فلسطینی ہر سال بیس نومبر کو اعلائے کلمۃ اللہ اور مقدس فلسطین کی حفاظت کی خاطر برطانوی مینڈیٹ اور صہیونی لٹیروں کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے شہید عز الدین القسام کی برسی مناتے ہیں، 20 نومبر 1935ء کو شہادت پانے والے عزم و ہمت کی چٹان شیخ القسام وہی دلیر مجاہد ہیں جن کے نام سے حماس کے عسکری ونگ ’’القسام بریگیڈ‘‘ اور اس کے تیار کردہ ’’القسام میزائل‘‘ کو منسوب کیا گیا ہے۔
شیخ محمد عز الدین القسام نے نومبر 1882ء کو شام میں آنکھ کھولی۔ 20 کی دہائی میں شام میں فرانسیسی تسلط کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے بعد شیخ القسام نے 30 کی دہائی میں فلسطین میں برطانونی مینڈیٹ کو چیلنج کیا اور سنہ 1930ء میں برطانوی تسلط اور یہودی آبادکاروں کے خلاف پہلی مرتبہ مسلح کارروائیوں کے لیے ’’الکف الاسود‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کی کارروائیاں ان کی شہادت تک جاری رہیں۔
کیا حماس اور اس کا عسکری ونگ آج بھی شیخ المجاہدین کی نقش قدم پر قائم ہے؟ شیخ القسام کی زندگی کے نمایاں تاریخی کارنامے کیا ہیں؟ کیا مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ میں عزالدین شہید نے کوئی انفرادیت قائم کی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب اس رپورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اس ضمن میں ماہر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ھانی بسوس کا کہنا ہے کہ شیخ المجاہد عز الدین القسام کا بنیادی ہدف فلسطینی معاشرے میں جہاد اور مزاحمت کی روح پھونکنا تھا اور برطانوی مینڈیٹ اور غاصب یہودی گینگز کی لوٹ مار سے فلسطین کے تحفظ کے لیے فلسطینیوں کو اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دینا تھا، وہ فلسطینی قوم کے زیادہ سے زیادہ افراد کو اس مقصد کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر البسوس نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو دیے گئے اپنے خصوصی بیان میں بتایا کہ شہید القسام کو جب معلوم ہوا کہ یہودی برطانیہ کے تعاون سے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فلسطینی نوجوانوں کی دینی و روحانی تربیت کرنا شروع کر دی اور فلسطین پر برطانوی مینڈیٹ اور یہاں یہودیوں کی آمد کے خلاف مزاحمت اور جنگ کے لیے مسلح جہادی دستے تیار کرنا شروع کردیے ان کی یہ جدو جہد دسیوں سال جاری رہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شیخ القسام نے اس سارے عرصے میں فلسطین میں مجاہدین کے لیے عرب رہنماؤں کا تعاون حاصل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی مگراس سلسلے میں انہیں بہت کم مدد ہی مل سکی جس کی وجہ کمزور ایمان کے سبب عرب رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ فلسطین کی آزادی کا واحد رستہ یہودی ریاست کو تسلیم کرکے فلسطین میں دو ریاستوں کا قیام ہے۔ القسام نے یہوی ریاست کے قیام کی تجویز کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمتی گروہ کی داغ بیل ڈالی اسی جہادی اور مزاحمتی گروہ کی توسیع میں آج القسام بریگیڈ اسرائیلیوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اس طرح القسام بریگیڈ کے حقیقی بانی شیخ القسام ہی ہیں۔
شیخ القسام نے مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ میں ایک انفرادیت کیسے قائم کی؟ اس پر ڈاکٹر البسوس نے بتایا کہ ’’شیخ القسام نے فلسطینی معاشرے میں دو بارہ دینی روح پھونک دی، انہوں نے مسئلہ فلسطین کو ایک نیا سیاسی رخ دیا جس سے یہ معاملہ دنیا کے سامنے ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آیا، انہوں نے اسرائیل کو پیغام دیا کہ فلسطین کے اسلامی جہادی دستے صہیونی دشمن کے منصوبوں کے سامنے نہ صرف سیسہ پلائی دیوار ہیں بلکہ وہ اسرائیلیوں کو ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے اسرائیل کو پچھلے کئی معرکوں میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے جس میں مٹھی بھر مجاہدین نے اس کی جھوٹی شان و شوکت ملیامیٹ کر دی تھی۔
ڈاکٹر البسوس کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد اس کی پہلی فوج کی بانی بھی شیخ القسام ہی ہونگے کیونکہ یہ وہ دلیر مجاہد ہیں جنہوں نے فلسطین اور اسکی قوم کے دفاع کی بنیاد رکھی۔
حماس شیخ القسام کے نہج پر کہیں حماس نے سیاسی اکھاڑے میں چھلانگ لگا کر شیخ عز الدین القسام کے نہج اور اصولوں سے بغاوت تو نہیں کردی؟ البسوس کے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا، ڈاکٹر البسوس کے مطابق حماس نے سیاسی اور جہادی کارروائیوں میں توازن قائم رکھا ہے اور اس کی سیاست بھی جہادی کارروائیوں کے لیے معاون بنتی ہے۔ کیونکہ عسکری کارروائی ایک فن ہے جیسا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے دعوت اسلام پھیلانے اور ہر سطح پر تعلقات قائم رکھنے کے لیے یہ اسلوب اور طریقہ اختیار کیا تھا۔ حماس نے بھی ایک معتدل اور درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے فوجی کارروائیوں اور سفارتی تعلقات کو ملایا ہے جس سے بلاشبہ کسی ایک جانب کو اختیار کرنے سے زیادہ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے معروف رہنما مشیر المصری نے کہا کہ شیخ القسام سرزمین فلسطین پر اپنی نوعیت کا منفرد جہادی نمونہ قائم کیا ہے، انہوں نے مسئلہ فلسطین کا گہرائی سے جائزہ لیا، وہ شام سے جہاد کے لیے فلسطین آئے اور یہاں انہوں نے برطانوی تسلظ اور یہودی گروپوں کو للکارا انہوں نے ہمیشہ اس معاملے کی مرکزیت پر زور دیا۔
مسٹر المصری نے شیخ القسام کی جدوجہد پر ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو میں کہا حماس نے اپنے عسکری ونگ کا نام القسام، شیخ القسام کی فلسطینی جہاد میں عظیم کردار کو سامنے رکھتے ہوئے ہی رکھا ہے، تاکہ یہ بریگیڈ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور اس کے گرد بابرکت القدس کی سرزمین کو شیخ المجاہدین کی خواہشات کے مطابق یہودی ریشہ دوانیوں سے آزاد کروا سکے۔ یہ ہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے لیے شیخ اور ان کے رفقاء نے جنین اور نابلس کے درمیان یعبد کی ایک غار میں برطانوی پولیس سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شیخ القسام کی شہادت کی یاد میں میں آج ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ یہ ان کا شروع کیا ہوا مزاحمت اور جہاد کا راستہ ہی تھا جس پر چل کر حماس نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا اور اسے اپنے اسٹریٹجی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔ وہ یہودی جو کل مصر کے دریائے نیل سے عراق کے دریائے فرات تک یہودی سلطنت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے غزہ سے پسپائی اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاد کے رستے کی بدولت صہیونی دشمن کو غزہ سے بھگانے کی بدولت آج حماس نے اللہ کے حکم سے فلسطین کی آزادی کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ حماس آج اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ وہ عزالدین القسام کے جہادی و مزاحمتی رستے پر چلتے ہوئے اللہ کے حکم سے فلسطین کو یہودیوں کے شکنجے سے آزاد کروائے گی۔
آج فلسطین امور کے تمام تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ حماس شیخ المجاہدین عزالدین القسام کے بتائے ہوئے راستے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی اور فلسطین کی آزادی کے لیے ان سے کیے گئے عہد پر قائم ہے، فلسطین کو دشمن اور اس کے حامیوں کے پنجوں سے آزادی دلانے تک حماس اسرائیل کے گلے کا کانٹا بنی رہے گی۔