دوشنبه 12/می/2025

67ء سے اب تک بیت المقدس کے 86 ہزار فلسطینی حق اقامت سے محروم

منگل 27-جولائی-2010

معاشرتی اور معاشی حقوق کے مرکز القدس کو موصول ہونے والے صہیونی سرکاری ڈیٹا کے مطابق سنہ 1967ء سے اب تک 43 سالوں میں اسرائیلی انتظامیہ نے بیت المقدس کے 86 ہزار فلسطینیوں کو حق اقامت سے محروم کیا ہے جبکہ دوسری جانب شہر کی خواتین سے شادی کرنے والے صرف چھ سو افراد کو بیت المقدس میں بسنے کی اجازت دی گئی۔

مرکز نے کہا ہے کہ بیت المقدس کے باسیوں کو القدس کی شناخت سے محروم کرنے اور انہیں شہر میں رہائش کے حق سے محروم کرنے کے متعلق یہ ڈیٹا تازہ ترین ہے۔ یہ اعداد و شمار دو ماہ قبل 2009 اور 2010 کی 06 جولائی تک حق اقامت سے محروم کیے جانے والے مقبوضہ بیت المقدس کے شہریوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پیش کیے گئے ہیں۔

صہیونی ڈیٹا کے مطابق صہیونی حکومت نے 2009ء میں 721 جبکہ اس سال 06 جولائی تک 108 شہریوں کو حق اقامت سے محروم کیا ہے۔ اس طرح ڈیڑھ سال میں 829 افراد بیت المقدس کی رہائش سے محروم کردیے گئے۔

تازہ ترین معلومات کے مطابق 1967ء سے لیکر 2010ء کی نصف جولائی تک 14371 فلسطینی خاندان شہر بدری کا شکار ہوئے جو 06 افراد فی خاندان کی اوسط سے 86226 افراد بنتےہیں۔ 2008ء میں سب سے زیادہ مقبوضہ بیت المقدس کے رہائشیوں کو القدس کی رہائش سے محروم کیا گیا۔

القدس سینٹر کی رپورٹ کے مطابق صہیونی وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ڈیڑھ سال میں صرف 95 بیت المقدس کے باسیوں کو شہر واپس آنے کی اجازت دی گئی، ان میں سے 49 شہری 2009ء جبکہ 46 افراد اس سال 06 جون تک القدس میں واپس آئے۔

یہ وہ شہری تھے جنہوں نے انفرادی حیثیت سے القدس لوٹنے کی درخواستیں دی گئی تھیں،جبکہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملنے کی درخواستوں کو دیکھا جائے تو 2009ء اور اس سال 15 جون تک کل 1099 ایسی درخواستیں جمع کروائی گئیں لیکن ان میں سے صرف 258 درخواستوں کو شرف قبولیت ملا، 236 پچھلے جبکہ 22 درخواستیں اس سال منظور کی گئیں، اس دوران 146 درخواستیں پچھلے سال جبکہ دو درخواستیں اس سال کے نصف تک رد کر دی گئیں، اسی طرح اس ڈیڑھ سال میں 64 درخواستوں کو موقوف کردیا گیا جن میں سے باون 2009ء اور بارہ اس سال جولائی کے پہلے نصف تک موقوف کی گئیں۔ 631 درخواستیں ایسی ہیں جن پر کارروائی اب بھی جاری ہے۔

دوسری جانب القدس سنٹر کے ڈائریکٹر زیاد حموری نے ان اعداد و شمار پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ القدس سے بیدخل کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کے قانونی شعبے کو روزانہ فلسطینیوں کی جانب سے شکایات موصول ہوتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی وزارت نے ان کا حق اقامت ختم کر دیا یا ایسا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے، اسی طرح شہریوں سے ان کے شناختی کارڈ ضبط کرلیے جاتے ہیں بالخصوص شہر سے باہر تعلیم یا نوکری کے لیے جانے والے طلبہ اور شہریوں کے شناختی کارڈ باہر جاتے ہوئے ضبط کر لیے جاتے ہیں، اس کے بعد صہیونی حکام ان کے شناختی کارڈز چھپا کر دعوی کرتے ہے کہ انہوں نے تو یہ فریضہ کسی کو سونپا ہی نہیں، اس طرح شناختی کارڈز ہولڈرز کو القدس کے داخلی دفاتر سے رجوع کرنے کے لیے کچھ وقت کے لیے شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔

حموری نے مقبوضہ بیت المقدس کے شہریوں کی شہربدری میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا بالخصوص القدس سے فلسطینی اراکین پارلیمان کی بیدخلی کے فیصلے اور دیگر کو ایسی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد شہر بدری کی صہیونی کارروائیوں میں تیزی آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ معاملہ صرف اراکین پارلیمان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ بیت المقدس کے تمام شہریوں تک پھیل جائے گا اس بات کی تصدیق صہیونی اعداد و شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق 2008ء میں 4672 فلسطینیوں کو شناخت کارڈز سے محروم کیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی