حال ہی میں انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کی. انٹرویو میں پروفیسر عبدالستار قاسم کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کا وجود اسرائیل امریکا کی سرپرستی کا مرہون منت ہے. اسرائیل آج فلسطینی اتھارٹی کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے اتھارٹی دس دن تک بھی نہیں چلےگی. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے. یہ تبدیلی کسی ایک عرب ملک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات فلسطین میں فتح اتھارٹی تک پہنچیں گے. پروفیسر صاحب نے فلسطینی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ذلت آمیز سیکیورٹی تعاون کے فروغ کے بجائے قومی اتحاد کے لیے کوششیں کرے کیونکہ آج نہیں تو کل اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی سرپرستی چھوڑ دے گا.
پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار قاسم کے ساتھ مرکزاطلاعات فلسطین کی ہونے والی والی گفتگو اردو قارئین کے پیش خدمت ہے.
مرکزاطلاعات فلسطین:تیونس اور مصر میں آنے والے عوامی انقلابات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
یہ تو بہت پہلے ہی دیکھا جا رہا تھا کہ مصر اور تیونس سمیت بعض دیگرملکوں میں ایک ظالمانہ اور استبدادی نظام ہے، جہاں دوسروں کے حقوق مارے جاتے اور قومی دولت لوٹی جاتی ہے.عوام کی مرضی کےخلاف اسرائیل جیسے دشمن اور امریکا جیسے منافق ممالک کے ساتھ تعلقات رکھے جاتے تھے.عوام ان حالات سے بہت تنگ تھے اور ایسے لگ رہا تھا کہ جلد یا بدیر عرب ممالک ایک خطرناک خونی انقلاب سے گذرے گا.
مرکزاطلاعات فلسطین:. عرب ممالک میں آنے والے انقلا بات کو ملکوں کی داخلی صورت حال سے مربوط کیا جاتا ہے.آپ کے خیال میں کیا اس کے کوئی خارجی عوامل بھی ہوسکتے ہیں؟
پروفیسر قاسم:..عرب ممالک میں آنے والے عوامی انقلابات کے داخلی اور خارجی دونوں طرح کے عوامل ہیں. داخلی عوامل میں بھوک افلاس، غربت، استبدادی نظام اور انسانیت کی توہین و تذلیل جیسے اسباب کافرما تھے. اس کا ادراک خود ان ممالک کی حکومتوں کو بھی تھا اور میرا خیال ہے وقتا فوقتا ان ملکوں کے انٹیلی جنس ادارے اپنے حکومتوں کو ان عوام کے خطرناک نتائج سے آگاہ بھی کرتے رہے ہیں.
عرب ممالک میں تبدیلی کا ایک بیرونی محرک بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا.خارجی عوامل میں اہم ترین عنصر عرب ممالک کے عوام کا یہ احساس کہ وہ کئی ایک معرکوں میں مغرب سے شکست خوردہ ہیں. سماجی ، سیاسی اور ثقافی میدان میں مغرب ان پراپنا نظام مسلط کر رہا ہے. چنانچہ اندر ہی اندر عرب ممالک کے عوام میں یہ چنگاری موجود تھی کہ وہ مغرب، امریکا اور اسرائیل کی تہذیبی اور عسکری و سیاسی بالادستی کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں.چنانچہ عرب حکومتوں بالخصوص امریکا اور اسرائیل کی ہمنوا حکومتوں کے خلاف یہ عوامی آتش فشاں اندر ہی اندر دہک رہا تھا.
مرکزاطلاعات فلسطین:. کیا عرب ممالک میں آنے والا انقلاب اس امر کا ثبو ت نہیں کہ امریکا اور مغرب نے اپنے حامی حکمرانوں کی پشت پناہی ترک کر دی ہے؟
پروفیسر قاسم:.امریکا اور مغرب کسی صورت میں بھی نہیں چاہیں گے کہ عرب ممالک میں ان کی حمایت یافتہ حکمرانوں کو کوئی نقصان پہنچے. ہاں البتہ امریکا اور یورپ کو ایرانی انقلاب کے دوران اپنی اس غلطی کا پورا ادراک ہے کہ وہ عوامی انقلابات میں عوام کا ساتھ نہ دے کرخطے میں اپنے لیے کانٹوں کی فصل نہیں بونا چاہتے. سنہ 1979ء کے ایرانی انقلاب میں امریکا نے شاہ ایران کی حمایت کی حالانکہ ایرانی عوام امام خمینی کو اپنا قائد تسلیم کرنے لیے انقلاب کی راہ پر تھے.یہی وجہ ہے ایرانی آج بھی جب شاہ ایران مردہ باد با نعرہ لگاتے ہیں اس کےساتھ”مرگ برامریکا” کا نعرہ بھی ان کی زبان پر ہوتا ہے.یہی وہ امریکی غلطی ہے جس کی ایران میں آج تک اسے سزا مل رہی ہے. اس غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے امریکا اور مغرب نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ وہ اپنے دوست حکمرانوں کے بجائے عوام کی حمایت میں کھڑا ہو گا تا کہ کل کو مابعد انقلاب نئی بننے والی حکومت کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں.
امریکا اور مغرب کی جانب سے عرب ممالک میں آئے انقلاب کی حمایت صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کی جا رہی ہے. امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی حمایت میں ان ملکوں میں عوامی احتجاج کی حمایت کررہے ہیں. حالانکہ وہ صرف اپنی مفادات کے لیے ایسا کر رہے ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ عرب ممالک میں آنے والاانقلاب اسرائیل، امریکا یا مغرب کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ کسی حد تک یہ انقلابات مغربی مفادات کو نقصان پہنچائیں گے.
مرکزاطلاعات فلسطین:.. کیاعرب ملکوں میں آنے والا انقلاب فلسطینی اتھارٹی کو بھی متاثر کرے گا؟
مرکز اطلاعات فلسطین:.مصری انقلاب کے فلسطینی اتھارٹی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کیا صدر محمود عباس کو اس کا اندازہ ہے؟
پروفیسر قاسم:. فلسطینی اتھارٹی یا صدرعباس کی انتظامیہ پر اگراسرائیل کا”دست شفقت”ہے تو اسی طرح فتح اتھارٹی کو سابق مصری صدرحسنی مبارک کی بھی کھلی حمایت حاصل تھی. اب چونکہ حسنی مبارک اقتدار میں نہیں رہے ، مصر میں آنے والے انقلاب نے فلسطینی اتھارٹی کو بہت مایوس کیا ہے.
موجودہ حالات میں محمود عباس اور ان کی انتظامیہ کا خیال ہے کہ انہیں عربوں سے زیادہ اسرائیل کی حمایت درکار ہےکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عرب ممالک میں سیاسی بے چینی پائی جا رہی ہے. جب تک یہ سیاسی بے چینی موجود ہے فلسطینی اتھارٹی کے لیے اس میں کوئی بھلائی نہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:. موجودہ انتشار کی کیفیت میں آپ سلام فیاض اور اتھارٹی کی جانب سے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے اعلان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر قاسم:. میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینی اتھارٹی اور سلام فیاض گروپ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے.انہیں عرب ممالک میں آنے والی تبدیلیوں سے اندازہ ہو گیا ہے کہ بہت جلد ان کےخلاف بھی فلسطین میں ایک نئی انقلابی مہم شرو ع کی جا سکتی ہے. اگرایسا ہو گیا تو فتح اتھارٹی کا انجام مصر میں حسنی مبارک جیسا ہو گا.
خطے میں سیاسی منظرنامے کے بدلنے کے ساتھ ہی فتح اتھارٹی اور سلام فیاض نے دو اقدامات اٹھائے ہیں. ایک توفتح کی سلام فیاض کی سربراہی میں حکومت تحلیل کر دی .دوسرا اس سال صدارتی ، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کا اعلان کردیا.
میرے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کا اس سال انتخابات کا اعلان تب ہی مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے جب فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابات کےحوالے سے یکجہتی ہو. جو کہ اس وقت نہیں. اس مقصد کے لیے فلسطینی انتظامیہ کو اسرائیل کے ساتھ کیے گئے سیکیورٹی تعاون کے تمام معاہدے منسوخ کرنا ہوں گے.
حماس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے زیرحراست تمام ارکان کو رہا کرنا ہو گا اور ایسی فضا تیار کرنا ہوگی جو فلسطینی عوام کو یہ پیغام دے کہ انتخابات کے حوالے سے تمام جماعتوں میں اتفاق رائے موجود ہے.
مرکزاطلاعات فلسطین:.فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے خلاف خفیہ مذاکرات کے دوران صہیونی ریاست کو دی جانے والی رعایتوں کے بارے میں الجزیرہ کے انکشافات کے بعد یہ کہا جا رہا تھا کہ اب انقلاب فلسطینی اتھارٹی کےخلاف آنے والا ہے لیکن انقلاب کا رخ تیونس اور مصر کی جانب مڑ گیا.اتھارٹی یہ الزام عائد کرتی ہے کہ الجزیرہ ٹی وی نے اس کےخلاف عوام کو اکسانے کی ناکام سازش کی ہے. آپ اس ساری صورت حال پر کیا کہیں گے؟
پروفیسر قاسم:. قطر کے الجزیرہ ٹی وی کی انتظامیہ پریہ الزام کہ اس نے فلسطینی عوام کو محمود عباس اور ان کی جماعت کےخلاف اکسانے کی کوشش کی ہے، قطعی بے بنیاد ہے. میڈیا کا اپنا ایک کردار ہے . چاہے الجزیرہ ہو یا کوئی بھی دوسرا ٹی وی چینل.کسی بھی قسم کی خبر نشرکرنا اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے. الجزیرہ نے بھی وہ دستاویزات نشر کی ہیں جو اس کے ہاتھ لگیں.
میرے خیال میں فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے خفیہ مذاکرات میں صہیونی ریاست کو رعایتیں دینے کی یقین دہانی کراکے اپنا بڑا نقصان کیا ہے.فلسطینی اتھارٹی میں کرپشن کی کہانیاں پہلے ہی عروج پرتھیں اوراب فلسطینی حکام کا ایک یہ اسکینڈل بھی سامنے آ گیا ہے.
انقلابات سےکوئی تعلق نہیں. ان ملکوں میں جو تبدیلی آئی اس کے اسباب بھی انہی ملکوں میں موجود ہیں.
مرکزاطلاعات فلسطین:.فلسطینی عوام میں صدر محمود عباس کے استعفے کے لیے مطالبات میں شدت آتی جارہی ہے. آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آیا محمود عباس کےخلاف عوام انقلاب کا وقت آپہنچا ہے؟
پرفیسر قاسم:. اگرچہ مغربی کنارے میں صدر محمودعباس کے حق میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب غیر حقیقی مظاہرے تھے.جب آپ اسکولوں کے طلباء اور سرکاری ملازمین کو اپنے حق میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر لائیں تواس کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ پوری عوام آپ کے ساتھ ہے. بلکہ ایسا تب ہوتا ہے جب عوام کی حمایت ختم ہوجاتی ہے اور نمائش کے لیے سرکاری ملازمین کو مظاہروں میں لایا جاتا ہے.
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ فلسطینی اتھارٹی کو صرف امریکا اور اسرائیل کی آشیر باد حاصل ہے جب اسرائیل نے فلسطینی صدر کی حمایت ترک کردی تو ان کی انتظامیہ دس روز بھی نہیں چلے گی.
مرکزاطلاعات فلسطین:.خفیہ دستاویزات کی اشاعت پر الجزیرہ ٹی وی کےخلاف فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے شر انگیز مہم چلائی گئی.یہ مہم مصراور تیونس میں بھی چلائی گئی اور یہ کہا گیا کہ ان ممالک میں حکومتوں کے خلاف عوام کو اٹھانے میں الجزیرہ نے اہم کردار ادا کیا.آپ کے خلاف میں میڈیا کےخلاف یہ شرانگیز مہم نقصان دہ نہیں؟
پروفیسر قاسم:.. الجزیرہ ٹی وی کا صرف اتنا قصور ہے کہ اس نے عرب ممالک کے حکمرانوں کو ان آئینہ دکھایا ہے.اس کے ساتھ عرب عوام کو ایک حقیقت سے روشناس کیا.جب تک الجزیرہ جیسے آزاد ٹی وی چینل نہ تھے تب تک عرب ممالک میں سرکاری ٹی وی چینلوں کی اجارہ داری تھی اور عوام کو حقیقی صورت حال کا علم نہیں ہوپاتا تھا. لیکن الجزیرہ کے آنے اور کئی دیگرٹی وی چینلوں اور اخبارات کے آزادانہ اجراء نے عرب اقوام کو بیدار کر دیا .
چونکہ عرب ممالک بالخصوص تیونس اور مصرکی سابق حکمرانوں کی جانب سے الجزیرہ کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ الجزیرہ ٹی وی کے پورے جزیرة العرب اور عالم اسلام میں ناظرین موجود تھے.عرب ممالک کے حکمرانوں کو غصہ اس بات کا ہے کہ الجزیرہ نے ان کے جرائم کو بے نقاب کیوں کر دیا.
مرکز اطلاعات فلسطین:. حماس کی جانب سے فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششیں تیز کرنے کی اطلاعات آ رہی ہیں. آپ کے خیال میں مفاہمتی کوششوں کی کامیابی کے کس حد تک امکانات ہیں؟
پروفیسر قاسم:. حماس کی جانب سے مفاہمانہ مساعی قابل ستائش ہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی سیاسی جماعتیں کو ئی ایک راستہ منتخب کریں اور سب مل کر اس پرچلیں. اپنی اپنی پگڈنڈیوں کے بجائے ایک شاہرہ اپنائیں اور اس پر سفر شروع کریں. اس سفرکا آغاز اوسلو معاہدے کی تنسیخ سے ہونا چاہیے. اس کے بعد ملک میں موجود تمام حکومتی سسٹم ختم کردیے جائیں. ٹیکنوکریٹ اورغیر سیاسی قومی شخصیات پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دی جائے. وہ غیر منتخب انتظامیہ کسی سیاسی یا مزاحمتی تنظیم کی مداخلت کے بغیر اپنی مرضی سے تنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل نو کرے. اس کے بعد ملک میں انتخابات کرائے جائیں اور جو جماعت اسرائیل کےخلاف مسلح جدو جہد کرنا چاہیے اس کے لیے راستے کھلے چھوڑے جائیں.
مرکزاطلاعات فلسطین:اسرائیل اور امریکا کی گود میں بیٹھی فلسطینی اتھارٹی کے نام کوئی اہم پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
پروفیسرقاسم:. میں فلسطینی اتھارٹی سے صرف اتنا کہوں گا کہ "اب بس، بہت ہو چکا”. تئیس سال سے مسلسل ہم اسرائیل اور امریکا کی طفل تسلیوں میں چلے آ رہے ہیں. میں فلسطینی اتھارٹی سے یہ کھل کر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہ فلسطینیوں کو آزاد ریاست کی منزل تک پہنچانے والا نہیں.