پنج شنبه 01/می/2025

مغربی کنارے میں نیا انتفاضہ زیادہ دور نہیں: شیخ صالح العاروری

پیر 31-جنوری-2011

اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے سیاسی شعبے کے رکن شیخ صالح عاروری کا کہنا ہے کہ فلسطینی مفاہمت کی کوششیں اور مذاکرات منجمد ہیں۔ حماس وہ جماعت ہے جس نے مفاہمت کے لیے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ اس ضمن میں اس کی تمام کوششیں انتہائی سنجیدہ نوعیت کی تھیں۔
 
انہوں نے عباس ملیشیا کی جانب سے عقوبت خانوں میں موجود قیدیوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ حماس میں امور اسیران کے ذمہ دار عاروری نے’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطینی جماعتوں کے اتحاد کے شدید خواہش مند ہیں بلکہ ہم نے مفاہمت کے آغاز میں پہل کی تھی لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس نیک مقصد کی آڑ میں ہم سے کوئی اس بات کی توقع نہ کرے کہ ہم اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کی تکالیف اور مصائب کو بھول جائیں گے اور بے سود قسم کی مذاکرات کی دوڑ میں شریک رہیں گے۔ ہم ’’فتح‘‘ کے ساتھ حالات میں تبدیلی کے بغیر دوبارہ کسی مصالحتی گفتگو کے حق میں نہیں ہیں۔ انٹرویو میں شیخ عاروری نے مغربی کنارے کے مستقبل کے حالات، حماس اور اس کے فتح کے ساتھ تعلقات پر کھل کر بات کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں سہنے والے فلسطینی اسیران کے متعلق بھی گفتگو کی۔
 
فلسطینی مفاہمت کے  بارے میں فلسطینی قوم کو بہت امید پیدا ہوگئی تھی مگر پھر انہوں نے دیکھا کہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا اور بات اتنی بڑھی کہ عباس ملیشیا کی جیلوں میں حماس حامیوں نے بھوک ہڑتال کردی جس پر حماس نے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم کردیا، اس مسئلہ میں تازہ پیش رفت کیا ہے؟

معاملات تاحال منجمد ہیں، ہم اس ضمن میں کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ پر امید ہیں کیونکہ ہم پہلے بھی فلسطینی مفاہمت کے متعلق انتہائی سنجیدہ تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات موجود ہیں جن میں مفاہمت پر پیش  رفت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص جب انہوں نے اسرائیل سے مذاکرات معطل بھی کر دیے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اب وہ قومی وحدت اور داخلی مضبوطی کے لیے بھی اپنے دروازے کھولیں گے، اس سب کے باوجود حالیہ دنوں عباس حکومت کی جانب سے مغربی کنارے میں گرفتاریوں اور اسیران پر تشدد میں شدید اضافے سے معاملات خراب ہو گئے ہیں جو  انتہائی افسوسناک  ہے۔

کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حماس اسیران کی بھوک ہڑتال کے خاتمے سے تک فتح سے معطل مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریگی یا وہ اپنی شرط کو قیدیوں کی تمام مشکلات کے خاتمے پر لاگو کرتی ہے؟

ہمارا موقف واضح ہے ہم مصالحت چاہتے ہیں اور ہم اس کی آغاز کار تھے تاہم اسی دوران کسی کو ہم سے یہ توقع بھی نہیں کرنا چاہیے کہ کسی بھی لایعنی مذاکرات کی خاطر ہم اپنے ساتھیوں اور بھائیوں کی تکالیف سے صرف نظر کر لیں گے۔ لہذا اس ابتر صورتحال میں جب تک حقیقی تبدیلی سامنے نہیں آتی مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی مجھے کوئی امید نہیں۔

کیا آپ نے اس ضمن میں فتح سے رابطہ کیا اگر ہاں تو اس کا کیا نتیجہ نکلا اور کیا حالات اب تک بند گلی میں کھڑے ہیں؟

گزشتہ عرصے میں فتح اور حماس کے مابین ملاقاتوں کے دوبارہ آغاز کے لیے رابطے ہوئے اور حماس نے فتح کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی مفاہمت کی کامیابی کے حالات پیدا کیے جائیں کیونکہ مغربی کنارے کی فضا انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ غیر معین وقت کے لیے معطل ہوچکا ہے۔

کیا فتح نے آپ کا جواب دیا یا آپ کے موقف پر کوئی اعتراض کیا؟
 
اس پر ان کا ردعمل میڈیا میں سامنے آ گیا ہے جس میں انہوں نے ہم پر الزام عائد کیا ہے کہ ہم بھوک ہڑتال کرنے والے اسیران کے معاملے کو مفاہمت سے بھاگنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
 
اس پر آپ کا کیا ردعمل ہو گا؟

 
مفاہمت اور اتحاد کی بات کرنے میں پہل ہم نے کی اسی لیے فلسطینی مفاہمت کے حقیقی روح رواں ہم ہیں، لہذا ہمارے لیے آپس میں اتحاد اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سوا کوئی راستہ بچتا ہی نہیں، ہمیں امریکا، اسرائیل یا کسی دوسرے کی پرواہ ہیں نہیں تو یہ بات بڑی غیر منطقی ہے کہ ہم فلسطینی اتحاد اور مفاہمت سے بھاگنے کے لیے راستے ڈھونڈیں گے۔
 
سوال یہ ہے کہ ہم مفاہمت کے خواہش مند نہ ہوتے تو پھر ہم نے اس کا آغاز کیوں کیا تھا۔ کیا اس وقت آپ کے پاس معاملات کو موخر کرنے کے سوا کوئی چارہ ہے؟

ہمارا مسلمہ اختیار فلسطینی قوم، فلسطینی وحدت اور مزاحمت اور کسی بھی سول جنگ سے بچنا ہے۔ اسی لیے مغربی کنارے میں ہم نے پہلے دن سے ہی کسی سول جنگ کو روکنے کے لیے قوم کی مسلمہ حقوق کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر ڈال لی جس کی ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑی ہے کیونکہ دوسری جانب والے کسی طرح کی ذمہ داری لینے کی تیار نہیں۔
 
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم بھوک ہڑتال کرنے والوں کے معاملے کو ایک طرف رکھ دیں؟
 
ہمارے بھائی ہڑتال ختم نہیں کریں گے، جنیوا کنونشن کے مطابق بھوک ہڑتال کرنے والے کی تعریف یہ ہے جو کھانا  یا پینا چھوڑ دیں اور صرف پینے کے چیزیں استعمال کرتے رہیں۔ ان کی بھوک ہڑتال کا مقصد ہے کہ ان کے معاملات پر از سر نو غور کیا جائے اور رام اللہ کی عدالتوں کی جانب سے ان کی رہائی کے احکامات پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔ ہم ان کے اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔
 
یہ واضح ہے کہ عباس ملیشیا اپنے موقف پر قائم رہے گی تو پھر آپ اس موضوع کو کیسے حل کریں گے جبکہ آپ پہلے ان قیدیوں کو اسیران کے تبادلے کے ضمن میں شامل کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ اب آپ کی قابل عمل پیش کش کیا ہوگی؟

عباس حکومت کی جیلوں میں موجود ہمارے بھائیوں کو بھوک ہڑتال کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم ان کے اس حق کی تائید اور نصرت کرنے والے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدیوں کی اس تحریک کی مزید حمایت اور مدد کی جائے تاکہ ان کی جدوجہد بار آور ہو۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فتح میں اسی کی حکومت کی عدالتوں کی جانب سے ان قیدیوں کو رہا کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کی ذمہ داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اس نے ہمارے لیے ان قیدیوں کو اسیران کے تبادلے کے ضمن ڈالنے کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔

کیا یہ صرف ایک اشارہ ہے یا عملی طور پر آپ یہ تجویز دے رہے ہیں؟
 
میں انہیں یہ پیغام دے رہا ہوں کہ دروازوں کو بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کیا چیز ہے جس کے سبب انہوں نے ان قیدیوں کو بغیر کسی ٹرائل کے قید رکھا ہے اور وہ ایسا کب کرتے رہیں گے۔ یہ وہ مظالم ہیں جس کی بنا پر دیگر اسیران بھی بھوک ہڑتال پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ 

کیا آپ کے خیال میں حماس قیدیوں کے معاملے میں فتح کے ساتھ معاملات حل کرلے گی؟
 
ہم شروع سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حماس کی جیلوں میں کوئی شخص سیاسی بنیادوں پر قید نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس ضمن میں مختلف فلسطینی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو اسیران کے معاملات طے کرے۔ 

کیا عباس ملیشیا کی جیلوں میں حماس کے قیدیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں آپ کے پاس کوئی معلومات ہے؟  

عباس حکومت کے عقوبت خانوں میں سیاسی اختلافات کی پاداش میں گرفتار کیے گئے افراد کی حتمی تعداد اس لیے بتانا ممکن نہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ان جیلوں میں سیکڑوں افراد انتہائی مشکل حالات میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ 

عباس ملیشیا کی جانب سے حماس کے اغوا کیے گئے افراد کی ملک بدری کی دھمکیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

  ہم ان کی ان دھمکیوں کو انتہائی مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ایسا کر سکیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی نے اغوا کیے گئے افراد کو ملک بدر کرنے کی بے پناہ کوشش کی ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ 

شیخ صالح عاروری مغربی کنارے میں حماس کے حالات کیسے دیکھ رہے ہیں؟

مغربی کنارے میں حماس کوئی بیرونی تنظیم نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے میں پیوستہ ہیں اس لیے کسی طاقت کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حماس کو یہاں سے نکال سکے۔ حماس کی رسوخ مغربی کنارے میں بڑھتا جا رہا ہے اگر یہاں پر انتخابات کرائے جائیں تو حماس پچھلے تمام انتخابات سے زیادہ اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہوجائے گی۔ گزشتہ سالوں میں یہاں اسرائیلی اور فلسطینی اتھارٹی کی ظالمانہ پالیسیوں سے حماس کی مزاحمتی قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران کے لیے حماس کیا کہے گی، اس ضمن میں آپ عرب اور اسلامی دنیا کو کیا پیغام دیں گے؟

اسرائیلی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی اسیران کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ قیدی دسیوں سال سے اسرائیلی جیلوں میں انتہائی نامساعد حالات میں ہیں۔ یہ قیدی کئی دہائیوں سے آزادی کے حق سے محروم ہیں جن کی آزادی دلانے کی ذمہ داری ساری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے لہذا ساری اسلامی دنیا کو کو ان قیدیوں کی رہائی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہونگے۔

مختصر لنک:

کاپی