پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی جیل سے رہائی پانے والے فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن جمال نتشہ سے گفتگو

پیر 20-ستمبر-2010

فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور حال ہی میں اسرائیلی جیل سے طویل اسیری کے بعد رہائی پانے والے شیخ محمد جمال نتشہ نے صدر محمود عباس کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ راست مذاکرات شروع کرنے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو علم ہے کہ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اور ان سے فلسطینی عوام کو ان کے اساسی حقوق نہیں دلائے جا سکتے لیکن محمود عباس پھر بھی مذاکرات میں وقت ضائع کر رہے ہیں.

حال ہی میں انہوں نے صہیونی جیل سے رہائی کے بعد مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کی. انہوں نے فلسطینی سیاسی دھڑوں کے درمیان مفاہمت نہ ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا اورتمام جماعتوں پر زوردیا کہ وہ اختلافات سے بالا ترہو کر قومی خدمت اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے متحد ہو جائیں.

جیل میں اسیری کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا قیدیوں کے خلاف ایک بڑا ہتھیار قید تنہائی کی سزا ہے. قید تنہائی اسیروں کے لیے قبر کی مانند ہے. اسرائیل جسمانی اور نفسیاتی دباٶ بڑھانے اور تشدد کے لیے قید تنہائی کا طریقہ اختیار کرتا ہے.

شیخ جمال نتشہ سے ہونے والی تفصیلی گفتگوکا احوال درج ذیل ہے

مرکز اطلاعات فلسطین:..صہیونی جیل میں قید تنہائی کے دوران آپ نے کیا محسوس کیا اور تنہائی کی اسیری کے ایام کے بارے میں کس طرح کے احساسات اور جذبات رکھتے ہیں؟

شیخ جمال نتشہ:… میں نے ساڑھے آٹھ سال کی اسیری کے دوران کم ازکم چار سال تنہائی کی قید کاٹی اوریہ میری اسیری کے آخری چار سال تھے، اس دوران ایک لمحے کے لیے بھی کسی دوسرے قیدی کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہ تھی. اہل خانہ پر بھی ملاقات پر پابندی تھی اور کسی قسم کا کسی رابطہ رکھنا بھی ممنوع تھا. عملی طور پر یہ نفسیاتی نوعیت کی سخت ترین سزا ہے، اس میں کھانے پینے، بیٹھنے اور مطالعے سمیت تمام امور میں انسان ہر وقت تنہائی کا شکار رہتا ہے. اسرائیل بھی اس طرح کی سزاٶں کو سخت ترین سمجھتا ہے اور آخری حربے کے طور پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد کے لیے یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے.

قید تنہائی کے دوران صرف یہ نہیں کہ قیدی کو ایک کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے.تنہائی کے سزا کے لیے مخصوص قیدیوں کے لیے کوٹھڑیاں بھی الگ الگ مخصوص ہیں جو نہایت تنگ اور تاریک ہیں ، جن میں کوئی روشن دان اور کھڑکی تک نہیں ہوتی. نیز ان تنگ کمروں کے اندر بھی قیدیوں کو بیشتر ہاتھ پاٶں باندھ کر خالی فرش پر پھینک دیا جاتا ہے. بعض اوقات یہ سلسلہ چوبیس گھنٹے تک جاری رہتا ہے.

مرکز اطلاعات فلسطین:…آپ طویل مدت تک اسرائیل کی مختلف جیلوں میں منتقل کیے جاتے رہے. اس دوران آپ نے یقینا دیگر قیدیوں کے ساتھ بھی وقت گذارا ہو گا. بالخصوص تنہائی کا شکار قیدیوں کو کس طرح کے حالات کا سامنا تھا؟

شیخ جمال نتشہ:…. یہ درست ہے کہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ بیشتر قیدیوں کو ایک کوٹھڑی سے دوسری میں اورایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کرنے کا عمل ایک معمول رہا ہے. اس دوران ہمارے ساتھ قیدِ تنہائی میں کئی صہیونی قیدی بھی رہے. صہیونی قیدیوں کی بہبود کے لیے یہودیوں کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کام کرتی تھیں. تاہم فلسطینی قیدیوں کے حقوق پران کی طرف سے کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی. قیدیوں کے حقوق اور مسائل کے لیے ہم خود ہی کوششیں کرتے تھے. ہمارے ساتھ مجاھد اسیر برادر محمود عیسیٰ قیدیوں کے مسائل کے لیے سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرتے، گوکہ ان کی کوششوں کی وجہ سے بسا اوقات انہیں سخت ترین سزاٶں کا بھی سامنا کرنا پڑتا.

میں اس میں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ اسیری کے دوران میں ایسے خطرناک امراض کے شکار مریض اسیروں کے درمیان بھی رہا. ایسے مریض جن کے بارے میں ان کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق ان کی زندگی صرف ایک ہفتہ یا چند دن تک تھی. اتنی  حساس اور نازک حالت کے باوجود اسرائیلی جیل اہلکار انہیں نہ صرف رہا نہ کرتے تھے بلکہ ان کے علاج معالجے پربھی کوئی توجہ نہ دی جاتی تھی. اسی حالت میں رہتےہوئے وہ بالآخر اسیری کی حالت میں جام شہادت نوش کر جاتے. میری اسیری کے دوران ایسے کئی اسیر تھے جو علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث جان جان آفرین کے سپرد کر گئے. بعض قیدیوں کو جیلوں سے رہا تو کر دیا گیا تاہم علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث وہ  جاں بر نہ ہو سکے اور وفات پا گئے.

مرکز اطلاعات فلسطین:….. اسرائیل کا دعویٰ ہے اس نے قیدیوں کو فوجی جنگی قیدی گیلاد شالیت کے بدلے میں گرفتار کر رکھا ہے. بعض قیدیوں کی رہائی صرف گیلاد شالیت کی رہائی کے ساتھ مشروط ہے. ایسے میں قیدی کیا امید رکھتے ہیں؟.

شیخ جمال نشتہ:…  یہ صحیح ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید بہت سے قیدی اپنی رہائی کے حوالے سے گیلاد شالیت کی رہائی سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ گیلاد شالیت کو فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے جلد ازجلد رہا کر دینا چاہیے.تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گیلاد کی رہائی میں حماس نہیں خود اسرائیل رکاوٹ ہے. حماس کا موقف واضح ہے اور اس کی جانب سے قیدیوں کےتبادلے کے لیے ایک معقول فہرست بھی اسرائیل کو فراہم کی گئی ہے تاہم اسرائیل خود ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے. ایسی حالت میں فلسطینی عوام اوربین الاقوامی برادری کو بھی قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے. اسیری میں فلسطینی شہری ایک تکلیف دہ اور موت کی زندگی سے گذار رہے ہیں ان کی زندگی ان کی صرف جیلوں سے رہائی میں مضمر ہے. جتنا جلدی ممکن ہو اور جتنے قیدیوں کو رہا کرایا جا سکتا ہو کیا جانا چاہیے.

مرکز اطلاعات فلسطین:…. غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں طویل عرصے سے ایک تقسیم کی کیفیت ہے. مغربی کنارے میں مجلس قانون ساز کی کارروائی بھی معطل ہے. اس ساری صورت حال کو آپ کس نظرسے دیکھتے ہیں؟

شیخ جمال نشتہ:…. فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان موجود اختلافات اور مجلس قانون ساز کی کارروائی کی معطلی ایک نہایت افسوسناک صورت حال ہے. اگرچہ بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں باہمی اختلافات ہیں تاہم ان اختلافات کی نوعیت بالکل سطحی ہے .ایسے گہرے اختلافات نہیں جو دور نہ کیے جا سکتے ہوں. میں اس بات پریقین رکھتا ہوں کہ اگرتمام جماعتیں اپنی موقف میں معمولی سی لچک کا مظاہرہ کریں مفاہمت کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے. مصالحت کے سلسلے میں پانچ امور پر اختلاف ہے اور باقی نکات طے پا چکے ہیں تاہم ان پانچ پربھی اتفاق رائے کوئی مشکل نہیں.

باہمی اختلافات کی وجہ سے مجلس قانون ساز کی آئینی کارروائی بھی متاثر ہو رہی ہے.اس وقت فلسطینی عوام کے مفاد میں صرف یہ ہے کہ تمام جماعتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرقومی خدمت کے لیے متحد ہو جائیں اور مجلس قانون سازکو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں  ایک ساتھ چلائیں.

مرکز اطلاعات فلسطین:… فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کردیے ہیں. آپ اس کے  بارے میں کیا کہیں گے؟

شیخ جمال نشتہ:… فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا سُن کردکھ  ہوا، کیونکہ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس نے آج تک فلسطینی عوام کو کچھ نہیں دیا.بڑے بڑے مذاکرات کار بھی یہ کہتے ہیں کہ بات چیت بے سود ہے لیکن اس کے باوجود وہ مذاکرات برائے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوہے ہیں. دوسری جانب اسرائیل ہے . اس کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ نہ تو القدس کی تقسیم چاہتا ہے اور نہ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کو تسلیم کرے گا. بھلا جب یہ دونوں بنیادی حقوق نہ ملیں تو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان راست مذاکرات کس کام کے ہوئے.اس وقت فلسطینی عوام اپنے حقوق کے لیےصرف ایک ہی راستے سے کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہو سکتے اور وہ مزاحمت ، جہاد اور مسلح تحریک کا راستہ ہے.

مرکز اطلاعات فلسطین:…. اسرائیل کی جانب سے شہربدری کی دھمکیوں کا شکار القدس کے اراکین پارلیمان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

شیخ جمال نتشہ:… میری جانب سے اسرائیل کی دھمکیوں کے شکار فلسطینی اراکین قانون ساز کونسل کے لیے وہی پیغام ہے جو پوری فلسطینی قوم کی طرف سے ہے.وہ یہ کہ پوری فلسطینی قوم ان کے ساتھ ہے . میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل ایک سازش کے تحت القدس کے اراکین قانون ساز کونسل کو نشانہ بنا رہا ہے. اسرائیل کی اس سازش کے پس پردہ اس کی وہ ذہنیت کارفرما جس کے تحت وہ القدس کو فلسطینی باشندوں سے خالی کرنا چاہتا ہے. اس سازش کا آغاز وہ فلسطینی مجلس قانون ساز کے منتخب ارکان سے کرنا چاہتا ہے اور بعد ازاں وہ اس ذریعے سے القدس کے ہزاروں باشندوں کو اسی طرح کے کھوکھلے دعوٶں کی بنیاد پر شہر بدر کرنے کا راستہ اختیار کرے گا. فلسطین ہماری سرزمین ہے اورہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں گے رہیں گے.فلسطینی عوام متحد ہوں تو اسرائیل کی جرات نہیں کہ وہ القدس سے ان کے منتخب نمائندوں کو شہر بدر کر سکے.

مختصر لنک:

کاپی