یکشنبه 11/می/2025

1948 ء کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی اپنے ہی ملک میں ہجرت پر مجبور

جمعہ 14-مئی-2010

اکثر لوگ 1948 ء میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور ہمسایہ عرب ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کی ہی مہاجرین شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ صہیونی قبضے کے بعد سے لیکر اب تک 1948 ء کے مقبوضہ علاقوں کے بسنے والے تین لاکھ فلسطینی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آبائی علاقے تو چھوڑ دیے مگر وہ ان مقبوضہ علاقوں سے باہر نہیں نکلے، یہ لوگ آج اپنے ہی ملک میں مہاجرین کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور آئے روز اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔

ان دونوں قسموں کے مہاجرین میں فرق صرف یہ ہے کہ 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین کے اندر ہی ہجرت کرنے والے فلسطینی ’’یہودی ایجنسی‘‘ کی آمد کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو اپنی آنکھوں تباہ ہوتا دیکھ سکتے ہیں اگرچہ کچھ کر نہیں سکتے جبکہ ان علاقوں سے باہر چلے جانے والے فلسطینیوں کے لیے ایسا ممکن نہیں۔

آج جب فلسطینی اپنی بابرکت زمین پر اسرائیلی قبضے کے غم میں 62 واں یوم نکبہ منا رہے ہیں مختلف تنظیموں کے اعداد وشمار یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ 25 فیصد فلسطینی آج بھی اپنی ہی ملک میں مہاجر ہیں اور بعض مواقع پر تو یہ اپنے آبائی علاقوں سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر رہ کر بھی اپنے اصلی گھروں تک لوٹنے میں ناکام ہیں۔

فلسطین کی اندر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی حکام ان فلسطینی مہاجرین کے اپنے شہروں اور دیہاتوں کی طرف لوٹنے کے مطالبات کو بزور بازو کچلنے کی روش پر گامزن ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نسل پرستی پر مبنی قوانین کا سہارا لیکر اپنے اصلی گھروں کی طرف واپسی کے حوالے سے فلسطینیوں کی ہرسرگرمی اور مطالبے پر قدغن لگا دیتے ہیں۔

پچھلے سالوں میں انہوں نے یوم نکبہ کی یاد منانے اور مہاجرین کی جانب سے اپنے گھروں اور گاؤں کی طرف واپسی کے مطالبے کو روکنے کے لیے کئی متعصبانہ قوانین متعارف کرائے ہیں اور آج بھی اسرائیلی حکام اپنے آبائی دیہاتوں اور شہروں کی طرف رجوع کے عادلانہ مطالبات کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔

دوسری طرف سنہ 1948ء کی ان مقبوضہ اراضی میں مختلف تنظیمیں ان مہاجر فلسطینیوں کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے لیے کام کر رہی ہیں، اس مقصد کے لیے یہ تنظیمیں مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ ہجرت کی یاد لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہو جائے۔

ان تنظیموں کے مطابق صہیونی ریاست فلسطینی مہاجرین کے معاملے کو ایک عام معاملہ قرار دیتی ہے اور انہیں بھی دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف ہجرت کرنے والوں کی طرح سمجھتی ہے۔ دیگر متعدد پہلوؤں کے باوجود 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے مہاجرین صہیونی شناخت کے حامل ہیں اور یہ سب اب اسرائیلی شہری کہلاتے ہیں۔ 

چنانچہ اسرائیلی شہری ہونے کے ناطے صہیونی حکام پر ان کے تمام حقوق کی ادائیگی واجب ہے اور اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپسی بھی ان کا بنیادی حق ہے، لیکن اس سب کے باوجود صہیونی قابض ریاست ان مہاجرین کے ساتھ ظالمانہ اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔

1948 ء کے مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں سے خالی کرائے گئے علاقوں کی تعداد 532 تک پہنچتی ہے، فلسطینیوں کا صرف تین فیصد اپنے آبائی اور اصلی علاقوں میں قیام پذیر ہے۔

ان علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کو آئے روز یہودیوں کی جانب سے زمینیں ہتھیانے اور یہودیانے کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص جلیل اور نقب کو یہودیانے کا بڑا اسرائیلی منصوبہ اس کی مثال ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ یہودی ان غیر منصفانہ اقدامات کو ترقی کا نام بھی دیتے ہیں۔

فلسطینیوں کو اپنے آبائی گھروں میں جانے سے روکنے کے لیے اسرائیل دوسرا بڑا ہتھیار یہ بناتے ہیں کہ ان کے علاقوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ یہ علاقے واقعی فلسطینیوں کے تھے اس طرح کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔  اس طرح شناخت نہ ہونے کا بہانا بنا کران علاقوں سے فلسطینیوں کو بے دخل اور ان کے گھروں کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک مذموم کارروائی اسرائیلی حکومت کچھ سال قبل نقب میں فلسطینوں کے 45 گاؤں پر قبضہ کر کے بھی کر چکی ہے۔ اس دوران اسرائیلی انتظامیہ نے گاؤں طویل ابوجرول میں بہت سے گھر منہدم کیے۔ فلسطینیوں کی جائیدادوں، ان کے جانوروں پر قبضہ اور ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا گیا، ان کے پانی کے ٹینکر تباہ کر کے انہیں سورج کی شدید تمازت میں بغیر چھت چھوڑ دیا گیا، یہ سب نسلی تطہیرکی بدترین مثال تھی۔

فلسطینیوں کو اپنے آبائی گھروں میں جانے سے روکنے کے لیے اسرائیل دوسرا بڑا ہتھیار یہ بناتے ہیں کہ ان کے علاقوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ یہ علاقے واقعی فلسطینیوں کے تھے اس طرح کشیدگی مزید بڑھ جاتی ہے۔  اس طرح شناخت نہ ہونے کا بہانا بنا کر ان علاقوں سے فلسطینیوں کو بے دخل اور ان کے گھروں کو منہدم کر دیا جاتا ہے۔

 
  نقب علاقے کے فلسطینی آئے روز اسرائیلی حملوں کا شکار رہتے ہیں اس علاقے کے بدد عرب کئی مرتبہ اپنے گھر تعمیر کر چکے ہیں جو ہر مرتبہ صہیونی انتظامیہ منہدم کردیتی ہے۔ ثابت قدم فلسطینیوں اور جارح اسرائیل کے درمیان جاری اس کشمکش میں طویل نامی گاؤں 38 مرتبہ منہدم کیا جا چکا ہے۔

یاد رہے کہ نقب علاقے کے عرب یا جنوبی فلسطین کے دیہاتیوں کی تعداد 1948 ء سے قبل ایک لاکھ  نفوس تھی، لیکن اسرائیلی بے دخلی اور خارجے کی پالیسی کی وجہ سے اب وہاں صرف 11 ہزار لوگ باقی بچے ہیں۔

اپنے قبضے کے فورا بعد ہی قابض اسرائیلیوں نے سارے فلسطین میں موجود فلسطینیوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کردی اور سب کو ’’سیاغ‘‘ نامی علاقے میں جمع کرنے کی دھن میں لگ گیا، اس مقصد کے لیے اس نے فلسطینیوں کے گاؤں کی شناخت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کیا اور انہیں ہجرت پر مجبور کیا ۔ حالانہ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سب فلسطینی ان علاقوں میں قابض صہیونی ریاست کے قیام سے بھی قبل کے بیٹھے تھے اور قبضے سے قبل ملک کا ساٹھ فیصد حصہ انہیں فلسطینیوں کی ملکیت تھا جو آج اپنے ہی ملک میں مہاجر کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی