سه شنبه 13/می/2025

مشرق وسطیٰ کے مسئلے کےحل کے لیے ترکی کا نسخہ

جمعہ 23-جولائی-2010

ترکی سیاست خارجہ کے مسائل و مشکلات کو صفر کے درجے تک پہنچانے کی پالیسی کے دائرے میں ترکی وزیرخارجہ احمد داٶد اوگلو نے مشرق وسطیٰ کے مسائل کے حل کے لیے درج ذیل پانچ نکاتی پروگرام پیش کیا:
امن، آزادی میں توازن، آسان حدود،حادثوں کےہونے سے پہلے ان کو روکنا، بین الاقوامی تعلقات میں بین الاقوامی تنظیموں میں سرگرم رکنیت.03 مارچ 2010ء کو امریکن یونیورسٹی قاہرہ میں صحافیوں، سفارت کاروں اور طلبا کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے کہا کہ "خطے کے اندرونی امن و امان اور حدود کی حفاظت کے امور میں ایک ایسے نئے طریقے کی ضرورت ہےجس میں معاشرے کے مختلف طبقات کے حالات و ضروریات کی رعایت ہو، جیسے فلسطینی، اسرائیلی اور عراق میں شیعہ سنی،عیسائی اوردیگر مذہبی ونسلی گروہوں کے درمیان تصادم سے بچے”

خطے کے امن امان کے لیے اسرائیل سب سے بڑا خطرہ ہے یا ایران،اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ ہم اس معاملے کو اسرائیل یا ایرانی دھمکی کے زاویے سے دیکھیں. خطروں اور دھمکیوں کے بارے میں سوچنے سے بہتر یہ ہےکہ تعاون اور مشترکہ مفادات پرغور کریں.اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ خطے میں اسرائیلی حملے کی اجازت نہ دیں اس لیے کہ اسرائیل عدم استحکام کا سبب ہے.

ترکی کی سرپرستی میں شام و اسرائیل مذاکرات کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "غزہ پر اسرائیلی حملے سے ایک رات قبل ہم ایک مشترکہ پلیٹ فارم تک پہنچ گئے تھے، جس سے مذاکرات کاروں نے اتفاق کر لیا تھا، لیکن غزہ کے خلاف حملے نے ایسی انسانی ٹریجیڈی پیچھے چھوڑی جس نے امن وسلامتی کے ہر موقع کو ضائع کر دیا” مگر انہوں نے مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی امید ظاہر کی.

سہل العبور حدود سے متعلق انہوں نے امت  کی تاریخی و جغرافیائی اتصال اور ان ممالک کے درمیان عائد کردہ نئی سیاسی حدود کا لحاظ کرتےہوئے اپنے خیال کو مختصراً یوں بیان کیا” تاریخ و جغرافیہ کے علاوہ ہم ہر چیز کو بدل سکتے ہیں، ان کا تو صرف دوبارہ مطالعہ اور تفسیر کر سکتے ہیں.ظاہر ہے میرا مطلب کسی ملک کے حدود بدلنا نہیں ان کو جہاں تک ممکن ہو آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ مل جُل سکیں اور ثقافتوں اور تہذیبوں کا ملاپ ہو، اقوام متحدہ کے درمیان یہ حدود رکاوٹ نہ بنیں، ممالک کے درمیان صرف سیاسی تقسیم کی حیثیت سے رہیں” اس سیاق میں انہوں نے شام ، ترکی کے تجربہ کا ذکر کیا کہ جن کے درمیان ابھی کچھ دن ہوئے ایک جشن کی صورت میں ویزہ سسٹم ختم کر دیا گیا اور دونوں ملکوں کے دسیوں وزراء کی موجودگی میں گذرگاہ کے دروازے کا افتتاح ہوا.

عرب اسلامی ممالک میں تعدد و تنوع اور بقائے باہمی کے قدیم تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے ان کو مسائل پیدا کرنے سے ان کے مثالی حل کا راستہ بتاتے ہوئے کہا کہ "سیاسی امن و امان اور سلامتی کے لیے آزادی کے ماحول میں تمام ادیان،عقائد، نسلوں اور جماعتوں کے درمیان رابطہ اور ارتباط ضروری ہے اورعراق یا لبنان یا کوئی بھی اور اس تعدد و تنوع کے بغیر ا ٓگے نہیں بڑھ سکتا، جو سب کی حفاظت کرے”.

اسی سیاق میں انہوں نے فلسطینی جماعتوں حماس اور فتح سے فوری اتحاد کی اپیل کی تا کہ فلسطین با اقتدار ریاست بن سکےاور حماس کے بارے میں یہ بھی کہا کہ صرف مزاحمتی کے بجائے اس کے لیے سیاسی عنصر بننے کا امکان ہے اور اپنے  ملک ترکی طرف سے یقین دلایا کہ اس مقصد کے لیے ہرممکن کوشش جاری رکھے گا.

دونوں فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصالحت کی کوشش کے لیے مصری کوششوں کی تعریف کی. بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں انہوں نے بعض عرب ممالک کے سربراہوں پر تنقید کرتےہوئے کہا”بہت افسوس کی بات ہے کہ خطے میں ہمارے پاس ایسے سربراہ  ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے نہیں ملتے” ان ملاقاتوں کا تبادلہ اور عقیدہ و نسل و جنس کا لحاظ کیے بغیر بلند سطح کی سیاسی گفتگو ہونی چاہیے. جیسے یورپی  ممالک نے اپنے معاملات کو سلجھانے کے لیے کیا. اس لیے خطے کے ممالک کو ایسا سیاسی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو ان کو بنیادی فاعل وعامل بنا دے اور اس اقتصادی راستہ کو اپنانا چاہیے جو امکانی حد تک بیرونی عناصر پراعتماد کے بجائے خود مختاری اور خود کفالت تک پہنچائے.

آخری نکتے کے بارے میں انہوں نے قاہرہ اور انقرہ کے درمیان ان کی امتیازی حیثیت پرزور دیا جو ان کے درمیان کسی بھی ساجھے داری میں اضافے کی نمائندگی کرتا ہے اور خطے کے مسائل کے حل میں وہ دونوں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں. دونوں کو ان کی امتیازی صفات کی روشنی میں ترکی  مصر کے ساتھ تعلقات کے قیام کا خواہش مند ہے، ان کے الفاظ یہ تھے”ترکی اور مصر دونوں یورپی، ایشیائی اور افریقی دائرے میں محور کے نقطے کی نمائندگی کرتے ہیں. ترکی سرزمیں یورپ اور ایشیا  کے دو براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے اور مصر کی معرفت وہ افریقہ کا پڑوسی ہے اور یہی حالت مصر کی ہے کہ وہ ایشیا اور افریقہ کے درمیان ہے. ترکی کی معرفت وہ یورپ کا پڑوسی بھی ہے”  اس لیے ان دونوں کے وسیع ترین جغرافیائی دائرے کی بدولت وہ دنیا کے متعدد ممالک سے تعلقات قایجمم کر سکتے ہیں.خاص طور سے متوسط اور شرق اوسط کے دونوں علاقوں میں خطے کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے مصری، ترکی تعلقات کے لیے آئندہ بیس سال مشترکہ اسٹریٹجک پلان بنانے کی ضرورت پر ترکی کو مکمل یقین ہے.

حاضرین کےسوالات میں سے انہوں نے خاص طور سے نوجوانوں کے سوالوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ "اگر ہم امت کی پسماندگی پرغور کریں تو ہمیں اچھے خاصے سیاسی اور اقتصادی تجزیے کی ضرورت ہو گی اور بہت سے مسائل ومشکلات میں سےایک جمہوریت وآزادی کے فقدان کا مسئلہ ہو گا. اس معاملے  میں میں بیس برس پہلے سوچتا تھا. پر اب پتہ  چلا کہ اقوام خاص طور سےنوجوانوں کی تخلیقی صلاحیت کی ذہنیت وتخلیقی تعمیر اور اس کے لیے مناسب ماحول کی تیاری میں پوشیدہ ہے”.

انہوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ کی اپنی گفتگو کےآخر میں اس بات سے آگاہ کیا کہ اگر ترکی سیاست خارجہ کی طرح مسائل کو صفر کے درجے تک نہ لایا گیا تو خطے کی مشکلات و پریشانیاں جاری رہیں گی. اس پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ "دوسرے ممالک کے ساتھ تمام موجودہ امکانی مسائل کو اس طرح ختم کیا جائے کہ آپ کے ملک کو علاقائی اور بین الاقوامی لحاظ سے موثر و مقبول حیثیت حاصل ہو جائے”. آخری زمانے میں علاقائی لحاظ سے ترکی کے دور میں یہی حیثیت عملاً ابھری ہے.

قاہرہ کے دو روزہ ..دو تین مارچ… دورے کے آخر میں اوگلو نے مذکورہ مفروضات کی عملی دلیل اور تطبیقی اقدام کے طور پر خطے میں ثقافتی مرکز جو ترکی کے قدیم صوفی شاعر یونس آمرہ کے نام سے بنایا گیا ہے کا قاہرہ میں افتتاح کیا. تا کہ وہ تمام عرب ممالک کے ساتھ ترکی کی ثقافتی روابط کی بنیاد بنے. اس لیے قاہرہ تمام عالم عرب کی عقل ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ دونوں قوموں کےثقافتی تعلقات قائم ہوں. اور دونوں ملکوں کے درمیان اہل علم وثقافت کے درمیان تعلقات کو ترقی دے. یہ مرکز ہفتے میں ہردن چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا. ایک وقت آئے گا جب میں مصریوں کی طرح عربی زبان میں گفتگو کروں گا اور آپ مصری حاضرین ترکوں کی طرح ترکی زبان میں گفتگو کریں گے.”

مختصر لنک:

کاپی