عبرانی زبان میں شائع ہونے والے معروف اخبار ’’ھارٹز‘‘ کی یہودی صحافی خاتون عیمرا ھس نے اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر پتھر برسانے کے جھوٹے الزام میں صہیونی فوجیوں کی جانب ہر سال 700 فلسطینی بچوں کو گرفتار کر کے جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے اور جھوٹے ثبوت کی بنا پر انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوانے کا انکشاف کیا ہے۔
’’ھس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے متعدد بچوں کو ان کے سکولوں میں ان کی کلاسوں سے گرفتار کر لیا۔ ان بچوں پر پتھر برسانے کا الزام عائد کیا گیا اور عدالت میں پیش کر دیا گیا لیکن بعد میں جب ان بچوں کے وکیل نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بچوں کے خلاف پتھر برسانے کے الزامات کے لیے جھوٹی گواہی پیش کی جا رہی ہے تو عدالت سے مقدمہ ہی خارج کر لیا گیا۔
ھس نے کہا کہ بچوں کا یہ معاملہ دو سال سے اسرائیلی فوجی عدالت میں موجود تھا، صہیونی فوج نے مہاجرین کے کیمپوں سے فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا اور الزام لگایا کہ انہوں نے علاقے سے گزرتی فوجی گاڑیوں پر پتھر برسائے ہیں۔ فوج نے شروع میں دعوی کیا کہ انہوں نے بچوں کو رنگے ہاتھوں پتھر برساتے ہوئے گرفتار کیا ہے لیکن جب فلسطینی آگاہی کی کونسل کے وکیل محمود حسان نے ان سے سوالات کیے اور مزید ثبوت طلب کیے تو انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ان بچوں کو کسی گاڑی پر حملہ کرتے نہیں دیکھا۔
انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے یہ بچے کیمپ کے سامنے سکول کے مرکزی دروازے کے اندر سے سکول کی حدود سے اغوا کیے ہیں، عدالتی کارروائی کے درمیان جب وکیل نے یہ عندیہ دیا کہ وہ عنقریب عدالت میں بچوں کے اساتذہ کو بطور گواہ پیش کریں گے کہ ان بچوں کو کلاس رومز سے حراست میں لیا گیا ہے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ عدالت سے اس معاملے کو واپس لے لیا جائے گا، اس طرح ان بچوں کی رہائی ممکن ہوئی۔
’’ھس‘‘ کے مطابق یہ واقعہ ان کئی واقعات میں سے ایک ہے جو عسکری عدالتوں اور بالخصوص فلسطینی بچوں کے حق میں انتہائی مشکلات کو ظاہر کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے جس بنا پر ان بچوں کی گرفتاری کی حمایت کی تھی وہ جھوٹی تھی، اس ایک واقعے میں تو وکیل نے ان بچوں کا کیس بھرپور انداز میں لڑا اور حقیقت کا انکشاف ہو گیا لیکن دیگر کئی کیسز میںعدالتیں بچوں کو طالمانہ قید کی سزائیں سناتی رہیں۔ واضح رہے کہ صہیونی فوج کی جانب سے گرفتار کیے جانے والے بچوں کی تعداد 700 بچے سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔
ھس نے اپنی رپورٹ کے آخر میں بیان کیا ہے کہ ان بچوں میں سے 65 فیصد بچوں کو آدھی رات کے بعد گرفتار کیا گیا اور تشدد اور عذاب کے مختلف مراحل سے گزارا گیا، ان میں سے 97 فیصد بچوں نے کہا کہ ان کو لمبے عرصے تک ہتھکڑیاں باندھ کر رکھا گیا ہے۔ 92 فیصد نے طویل مدت تک آنکھوں پر پٹی کی شکایت کی، 69 فیصد نے اسرائیلی فوجیوں اور تفتیش کاروں کی جانب سے جسمانی تشدد کی شکایت کی، 50 فیصد نے گالی گلوچ اور توہین آمیز کلمات کے استعمال، 49 فیصد نے اقرار نہ کرنے کی صورت میں سخت ترین تشدد کی دھمکیوں اور 32 فیصد نے عبرانی زبان، جسے وہ سمجھتے بھی نہیں تھے، میں لکھے گئے اوراق پر دستخط کروانے کا گلہ کیا۔