یکشنبه 11/می/2025

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی بچوں پرتشدد کے سارے طریقے آزمائے جا رہے ہیں

ہفتہ 22-مئی-2010

فلسطینی وکیل ھبہ مصالحہ جس نے حال ہی میں مجدواور ریمونیم کے بچوں کے جیلوں کا دورہ کیا ہے ، کا کہنا ہے کہ وہاں بہت سارے بچوں کو تفتیش کے دوران ،بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جمعرات کو اپنے ایک بیان میں ھبہ نے کہا کہ نابلس کے 17سالہ احمد فاروق جارا کو 14جنوری 2010 میں گرفتار کیا گیا۔

اسے بتاح تکواہ کے تفتیشی سنٹر میں ایک میز کے ساتھ باندھ کے رکھا گیا اور 21 دن تک اسے شدید تعذیب کا نشانہ بنایا گیا۔اسکی صحت بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔وہ اسکرمہاجرکیمپ کے 16 سالہ سلامہ عبد الجواد سے بھی ملی جسے حمراہ سے14جنوری 2010 میں گرفتار کیا گیا۔

سلامہ نے اسے بتایا کہ اسکی گرفتاری کے بعد سخت پٹائی کی گئی۔لاتوں اور گھونسوں سے اس کی تواضع کی گئی اور بے دردی سے اس مارا گیا جس کے نتیجے میں اس کا پورا جسم لہو لہان ہوگیا۔ھبہ مصالحہ نے کہا کہ اسکی ملاقات بیت حنون غزہ وادی کے 16سالہ محمد یازجی سے ہوئی جسے اریز کراسنگ پر گرفتار گیا ۔اس کا کہنا ہے کہ اسے گرفتاری کے بعد بے دردی سے پیٹا گیا جس کے نتیجے میں اس کا پورا جسم زخمی ہوا۔

اسی دورے کے دوران صیر الخلیل کے 16سالہ عاطف جرادات نے خاتون وکیل کو بتایا کہ اسے اسرائیلی قابض فورسز نے 2فروری 2010 کو گرفتار کرکے کریات اربع میں ایک رات کیلئے رکھا۔وہاں سے اسے آتشن حراست مرکز منتقل کر دیا گیا جہاں سخت سردی اور بارش میں باہر ایک ٹول کے ساتھ باندھ کے رکھا گیا۔اس دوران عمران نامی اہلکار اس کی مار کٹائی بھی کرتا رہا اور اس کے بعد اسے بجلی کے جھٹکے بھی دئیے گئے۔

اسے گرفتاری بعد اب تک گھر والوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ مہاجرکیمپ سے تعلق رکھنے والے16  سالہ محمد رشید ابو شاہین نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ اسے 3جنوری 2010 کو حمرہ روڑ بلاک سے گرفتار کیا گیا۔اسے فوجیوں نے رائفل کے دستوں سے مارا ۔اسے پھر حوراہ حراست مرکز لیا گیا جہاں پلاسٹک پائپس سے تفتیش کاروں نے اس کی پٹائی کی۔

مصالحہ کے مطابق بچے کی کمر میں شدید تکلیف ہوتی ہے،لیکن اس کا علاج کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔اسی طرح نابلس کے 16سالہ ذکریا وضاح عواضحہ نے دورے پر آئی وکیل کو بتایا کہ اسے 2مارچ 2010 کو گرفتار کیا گیا۔فوجیوں نے اسے فوجی جیپ کے اندر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔حوارہ حراستی مرکز میں اسے رات کے وقت فوجی باہرسردی میں ننگے جسم رات بھر باندھ کے رکھتے تھے ۔اسے گھر والوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی