اسرائیلی جارحیتوں کو روکنے کی مصری استعداد پر بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مصر کو سب سے پہلے اپنے اندرونی انتظامات کو درست کرنا ہوگا۔  بیرونی دنیا میں جاری کھیل پر موثر طور پر اثر انداز ہونے کے لیے اندرونی حالات درست ہونا لازم ہیں۔

مفکر اسلام ھویدی کا کہنا تھا کہ مصری انقلاب کے خلاف سخت بیرونی دباؤ کام کر رہا ہے بالخصوص امریکا اور اسرائیل اس انقلاب کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔ امریکا کسی صورت اپنے مفادات کے خلاف کسی جمہوری سیٹ اپ کا خواہاں نہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے وہ مصر کی جماعتوں کو فنڈز اور اسلحہ فراہم کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔

فلسطینی جماعتوں کے مابین مفاہمت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مفاہمت کے ثمرات ابھی تک نظر نہیں آئے۔ حماس اور فتح دونوں جماعتوں نے اس مفاہمت سے فائدہ اٹھایا ہے، تاہم انہوں نے ابو مازن محمود عباس کے موقف پر تحفظات کا اظہار کیا جنہوں نے اپنے بیان میں امریکا اور اسرائیل دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔

اسلامی مصنف ھویدی نے اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے ایران، حزب اللہ، شام یا غزہ میں کسی نئی متوقع جنگ پر نظر ثانی کی توقع کا اظہار کیا۔

ذیل میں ھویدی کا انٹرویو کے پیش کیا جارہا ہے۔

س: 15 مئی کو یوم نکبہ کے واقعات، عرب انقلابات بالخصوص مصر میں اسرائیل حامی حکومت کے خاتمے کے بعد آپ اسرائیل کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟

ج: مستقبل کے متعلق کوئی بھی بات چیت قبل از وقت ہوگی تاہم اس ضمن میں دو حوالوں سے بات کی جاسکتی ہے پہلا یہ کہ کئی سالوں کے بعد عرب قوموں کی آواز پوری طاقت سے بلند ہوئی ہے جو بلامبالغہ مشرق وسطی میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ بات مستقبل کے حوالے سے کافی اطمینان بخش قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ جب ہماری قوم کسی بعض جماعتوں اور چند حکمرانوں کے تحت ہوتی ہے تو اس کی تقدیر بھی انہیں حکمرانوں کی مرھون منت لکھی جاتی ہے دوسری طرف ان حکمرانوں کی اکثریت عوامی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتی۔
 
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ عرب انقلابات کے بعد اسرائیل کو شدید دھچکا لگا ہے اور وہ  دفاعی پوزیشن میں آچکا ہے تمام اسٹریٹجک تبدیلیاں اس کے خلاف جارہی ہیں۔ سب سے پہلے تو ایران تیس سال سے اسرائیل کے لیے مددگار ثابت ہونے والی اسٹریٹجی سے باہر آچکا ہے۔ مصر بھی اسرائیلی کی حمایت میں پہلے جیسا نہیں رہا۔ اسرائیلی سیاستدان خطے میں بالعموم اور اپنے ہمسایے میں بالخصوص برپا ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے حساب بھی اب تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو اگر عرب انتفاضہ قرار دیا جائے تو کیا یہ انتفاضہ تیسرے فلسطینی انتفاضہ کا سبب بنے گا، بہت سے اندازے اس طرف جارہے ہیں کہ فلسطین بھی اس تبدیلی کو قبول کرے گا، عملی اور اسٹریٹجک طور پر اسرائیلی موقف مشکلات میں پڑ چکا ہے اور اس سب کا براہ راست فائدہ مسئلہ فلسطین کو جائے گا۔

س: اس مرتبہ فلسطینیوں کے 63 ویں یوم نکبہ پر اسرائیل نے فلسطینی اور عرب مظاہرین کا قتل عام کیا۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا اس سے اسرائیل میں پائی جانے والے انتشار کا پتہ چلتا ہے؟

ج: فطری طورپر اسرائیل شدید غم و غصے میں ہے، کیونکہ اس کے اسٹریٹجک تدبیریں تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔ حتی کے ایران پر حملہ کرنے کی ان کی منصوبہ بندی بھی تاخیر کا شکار ہوگئی ہے۔ کیونکہ ان کا مصری محاذ پر امن نہیں رہا۔ اب ہم پر بھی اپنی اسٹریٹجی تبدیل کرنا لازم ہے۔ اسرائیل کے اندر ایک اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ حتی کے اب اسرائیل کے اندر سے ایسی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جو اپنی حکومت کو فلسطین کے ساتھ مذاکرات کی ترغیب دی رہی ہیں۔ تاہم عرب ممالک میں ہونے والے اضطراب بھی قابل افسوس ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل یہ سوال بھی کر رہا ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا ہے تو تم اپنے ملکوں میں کیا کر رہے ہو؟

س: آپ نے مصر کی اہمیت بیان کی کہ وہ فلسطین کا ہمسایہ ہے اب آپ آئندہ مصر اور اسرائیل کے تعلقات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ج: یہ سوال  کافی پیچیدہ ہے، مصر میں آنے والے انقلاب سے اسرائیل اور مغرب دونوں کو شدید تکلیف ہوئی ہے۔ پہلے نمبر پر تو امریکا اور مغرب کے تیل سے وابستہ مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے دوسرا ان تبدیلیوں سے اسرائیل کی مشکلات بھی بڑھی ہیں۔ اب معاملہ یہ نہیں کہ مصر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر عمل درآمد کرے گا یا نہیں؟ بلکہ وہ کیا چیزیں ہیں جن کی مدد سے مصر اسرائیلی جارحیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے تعلقات پر نظر ثانی کرے گا؟ آج مصر کی جانب سے اسرائیل کو گیس کی فراہمی اور اس کی قیمت پر باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب مصر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے ختم کرنے کی حالت میں آجائے گا؟

حالیہ مصری وزیر خارجہ نے وزارت سے قبل اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ تاہم خواہشات اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مصری انقلاب کو فطری طور پر امریکا، یورپی یونین اور نام نہاد گروپ چار کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا تاہم اس کو سب سے پہلے مصر میں سکیورٹی اور اقتصادی صورتحال کو درست کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد اسے امور خارجہ کی طرف توجہ کرنا ہے جس میں اسے ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات کو بھی دیکھنا ہے۔ مصری قیادت کو اس محاذ پر بھی کامیاب ہونا ہوگا، ہم کسی سے عسکری ٹکراؤ کی بات نہیں کر  رہے مگر مصر کو فلسطین اور عرب دنیا کے امن کو برباد کرنے کی پاداش میں اسرائیل کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی میں جانا ہوگا۔ یہ انقلاب فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ جنگ کرنے کے قابل نہیں ہے دوسرا اسرائیل نے پورے مصر میں مسلمانوں اور قبطیوں کے درمیان اپنے ایجنٹوں کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔

س: گویا اسرائیل میں فرقہ پرستی اسرائیل پھیلا رہا ہے؟

ج: جی یہ اسرائیل ہے جو مصر میں قوم پرستی اور فرقہ واریت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ انقلابی تحریک کی اولین ترجیح مصر کی داخلی مشکلات کو حل کرنا ہونا چاہیے۔ یہ وہ بات ہے جس پر فلسطینی قیادت بھی زور دے چکی ہے۔

س: مصری انقلاب صرف مصر کے لیے ہی  نہیں بلکہ اپنی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر عرب اور اسلامی دنیا کے لیے بھی بہت زیادہ اہم ہے۔ اس انقلاب کے اسلامی دنیا کے مسائل بالخصوص مسئلہ فلسطین پر اثرات کیا ہوں گے۔ آپ کی نظر میں مصری انقلاب کو اب کیا خطرات لاحق ہیں؟

ج: آنے والے وقت میں مصر کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا، میں یہاں، ایران اور دیگر علاقوں میں یہ کہ چکا ہوں کہ مصر محض ایک ملک نہیں ہے بلکہ یہ ایک امت ہے۔ جس وقت مصر پیچھے ہٹا امت بھی پیچھے رہ گئی۔ ہم اس بات کو جانتے ہیں وہ بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مصری انقلاب کو اس وقت امن، استحکام اور اقتصادی ترقی کا سامنا ہے۔ اگر مصر میں انتشار رہا تو یہاں پر کوئی سیاح اور بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ اس طرح وہاں پر صنعتیں کام کرنا بند کردیں گی۔

ہمیں ہمہ جہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مصری انقلاب صرف سو دنوں میں برپا ہوگیا لیکن پچھلا نظام اس کے سامنے اس قدر جلدی سرنڈر نہیں کریگا۔ لوگوں کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ نئے نظام میں وہ زیادہ محفوظ ہیں۔ آج مصر کو ماہانہ تین ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ لہذا مصری کی اقتصادی ترقی ایک بڑا چیلنج ہے۔ برآمدات ختم ہو چکی ہے پروڈکشن رک چکی ہے۔ قوم ظلم، ناانصافی اور انتخامی دھاندلی کے خلاف ہے مگر لاکھوں لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہمیں سب سے پہلے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ ایران کے انقلاب میں امام خمینی کی صورت میں ایک قائد موجود تھا مگر مصری انقلاب بغیر قائد کے ہے۔ مصری فوج اس انقلاب کی محافظ تو ہے مگر قوم کی رہنما نہیں۔ چنانچہ قیادت پیدا کرنا ہوگی اور یہ وقت کے ساتھ ہی ہوگا۔

س: آپ نے انقلاب کو درپیش اندرونی خطرات سے آگاہ کیا۔ مصری انقلاب کو بیرونی خطرات کون کونسے  لاحق ہیں؟

ج: مصر میں آنے والے انقلاب کے لیے بیرونی خطرات میں امریکا اور اسرائیل سر فہرست ہیں۔ دونوں ممالک کو مصری انقلاب سے سخت دھچکا لگا ہے۔ اس بارے میں تو کچھ معلوم نہیں کہ اسرائیل خفیہ طور پر انقلاب کے خلاف کیا اقدامات اٹھا رہا ہے؟ امریکا جانتا ہے کہ مصر یا کسی بھی عرب ملک میں قومیت کی تحریک امریکا اور اسرائیل کے مفادات کے خلاف ہے۔ امریکا مصر میں جمہوریت کی حمایت اسی صورت کریگا جب و اس کے مفادات کےمطابق ہو اور اگر ایسا ہوا تو وہ جمہوریت مصری عوام کے مطالبات اور مفادات کے خلاف ہی ہوگی۔ چنانچہ اس وقت امریکا کو بھی مشکل کا سامنا ہے تو ہمارے سامنے بھی مصائب ہیں۔ اگر ہم مصر میں امریکی مفادات کے خلاف جمہوریت لے آتے ہیں تو یہ امریکا کے ساتھ سرد سیاسی جنگ کا آغاز ہوگا۔ سیاسی انقلاب کے لیے ترکی کی طرح انتخابات اور اداروں کے ذریعے تبدیلی لانا ہوگی پھر ہم اس حالت میں ہونگے کہ امریکا کے سامنے انکار کرسکیں جیسے ترکی نے امریکی فورسز کو اپنے ملک سے گزرنے دینے سے انکار کردیا تھا۔

س: فلسطینی مفاہمت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ اس کے کیا اثرات ہونگے؟

ج: فلسطینی مفاہمت خوش آئند ہے۔ اس مفاہمت سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی جماعتوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ عرب عوام بیدار ہورہی ہے۔ اور فلسطینی قوم بھی تقسیم کا خاتمہ چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مقدمہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن انہیں اقوام متحدہ میں جانے سے قبل فلسطینی مفاہمت کو مکمل کرنا ہوگا۔ کیونکہ وہاں ان سے فلسطینی ریاست کی حدود پر بھی سوال ہوگا۔ ان سے ان کی نمائندگی کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ وہ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
س: کیا عالمی برادری ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گی؟
ج: شاید ایسا ہوجائے، مگر سوال ریاست کو تسلیم کرنے کا نہیں بلکہ سرزمین ہے، ہمارا جھگڑا اسرائیل اس طرح ختم نہیں ہوگا کہ وہ ہمیں ایک ریاست دے کر ہماری تضحیک کرتا رہے اور ہمارا خون بہاتا رہے۔ اسرائیلی ایسی فلسطینی ریاست کی بات کرتا ہے جو اس کے لیے کم سے کم نقصان دہ ہو۔ حالانکہ درحقیقت معاملہ فلسطینی سرزمین کا ہے جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کسی پرچم، اداروں اور مرکزی بنک کے الگ ہونے کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ فلسطین کی اصل بنیاد غصب کی گئی ساری سرزمین ہے۔

مختصر لنک:

کاپی