پنج شنبه 01/می/2025

لبنان – فلسطین سیاسی معاہدہ وقت کی ضرورت ہے: اسامہ حمدان

بدھ 9-جون-2010

اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے تعلقات عامہ کے نگران اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ  فلسطینیوں کی لبنان میں مستقل آبادی کاری جیسی تجاویز سے جان چھڑانے کے لئے لبنان اور فلسطینیوں کے درمیان سیاسی معاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے وطن واپسی کے حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ فلسطینی مہاجرین کو لبنان میں روزگار، ملکیتی حقوق اور صحت و تعلیم جیسے تمام ضروری حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی شامل کرنا ضروری ہے۔

فلسطینی مصالحت کے بارے میں سوال پر حماس کے رہ نما نے کہا کہ اس کا آغاز فتح اور حماس کی قیادت کے درمیان ملاقات سے ہی ممکن ہے۔ اگلے مرحلے میں تمام فلسطینی جماعتوں کو اس عمل شریک کیا جا سکتا ہے۔

لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامے’’الحیاہ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسامہ حمدان نے کہا کہ ان کی تنظیم یہ بات قبول نہیں کرے گی کہ لبنان میں فلسطینیوں کے مہاجر کیمپ محل نزاع ہوں۔ لبنان میں فلسطینیوں کے اسلحے کے مسئلے کو دیگر مسائل کے ضمن میں بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا پروگرام صرف وطن کی آزادی ہے۔ مسائل ڈھونڈنے اور ان کے حل تلاش کرنا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس، فلسطینی جماعتوں میں مصالحت اور اتحاد کی شدید خواہشمند ہے مگر بال اب رام اللہ حکومت کے صدر محمود عباس کی کورٹ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مصالحت کی آپشن ہمیشہ کے لیے کھلی ہے یہ فائل کبھی بند نہیں ہوسکتی، حماس ہمیشہ فلسطینی مصالحت کے لیے تیار رہے گی، تاہم فلسطینی مصالحت ایک قومی ذمہ داری ہے جسے ہر فلسطینی جماعت کو مل کر اٹھانا ہے۔

 انہوں نے فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض قوتیں خو کو طاقت کا محور سمجھتی ہیں۔ اس لحاظ سے انکی ذمہ داری بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مصالحت اورفلسطینی جماعتوں کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ امریکی ویٹو ہے۔ تاہم یاد رہے کہ خطرہ صرف امریکی ویٹو سے نہیں ہے۔ ویٹو کی بازگشت فلسطینیوں اوردیگر علاقائی قوتوں کو سنائی دے رہی ہے۔ امریکی ویٹو کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ عرب سربراہی اجلاس سے پہلے فلسطینی مصالحت کی کوشش کی گئی تھی تاہم مصالحت کی حمایت کے باوجود یہ کوشش عملا کامیاب نہیں ہو سکی۔

حمدان نے کہا کہ حالیہ عرب سربراہی کانفرنس سے قبل حماس نے مصالحت کے لیے ایک واضح فریم ورک مہیا کردیا تھا جس کے تحت فلسطینی انتظامی امور میں تمام فلسطینی جماعتوں کا شریک ہونا ضروری تھا۔ حماس کے اس موقف کے تین عملی مظاہر قابل ذکر ہیں۔ سب سے پہلے ایسی فلسطینی قیادت کی تشکیل ضروری ہے جسے معطل نہ جا سکے اور نہ ہی ان کے فیصلوں سے اغماض برتا جا سکے۔

دوسرا فلسطینی مزاحمت جاری رکھنے کے عرصے میں ایسے سیکیورٹی نیٹ ورک کی تشکیل ہے جس کا باقاعدہ مرکزی کمان اینڈ کنٹرول سسٹم ہو۔  تیسری ضرورت ایک ایسے خود مختار اور آزاد الیکشن کمیشن  کی تشکیل پر اتفاق ہے جو تحریک آزادی یا فلسطینی حکومت کے قیام دونوں کے لیے کام کرے۔

انہوں نے فلسطینی جماعتوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوئی ٹائم لمٹ نہیں کیونکہ ان معاملات کو ارادوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ "حماس ہمہ وقت "فتح” کی قیادت سے ملنے کے لیے تیار ہے۔ اب بال رام اللہ کے کورٹ میں ہے۔

انہوں نے فتح اور حماس کی قیادت کے درمیان ملاقات کی اہمیت بیان واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دنیا کو ایک متحد فلسطین دیکھنے کو ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں یہ چیز اہم ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہمیں یہ تجربات ہو چکے ہیں کہ ہم نے بعض رہنماؤں سے مذاکرات کیے لیکن مذاکرات میں طے شدہ امور پر عمل نہ ہوا اور کہا گیا کہ یہ رہنما پارٹی کے نمائندہ ہی نہیں یا ان کو مذاکرات کا اختیار ہی نہیں دیا گیا تھا۔ باوجود اس کے کہ یہ مذاکرات کار نمائندہ نہیں تھے ہم نے ان سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کی بلکہ حماس نے اس سب کے باوجود آگے بڑھ  کر فتح اور حماس کے درمیان کانفرنس کا مطالبہ کیا۔

اسامہ حمدان نے کہا کہ ہمارا پیغام واضح ہے۔ اولا  یہ کہ فلسطینیوں کی نااتفاقی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا اور جس کسی نے بھی یہ سوچا کہ نااتفاقی اور اختلاف کو طول دے کر اسے کوئی فائدہ حاصل ہوگا موجودہ حالات میں وہ بڑے خسارے میں ہے۔ ہمیں اس وقت تک فائدہ حاصل نہیں ہوگا جب ہم مصالحت اور اتحاد کی برکت سے حاصل ہونے والے فوائد حاصل نہ کرلیں۔ ثانیا  یہ کہ مصالحت ملکی اصول و ضوابط کے مطابق ہونی چاہیے نہ بیرونی شرائط پر۔

مصالحت کی خاطر مصری کوششوں کے بارے میں سوال کے جواب میں حمدان نے کامیابی کی امید کا اظہار کی  اور کہا کہ مصری مصالحتی دستاویز میں حماس کی جانب سے اٹھائے گئے نقاط کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک فلسطینی کے دوسرے فلسطینی کے ساتھ اختلاف ختم ہو جائیں گے اور سارے فلسطینی آپس میں باہم شیر وشکر ہو جائیں گے تو یہ بات ہماری سے باعث مسرت ہو گی کہ ہمارے مصری بھائی اس معاہدے اور اتفاق کے نگہبان اور ضامن ہوں۔

انہوں نے مصالحت کے لیے بعض غیر جانبدار فلسطینی شخصیات کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حماس نے ان کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں مثبت جواب دیا ہے۔ انہیں اب دوسرے فریق کی جانب سے جواب کا انتظار ہے۔

اس وقت مسئلہ فلسطین کو مصالحتی مذاکرات میں ناکامی اور اس کے بعد کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس وقت اس مسئلہ کے حل کے لیے اختیار کیے گئے طریقے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا جائے کہ مسئلہ فلسطین کا حل ناکام ہو چکا ہے اور اس کے بعد کوئی متبادل لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ متبادل کتنا ہی تکلیف دہ ہو۔

 اسامہ حمدان کا کہنا تھا ہماری تنظیم سمجھتی ہے کہ مسئلہ فلسطینی کے حل کے لیے بہت سے متبادل طریقے موجود ہیں جن میں مزاحمت اور دیگر داخلی انتظامی طریقے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا نے حماس کے مزاحمتی طریقے کو روکنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا مگر فلسطینی قوم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ  کیا اور فلسطینی قیادت بھی اس طریقے پر ڈٹی رہی۔ اب معاملہ عنقریب ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ تاہم حماس خود کر کی جانے والی تنقید اور الزام  تراشیاں سننے اور اپنے موقف کی وضاحت میں ان کا جواب دینے  کے لئے پوری طرح تیار ہے۔

یہودی مظالم سے تنگ آ کر دنیا کے کئی ممالک بالخصوص لبنان کی جانب ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کی آباد کاری پر گفتگو کرتے ہوئے حمدان نے واضح کیا کہ لبنان میں فلسطینیوں کی مستقل سکونت کی بات  تین چار دہائیاں قبل کافی مشہور ہوئی تھی۔ اس کے بعد جب فلسطینی مسئلہ کے تصفیے اور حل کی بات چلی تو فلسطینیوں کی آباد کاری کا مسئلہ دوبارہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے  کہ اسرائیل کا اصل مقصد اپنے وطن سے باہر 60 لاکھ فلسطینیوں کو حق واپسی سے محروم کر کے ان کی فلسطینی شناخت کو ختم کرانا ہے۔  یہ بات فلسطینیوں کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں۔

حماس کے رہنما کے مطابق بیرون ملک فلسطینیوں کی آباد کاری کے اس اہم مسئلے کے دو زاویے ہیں ایک تو یہ مسئلہ فلسطین کے داخلی بحران کی وجہ بن رہا ہے دوسرا لبنان کی داخلی صورتحال ہے جو اس آباد کاری کے موضوع پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

حمدان نے اس یقین کا اظہار کیا کہ حالیہ شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے فلسطینی قومی معاہدے اور لبنان اور فلسطین کے معاہدے کے گرداب اور فریم ورک سے باہر نکل کر سوچنا اور فلسطینیوں کی لبنان میں آباد کاری کے مسئلے کو زیر غور لانا انتہائی اہم ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لبنان کے اندر فلسطینی انتہائی نامناسب اور مشکل حالات سے دوچار ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین اور لبنان کے مابین نئے سرے سے تعلقا ت قائم کرکے فلسطینی آباد کاری کے مسئلے سے نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس مسئلے کا ایسا حل ضروری ہے جس میں فلسطینیوں کے حق واپسی اور لبنان میں موجود فلسطینیوں کے لیے تمام انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی ہو۔ ان فلسطینیوں کو روزگار، ملکیت، تعلیم و صحت کی تمام سہولیات مہیا ہونی چاہیں۔ اس وقت فلسطینوں کی وطن واپس اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ سیکیورٹی کیمپس میں قیام انتہائی غیر محفوظ ہے۔  فلسطینی ہرگز یہ قبول نہیں کریں گے کہ خیموں میں کوئی اشتعال پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے کمیپوں میں فلسطینی اسلحہ کے مسئلے کو مستقل حیثیت سے نہیں بلکہ فلسطینی قوم کے تمام مسائل کے ضمن میں حل کرنا چاہیے۔ 

اقوام متحدہ اور حماس کے مابین تعلقات کے بارے میں اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ساتھ مستقل اور ٹھوس سیاسی تعلقات کی بات کی جا سکتی ہے لیکن حماس سمجھتی ہے کہ متعدد ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکی انتظامیہ اور یورپ کو حماس کے بارے میں اپنی غلطی کا احساس ہوتا جا رہا ہے۔  ان کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ انہوں نے امریکی انتظامیہ سے علاقے کے مسئلے کے حل کے لیے اپنی غلطیوں کو درست کرنے اور علاقے کے مسائل کے حقیقی حل کی جانب سفر شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

مختصر لنک:

کاپی