سه شنبه 13/می/2025

’’فتح‘‘ کی اللہ سے جنگ، حفظ قرآن کے بجائے ناچ گانے کے تربیتی پروگرام

جمعہ 16-جولائی-2010

مغربی کنارے میں اس سال گرمیاں پچھلے سالوں کی مانند نہ تھیں کیونکہ گرمیوں کی چھٹیوں میں دعوت دین اور حفظ القرآن کی پروگراموں کے بجائے طلبہ کیلئے رقص و سرور کے تربیتی سمر کیمپس کا انعقاد کیا گیا، فلسطینی نئی نسل کو دین سے بے بہرہ رکھنے کے لیے ایک طرف مغربی چندے کیلئےکام کرنے والی این جی اوز میدان میں کود پڑیں تو دوسری جانب فتح کے نااہل حکمرانوں نے بھی مغربی امداد کے حصول اور صہیونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مغربی دھنوں کی تال پر رقص کرتے 10 تا 17 سالہ بچوں کی کتاب اللہ کی تعلیمات سے محرومی قبول کر لی ہے۔

جب سے مغربی کنارے میں شراب خانوں اور رقص و سرور کے کلب پھیلنا شروع ہوئے ہیں فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی حالت رو بہ زوال ہے، فتح کی غیر آئینی فلسطینی حکومت صرف اس بنا پر ان تمام سرگرمیوں سے آنکھیں موندے بیٹھی ہے کیونکہ اس کو اپنے مغربی آقاؤں سے ملنے والی امداد بند ہونے کا خدشہ ہے۔ فتح نے اپنے ڈونرز کی رقم سے شروع کردہ ان اوچھے اور فحش پروگراموں کی حمایت کر کے اپنی قوم کی عزت اور اس کے اخلاق کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

مغربی کنارے میں سمر کیمپ
اس سال طلبہ کے لیے گرمیوں کی چھٹیوں میں فتح کی حکومت یا کسی این جی او کے زیر اہتمام باقاعدہ 400 سمر کیپمس کا انعقاد کیا گیا۔

ان کیمپوں میں داخلے کے لیے 10 تا 17 سال کے بچوں کا انتخاب کیا گیا تھا یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں بچے کی شخصیت بنتی ہے، اس عمر میں بچہ یا تو مثبت رویہ اختیار کر لیتا ہے یا منفی رویوں کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔

ان کیمپوں میں بچوں کو ماہر ڈانسر بنانے کے لیے مشرقی اور مغربی دونوں طرح کے رقص کی تربیت دی گئی۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے مطابق یہ کیمپ عوامی مقامات اور شہروں میں موجود تفریحی باغات میں لگائے گئے تھے جس میں فلسطینی معاشرے کے مختلف طبقات نے ایسے رقص اور گانوں کا مظاہرہ دیکھا جس سے انہیں پہلے شناسائی نہیں تھی۔

نوجوانوں میں نیا رجحان

 

ان کیمپوں میں ایسے لڑکوں کی موجودگی کوئی حیران کن نہیں تھی جو تھیٹر پر بڑے منفرد اور نئی انداز کی پرفارمنس پیش کر رہے تھے، نئے رجحان کے گانوں اور میوزک پر ڈانس کرنے کے لیے یہ تھیٹر خصوصی طور پر بنائے گئے تھے۔

ان محافل اور کیمپ کا انعقاد کرنے والے منتظمین نے بتایا کہ ’’فلسطینی قوم مزاحمت کر کے تھک چکی ہے اب وہ اس کے برعکس کچھ کرنا چاہتی ہے، اسی مقصد کے لیے فلسطین کی مختلف تنظیموں نےمغربی ممالک کی مدد سے اس طرح کی محافل کا انعقاد کیا ہے‘‘

فلسطینی تنظیموں کو عطیات دینے والے ممالک کی این جی اوز ان لغو اور لچر پروگراموں کے لیے بھرپور مالیاتی مدد فراہم کر رہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فلسطینی تنظیمیں ان ملکوں اور این جی اوز کے ایجنڈے کو بڑی خوبی سے آگے بڑھا رہی ہیں۔

اللہ سے جنگ
اس سے قبل مغربی کنارے میں گرمیوں کی چھٹیوں کا سماں ہی کچھ اور ہوتا تھا، اللہ سے بغاوت پر مشتمل ایسی لغو حرکات کے بجائے شہروں میں مختلف دورانیے کے حفظ القرآن کے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ تاہم اس سال ’’فتح‘‘ کی غیر آئینی حکومت نے قرآن کی دہرائی کی مخالفت کرتے ہوئے ان تعلیمی پروگراموں کو اس بنا پر بند کروا دیا کہ اس کی وجہ سے بچے اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے مقاصد کے لیے نکل پڑتے ہیں۔

دینی دعوت کے کام سے منسلک ایک شخص کے مطابق نابلس کے شمال میں واقع اسکے گاؤں میں 400 حافظ قرآن ہیں۔ اس کے علاوہ 500 مزید بچے ان کیمپس میں قرآن حفظ کرتے تھے لیکن فتح کی جانب سے اس سال ان پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے منتظمین کو گرفتار کر لیا گیا دلیل یہ دی گئی کہ ان کا تعلق حماس کے ساتھ ہے، یوں قرآن حفظ کرنے کے یہ حلقے مکمل طور پر بند کر دیے گئے۔

انہوں نے واضح کیا ’’ہمارے علاقے کے عام لوگ بڑی تعداد میں اپنے بچوں کو ان حلقوں میں شرکت کے لیے بھیجتے تھے مگر اب وہ انہیں رقص کی تربیت دینے کے لیے سمر کیمپس میں بھیج رہے ہیں۔ اس سال کتاب اللہ کے حفظ کی جگہ مشرقی اور مغربی ڈانس نے لے لی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ اللہ کے ساتھ جنگ ہے‘‘

مختصر لنک:

کاپی