رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فلسطینی بچوں کےخلاف قانونی کارروائی کے لیے عدالتوں سے فیصلے حاصل کر کے نئی پالیسی کے لئے جواز حاصل کیا ہے. رپورٹ کے مطابق یہودیوں کی گاڑیوں اور املاک پر سنگ باری کے الزام میں گرفتار بچوں کو اسرائیلی عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے گا جہاں عدالتیں یہ فیصلہ کریں گی کہ آیا کس بچے کوجرمانے، گھر میں نظربندی یا شہربدری کی سزا کا حکم دیا جائے.عدالتوں سے فیصلہ لینے کے بعد اسرائیلی حکام ان پرعمل درآمد کرتے ہیں.
اُدھر فلسطینی شہریوں نے اسرائیلی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نئی پالیسی کو”ظالمانہ” اور امتیازی سلوک کا مظہر قرار دیا ہے. نئی حکمت عملی کے بعد والدین اپنے بچوں کےمستقبل کےحوالے سے سخت پریشانی سے دوچار ہو گئے ہیں.
دو ہفتے کے لیے گھر میں نظربند کیے گئے 11 سالہ عمران محمد منصور کے والد نےایک عرب نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "انہیں اسرائیلی پولیس کی طرف سے بچے کو چودہ دن تک گھرمیں نظربند رکھنے پر شدید تشویش ہے، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ اسرائیلی عدالتیں اس بہانے کی آڑ میں میرے بچے کی نظربندی کی مدت میں اضافہ کرتی رہیں گی. اگرایسا ہوا تومیرے بچے کا مستقبل تباہ ہو جائے گا اوراسے تعلیم دلوانے کی ہماری تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی”.
عمران کے والد نے مزید کہا کہ جب تک میرا بچہ گھر میں نظربند ہے وہ اسکول جا سکتا، نہ ہی کسی دوسری ضرورت کے تحت گھر سے باہر قدم رکھ سکتا ہے. ہمیں ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ گھر سے باہر نہ نکل جائے. کیونکہ ایسا ہوا تو اسرائیلی پولیس اسے گرفتار کر کے نہ صرف جیل میں ڈالے گی بلکہ انہیں 7000 ڈالرز جرمانہ بھی ادا کرنا پڑ سکتا ہے.یہ ایک خطیر رقم ہے اور اس کی ادائیگی ان کے بس کی بات نہیں.
ایک دوسرے کم عمر فلسطینی لڑکے”ایاد غیث” کے چچا نے بتایا کہ بچے کا والد اسرائیلی جیل”مسکوبیہ” میں قید ہے. اسرائیلی جیل حکام نے اسے جیل میں دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو اپنے بچوں کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کریں ورنہ اس کا خمیازہ انہیں بھُگتا ہو گا.
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام رواں سال میں اب تک کم ازکم 300 فلسطینی بچوں کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں. انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اسرائیلی جیلوں میں بچوں پر ہونے والےمظالم اور بدسلوکی پر شدید تشویش کا اظہار کر چکی ہیں.
کم عمر فلسطینیوں کی سب سے زیادہ گرفتاریاں اکتوبر میں ہوئیں جس میں 160 بچوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا جب کی ایک بڑی تعداد کو گھروں میں نظربند کر کے ان کے والدین سے بھاری جرمانے بھی وصول کیے گئے ہیں. ان میں 10 سالہ ایاد غیاث اور 14 سالہ طلال یعقوب رجبی بھی شامل ہیں جنہیں نظربندی اور جرمانہ دونوں سزائیں دی گئی ہیں.
اسرائیلی جیل میں مقید فلسطینی مصطفیی رویضی کے ایک کم عمر بچے کو بھی اسرائیلی عدالت سے 20 دن نظربندی اور 2000 شیکل جرمانے کی سزا ہوئی ہے.شہربدری کی پالیسی اسرائیل کی طرف سے فلسطینی بچوں کےخلاف صرف نظربندی یا جرمانے کی حکمت عملی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ اس ظالمانہ اقدام میں بچوں کو بیت المقدس سے کئی کئی ماہ کے لیے شہربدر کرنے کا اقدام بھی شامل ہے. القدس کے کئی کم عمر بچوں کو نسلی دیوار سے باہر فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول علاقوں، شعفاط، الخلیل، رام اللہ اور دیگرمقامات کی طرف نکال کربھیجا گیا ہے.
شہری بدری کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں. ان میں تازہ مثال سامر فرحان اور صہیب رجبی کی ہے. سامرفرحان علی اور 16 سالہ صھیب رجبی کو سلوان سے نکال کر مقبوضہ مغربی کنارے کے "عناتا” بھیجا گیا ہے. رجبی کو شہر بدری کے ساتھ 1000 شیکل جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی ہے.ادھرمقبوضہ بیت المقدس میں "سلوان انفارمیشن سینٹر” کے چیئرمین جواد صیام نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی طرف فلسطینیوں کے بچوں کے بارے میں اختیارکردہ پالیسی سے متعلق انکے والدین کو آگاہ نہیں کیا گیا.کسی بھی بچے کی سزاسے متعلق تمام معاملات اسرائیلی پولیس اور عدالتوں کے مابین طے پاتے ہیں. بچوں اور ان کے والدین کو اس وقت بتایا جاتا ہے جب عدالت کی طرف سے انہیں سزا دی جا چکی ہوتی ہے.
جواد صیام کا کہنا تھا کہ فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی حکام کی یہ پالیسی صرف ان کی گھروں میں نظربندی یا شہربدری تک محدود نہیں بلکہ بچوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت ناخواندہ رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے. بچوں کو اسکولوں میں جانے سے روک دیا جاتا ہے اور مریض بچوں کو اسپتالوں میں جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی.