ایک فلسطینی اسپیشلسٹ کی تیار کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل جن اشیا کے غزہ داخلے کی اجازت دے رہا ہے وہ غیر پیداواری اشیا ہیں اور صرف کھانے پینے کی اشیاء اور اشیائے صرف ہی غزہ لائی جاسکتی ہیں جن سے مزید کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جا سکتی۔
ورلڈ بنک کی فائننسنگ کے مدد سے کام کرنے والے فلسطینی تجارتی مرکز ’’پال ٹریڈ‘‘ کی جانب سے کراسنگز سے داخل ہونے والی اشیا پر نظر رکھنے کا پروجیکٹ شروع کیا گیا، جس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل سے گزر کر ان کراسنگز کے ذریعے غزہ داخل ہونے والی قابل صرف اشیا کل درآمدات کا 48 فیصد بنتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ لائی جانے والی اشیاء کا 14 فیصد انسانی ضروریات کی اشیا ہیں، 04 فیصد خام مال، 14 فیصد کھانے پینے کی اشیا اور بقیہ الیکٹریکل و دیگر اشیا ہیں، جبکہ اسرائیل کی جانب سے تعمیراتی سامان غزہ لانے کی اجازت نہیں ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ چار سال قبل غزہ کے اسرائیلی محاصرے سے قبل غزہ لائی جانے والی اشیا کا 03 فیصد تعمیراتی سامان، 03 فیصد گھریلو کھانے پینے کی اشیا، 07 فیصد غذائی اجناس، 03 فیصد انسانی ضروریات کی اشیا اور 13 فیصد خام مال تھا، اس کے علاوہ باقی اشیا الیکٹریل اور ٹیکنالوجی سے متعلق ہوتی تھیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سے ملحق غزہ کی سرحدوں پر قائم دوکراسنگز کرم ابوسالم اور منظار سے پچھلے دو ہفتوں کے دوران 2259 سامان سے لدے ٹرک غزہ داخل ہوئےہیں۔
اس طرح ایک ہفتہ میں غزہ آنے والے ٹرکوں کی اوسط تعداد 1130 بنتی ہے جبکہ محاصرے سے قبل یہ تعداد 2807 ٹرک فی ہفتہ تھی، جس کا مطلب ہے کہ محاصرے سے قبل درآمد کیے جانے والے سامان کے مقابلے میں اب صرف صرف 40 فیصد سامان غزہ لایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے جون 2007ء سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے جس کے بعد سے یہاں بسنے والے لگ بھگ پندرہ لاکھ فلسطینی انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔