پنج شنبه 01/می/2025

شیخ رائد صلاح کی جہد مسلسل کے ماہ و سال

پیر 26-جولائی-2010

مقبوضہ فلسطین کے 1948ء کے علاقوں میں قائم اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ رائد صلاح صرف فلسطین ہی نہیں عالم اسلام کی ان ممتاز شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوںنے اپنی زندگی کا بیشترحصہ آزادی فلسطین اور قبلہ اول کے تحفظ کے لیے وقف کر رکھا ہے. فلسطینی آزادی کی تحریک اور مسجد اقصیٰ کا تحفظ  کوئی آسان کام نہیں. یہ کام بڑی قربانی کا متقاضی ہے. شیخ رائد صلاح ایسے ہی ایک عظیم مذہبی اور سیاسی روحانی راہنما ہیں جنہوں نےہر طرح کی قربانی دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا. بار بار گرفتار ہوئے. جیلیں کاٹیں ،وحشیانہ تشدد برداشت کیا. گھروں کی مسماری برداشت کی. اپنے عزیز قبلہ اول پر قربان کیے. یہودی آباد کاروں اور پولیس کے ہاتھوں حملوں میں زخمی ہوئے اور صہیونی انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے ان کی ٹارگٹ کلنگ  کی بھی متعدد مرتبہ منصوبہ بندی کی گئی.

جہد مسلسل کے اسی سلسلے کے تحت شیخ رائد صلاح ایک بار پھر پانچ ماہ کے لیے صیہونی عقوبت خانے "رملہ” منتقل کر دیے گئے ہیں. اتوارکے روز انہیں اسرائیلی فوج نے مقبوضہ فلسطین میں ان کے آبائی شہر”ام الفحم” میں ان کے گھرسے حراست میں لے کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے رملہ جیل لے جایا گیا.

شیخ رائد صلاح پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کے قریب ایک احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی تھی. اس مظاہرے کے دوران انہوں نے ایک پولیس افسر کو تھپڑ مار دیا تھا. اسرائیلی پولیس اہلکار کو تھپڑ کی سزا نو ماہ قید کی سزا سنائی تھی تاہم بعد ازاں ایک اپیلٹ کورٹ نے سزا میں تخفیف کرکے پانچ ماہ کردی تھی اور ان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا.

اتوار کے روز گرفتاری کے بعد جیل لائے جانے پرجیل کےمرکزی دروازے پر جمع صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رائد صلاح نے کہا کہ انہیں اپنی گرفتاری پر کوئی پریشانی نہیں. انہوں نے کہا کہ ان کی گرفتاری ایک پولیس اہلکار کو تھپڑ مارنے کی وجہ سے نہیں بلکہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہے. گرفتاریاں اور قید انہیں قبلہ اول اور بیت المقدس سے دستبردار نہیں کر سکتے.

 اس مختصر رپورٹ میں مرکز اطلاعات فلسطین کی طرف سے شیخ رائد صلاح کی زندگی کے حالات واقعات اور خدمات کا ایک جائزہ پیش  کیا جا رہا ہے.

تاریخ ولادت وابتدائی تعلیم

شیخ رائد صلاح سنہ  1958ء میں شمالی فلسطین کے شہر ام الفحم میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے. آپ کا خاندان ان خاندانوں میں شامل ہے جنہوں نے قیام اسرائیل کے دوران وہاں سے نکل مکانی کے بجائے وہیں رہنے پر ترجیح دی تھی. شیخ رائد صلاح نے ابتدائی تعلیم ام الفحم ہی کے اسکولوں سے حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مغربی کنارے میںالخلیل یونیورسٹی میں داخلہ لیا. جہاں سے انہوں نے اسلامی قانون میں گریجویشن کیا.

پہلی گرفتاری

طالب علمی ہی کے دور میں شیخ رائد صلاح  اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں میں شریک  ہوتے رہے تھے. 1981ء میں مقبوضہ فلسطین کی ایک کالعدم تنظیم” اسرة الجہاد” سے تعلق کے الزام میں انہیں حراست میں لیا گیا. یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی. طویل عرصےکی گرفتاری کےبعد انہیں رہا تو کر دیا گیا تاہم ان کے گھر سے نکلنے پر پابندی عاید کی گئی. پھر کچھ عرصہ بعد انہیں ام الفحم میں چلنے پھرنے کی اجازت ملی تاہم شہر سے باہر جانے پر پابندی برقرار رکھی گئی.

رہائی کے بعد شیخ رائد صلاح نے ابتداٰء میں ام الفحم میں تعلیم کےشعبے سے وابستگی اختیار کی . ان کی یہ تعلیمی سرگرمیاں آزادانہ تھیں، کیونکہ انہیں اسرائیلی حکومت نےسرکاری طور پرکام کرنے کے لیے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا.

سیاسی اور دعوتی سرگرمیوں کا آغاز

شیخ رائد صلاح ایک معلم کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ماہانہ میگزین سے بھی وابستہ ہوئے . انہوں نے ام لفحم سے شائع ہونے والے میگزین” الصراط” کی 1986ـ سے سنہ 1988ء تک ادارت کی ذمہ داریاں بھی انجام د یں.  سنہ 1989ء میں ام الفحم کے بلدیاتی  انتخابات میں تحریک اسلامی کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور 70 فیصد ووٹ لے کر ام الفحم بلدیہ  کے چیئرمین منتخب ہوئے. اس وقت ان کی عمر صرف 31 سال تھی. سنہ 1993ء میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات میں شریک ہوئے اور ایک بار پھر70 فیصد ووٹ لے کر بلدیہ کے چیئرمین بنے. یہ عجیب اتفاق ہے کہ 1998ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی انہوں نے ستر فیصد ووٹ حاصل کیے. اس کے علاوہ شیخ رائد صلاح قطر کی قائم کردہ مقامی روساء کی کمیٹی کے چیئرمین اور عرب کمیونٹی کی سپریم کونسل کے چیئرمین بھی رہے.

تحریک اسلامی کی سربراہی:

سنہ 1996ء شیخ رائد صلاح مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت تحریک اسلامی کے سربراہ منتخب کیے گئے. 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں وہ دوبارہ تحریک اسلامی کے امیر مقرر ہوئے اور تاحال وہ اس کے سربراہ ہیں. 2002ء تک مختلف ادوار میں شیخ رائد صلاح مسجد اقصیٰ کی تعمیر و مرمت کےذمہ دار ادارے اقصیٰ فاٶنڈیشن کے چیئرمین اور  ھیومن ایڈ فاٶنڈیشن کے بھی سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے. سنہ 2001ء میں انہوں نے ام الفحم کی بلدیہ کے میئر کے عہدے سےاستعفیٰ دے دیا اور اپنی ساری توجہ تحریک اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے پر مرکوز کر دی.

دفاع قبلہ اول کی جہدوجہد

تحریک اسلامی کے پلیٹ فارم سے شیخ رائد صلاح نے قبلہ اول کے دفاع کے لیے جد جہد تیز کر دی. اس سلسلے میں انہوں نے متعدد رفاہی ادارے بھی قائم کیے جن میں "مسلمات من اجل الاقصیٰ” بیت المقدس فی خطر” اور دیگر ادارے شامل ہیں. اس سےہٹ کر انہوں نے بیت المقدس کی اسلامی تاریخ پرایک دستاویزی فلم تیار کرائی. مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس سے متعلق قدیم مخطوطات اور کتب کی از سرنو تدوین اشاعت کا بھی اہتمام کیا اور تاریخی حیثیت رکھنے والی اہم دیگر چیزوں  کو محفوظ کیا گیا.

 اس کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کے اندر اور اس کے باہر کی دیوار کی تعمیر و مرمت کا کام بھی تیز کیا گیا.مسجد کے کئی تباہ حال حصوں کی تعمیر کے بعد انہیں مسجد کا حصہ بنایا گیا. اقصیٰ فاٶنڈیشن اینڈ ٹرسٹ کے نام سے قائم اقصیٰ فاٶنڈیشن کا شعبہ بھی شیخ رائد صلاح کی کاوشوں کا نتیجہ ہے. اس شعبے کے  قیام سے اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ اور اس کی بنیادوں میں کی جانے والی کھدائیوں اور دیگر سازشوں کو منظرعام پر لایا جا رہا ہے.
یہودیو ں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے مروانی مصلح  کے مقام پر کی جانے والی  کھدائیوں کا انکشاف بھی سب سے پہلے شیخ رائد صلاح نے کیا. انہوں نے پوری فلسطیی قوم کو مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کی طرف سے درپیش خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے بیدار اور خبردار کیا .

مقبوضہ فلسطین کے شہریوں کے حقوق کی جنگ

شیخ رائد صلاح نے خود کو صرف مسجد اقصیٰ کی بہبود اور تحفظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ مقبوضہ فلسطین کے 1948ء کے علاقوں میں موجود شہریوں کے مسائل اور ان کے حقوق کی بھی جنگ لڑتے رہے. سنہ 1998ء میں اسرائیلی پولیس اور فوج نے ام الفحم کے علاقے ‘الروحہ” پردھاوا بولا. اسرائیلی فوج اور پولیس اس علاقے کے مکینوں سے ان کی اراضی اور املاک چھین کر اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے. شیخ رائد صلاح نے”الروحة” کے شہریوں کے احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی. اسرائیلی پولیس نےمظاہرے میں شریک تقریباً 600 افراد کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا. ان پر لاٹھی چارج کیا گیا اور زہریلی گیس کے شیل بھی ان پر پھینکے تاہم شیخ رائد صلاح کی قیادت میں یہ احتجاجی مظاہرہ جاری رہا اور اسرائیلی پولیس کو منہ کی کھانی پڑی. شیخ رائد صلاح بھی اسرائیلی پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسوگیس کے استعمال سے زخمی ہوئے. اکتوبر2001ء کے اوائل میں جب فلسطین میں تحـریک انتفاضہ الاقصیٰ جاری تھی اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے شیخ رائد صلاح کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کرنے کی کوشش کی گئی تاہم یہ سازش ناکام ہو گئی البتہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ان کے سرمیں گولیاں لگیں جس سےوہ زخمی ہوئے.

صہیونی پروپیگنڈے کا سامنا

فلسطینی عوام کے حقوق اور مسجد اقصٰی کے تحفظ کی پاداش میں شیخ رائد صلاح کو اسرائیلی حکومتوں، صہیونی میڈیا اور انتہا پسند یہودی تنظیموں کی طرف سے اذیت ناک پروپیگنڈے کا سامنا رہا. صہیونی میڈیا اور اسرائیلی سیاسی  حلقے انہیں مسلسل” اسرائیل کے لیے سیکیورٹی رسک” قرار دینے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں. یہ صہیونی پروپیگنڈے ہی کا ایک حصہ ہے کہ انہیں اسرائیل کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں اور جامعات میں داخل ہونے اور لیکچر دینے کی اجازت نہیں دی گئی. اس کے علاوہ اسرائیل نے ان کے فلسطین سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے. حالانکہ ان کے پاس کئی دیگر عرب ممالک کی شہریت بھی موجود ہے، جہاں جانا ان کا بنیادی حق بھی ہے.

شیخ رائد صلاح کی زیرادارت شائع  ہونے والے ماہانہ میگزین”صوت الحق” پر بھی 2002ء میں سینسرشپ عائد کر کے اسے بند کر دیا گیا. اس کے علاوہ شیخ رائد صلاح کو جلسے جلوسوں میں شرکت سے روکنے کی بھی مسلسل کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم شیخ کی آواز کو اسرائیل تمام حربے استعمال کرنے کے باوجود دبانے میں ناکام رہا ہے. شیخ رائد صلاح نے بھی صہیونی میڈیا کی افترا پردازی کی کبھی پرواہ نہیں کی اور اسرائیل کی عائد تمام پابندیوں کو توڑ کر وہ اپنے  پروگرام کے مطابق جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کرتے رہے اور بیرون ملک بھی ان کا سفر جاری رہا. شیخ رائد صلاح پر ہمیشہ یہ الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کی حمایت کر رہے ہیں  جبکہ بعض انتہا پسند یہودیوں نے شیخ صلاح کو حماس کا ایجنٹ تک قرار دیا.

مسلسل گرفتاریاں اور قید

شیخ رائد صلاح کو اسرائیل کی طرف سے کئی بار گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا. 15 مئی 2003ء کو اسرائیلی فوج نے انہیں اس وقت گرفتار کیا جب ان کے والد مرض الموت میں تھے. ان کے ساتھ تحریک اسلامی کے مزید دو اور رہنماٶں کو بھی حراست میں لیا گیا. شیخ رائد صلاح اور ان کے ساتھیوں پر الزام تھا کہ وہ حماس سے فنڈز حاصل کر کے اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں. تقریبا دوسال تک شیخ رائد جیل میں رہے. ان پر حماس سے تعلق اور حماس کے ساتھ رقوم کے لین دین کے حوالےسے مقدمہ بھی چلایا گیا. تاہم عدالت میں اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے ان کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے. یوں 2005ء میں ان کی رہائی عمل میں آئی.ان کی اسیری کے دوران صہیونی میڈیا مسلسل ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا اور انہیں حماس کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا تاکہ عدالت سے اس بنیاد پر انہیں سزا دلوائی جا سکے.

غزہ کی معاشی ناکہ بندی اور شیخ رائد صلاح

حالیہ چند برسوں کے دوران شیخ رائد صلاح مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات کی مسلسل خطرے کی گھنٹیاں بجانے کے ساتھ ساتھ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں. مسجد اقصیٰ کے گرد یہودی عبادت گاہوں کی تعمیرات کے حالیہ صہیونی منصوبوں، زیرزمین کھدائیوں اور براہ راست مسجد اقصیٰ پر حملوں جیسے امور پر انہوں نے خصوصی توجہ دی. سب سے پہلے مسجد اقصیٰ کے گرد کھدائیوں کا بھی انکشاف شیخ  رائد صلاح نے کیا. انہی کوششوں کی وجہ سے اسرائیل کی طرف سے انہیں راہ ہٹانے کے لیے ان کے خلاف مختلف سازشیں تیار کی گئیں. حال ہی میں ایک سازش منظرعام پر آئی ہے . یہ سازش اسرائیل کے داخلی سلامتی سے متعلق خفیہ ادارے”الشاباک” نے تیار کی تھی. سازش میں ایک انتہا پسند یہودی کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ شیخ رائد صلاح کو قتل کر دے. اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے اسے رقم بھی ادا کی گئی تھی. تاہم صہیونی پولیس کے ہاتھوں یہودی کی گرفتاری نے شاباک کی سازش بے نقاب کر دی. اس سازش کے بے نقاب ہونے کے بعد شیخ رائد صلاح کی زندگی کو درپیش خطرات اور خدشات مزید تقویت پکڑ گئے ہیں.

غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے وہ عملی کوششوں میں بھی شریک ہوتے رہے. ڈیڑھ ماہ قبل ترکی سے غزہ آنے والے امدادی جہاز فریڈم فلوٹیلا میں چند دیگر فلسطینی شہریوں کی قیادت بھی شیخ رائدصلاح ہی کر رہے تھے. وہ فریڈم فلوٹیلا پر صہیونی فوج کی جارحیت کے عینی شاہد ہیں.

خلاصہ یہ ہے کہ شیخ رائد صلاح کی زندگی خدمت فلسطین اور خدمت مسجد اقصٰی سے عبارت ہے. جیلیں اور اسیری ان کی ان خدمات کو نہیں روک سکیں. وہ جب تک جیل سے باہر تھے سر اٹھا کر صہیونی جبر و تسلط کو للکارتے رہے اور اسی طمطراق کےساتھ انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا بھی پسند کیا. رملہ جیل کے مرکزی گیٹ پر جب ان کے چاروں طرف فوج اور پولیس کا حصار تھا، انہوں نے کھل کر اپنے موقف کا اظہا کیا. شیخ رائد صلاح نے کھلے الفاظ میں کہا کہ قابض اسرائیل مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے. ان کی گرفتاری پولیس کے ساتھ کسی تنازع کی وجہ نہیں بلکہ اسرائیل ان کی بیت المقدس کے حوالے سے حق کی آواز کو دبانا چاہتا ہے. جیل کی کوٹھری میں جانےسے قبل انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ اسرائیل خطے میں علاقائی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑی تویہ صرف خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ تیسری عالمی جنگ ہو گی جو پوری دنیا کو تباہ کر دے گی.

مختصر لنک:

کاپی