دراصل اس حکمت عملی کو دس مزید ذیلی حکمت عملیوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ان کی ذیل میں ترتیب واروضاحت کی جارہی ہے۔ مجموعی طورپراسرائیل کی حکمت عملی تنازعے کے انتظام پرمبنی ہے،تنازعے کے حل پرنہیں اور وہ اپنے مخالفین کو اس حدتک کمزور کرنا چاہتا ہے کہ وہ یہ بات ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ مسئلے کا ایک ہی حل ہے جو اسرائیل کے پاس ہے۔
اس لیے اسرائیل مذاکراتی عمل کو طول دے رہا ہے۔ چنانچہ اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کی حکمت عملی مسترد کرتا چلا آرہا ہے۔اس نے ہمیشہ تُرپ کے پتے ظاہرکرنے سےانکار کیا ہے اور اس کے بجائے اس نے مذاکرات میں مرحلہ وارپالیسی اپنا رکھی ہے۔اس پالیسی کے نتیجے میں سمجھوتوں کو مختلف خانوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور پھر انہیں مزید مراحل میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔
اسرائیل اپنے جمہوری نظام سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے جو اس کے یہودی شہریوں ہی کی خدمت کرتا ہے۔وہ اپنے سائنسی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کا بھی بہتراستعمال کرتا ہے اور اس کے ساتھ وہ اپنی حکمت عملی اور سیاسی تجربے کو بھی بروئے کارلاتا ہے۔وہ مذاکراتی عمل کا بڑے پیشہ ورانہ انداز میں انتظام کرتا ہے اور اس میں وہ اپنی قوت اور دستیاب مواقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتا ہے۔ اسرائیل طاقت کے توازن کے عمل میں اپنے برابر کسی دوسری قوت کی عدم موجودگی کا بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔چنانچہ وہ لوگوں کی زندگیوں اورزمین کو کنٹرول کرتا ہے اور اس میں اتنی فوجی صلاحیت ہے کہ وہ مشترکہ طور پرتمام عرب فوجوں کو شکست دے سکے۔
اسے عالمی یہودی اورصہیونی تحریکوں کی بدولت اپنے مضبوط بین الاقوامی اثرورسوخ کا فائدہ بھی حاصل ہے۔وہ مغرب اور خاص طورپرامریکا میں فیصلہ سازی کے عمل میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مزید برآں اسرائیل فلسطینیوں،عرب اورمسلم دنیا میں اختلافات اوران کی کمزوریوں سے بھی بھرپورفائدہ اٹھاتا ہے۔وہ فلسطینیوں کی کمزورمذاکراتی مہارت اورانتظام،تجربے کی کمی،سیاسی وژن کے فقدان،ان کے اندرونی اختلافات اور مجموعی حکمت عملی کا بھی استحصال کرتا ہے اوراسرائیل اوراس کے اتحادی اپنے فائدے کے لیے فلسطینیوں کا بھرپور استحصال کرتے ہیں۔ اسرائیل کی مذاکرات کے لیے دس حکمت عملیوں میں سے پہلی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کی جانب سے ہمیشہ جان بوجھ کر سرکاری سطح پر ایسے کسی اقدام سے گریز کیا جاتا ہے کہ جس کی بنیاد پر حتمی سمجھوتے کی راہ ہموار ہو سکتی ہو۔
چنانچہ وہ سیاستدانوں، دانشوروں اور فوجی لیڈروں کے لیے کسی سرکاری وعدے یا عزم کے بغیر میدان کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے درجنوں تجاویزاورنظریات کو سامنے لایا گیا ہے لیکن ان میں سے بیشتر میں اسرائیل کے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے اور فلسطینیوں کے مسائل کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ان میں سے بیشتر مجوزہ اقدامات میں مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی کے بعض علاقوں میں فلسطینی حکومت کی بعض شکلوں کو متعارف کرایا گیا ہے اوران تجاویز میں بھی فلسطینیوں کے لیے ایک آزادریاست کے قیام کے بجائے انہیں محدود خودمختاری دینے کی باتیں کی گئی ہیں۔
سنہ1967ء کی جنگ کے ایک ماہ بعد یگال ایلون کے منصوبے کے منظرعام پرآنے کے بعد سے کئی ایک تجاویز پیش کی جاچکی ہیں۔ایلون منصوبے میں فلسطینیوں کو محدود خودمختاری دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔سرکاری طورپر اسرائیلی ان امور کے بارے میں بات چیت کے حق میں ہیں جنہیں وہ مسترد کرتے ہیں نہ کہ ان امور پر جنہیں وہ قبول کرسکتے ہیں۔اسرائیل ایک طویل عرصے سے ”نہیں” کا راگ ہی گارہا ہے۔اسرائیلی سیاستدان اور حکام یہی راگ گا رہے ہیں اور بیشتریہودی شہریوں نے بھی اسے ہی اپنا رکھا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں کو واپس نہیں کیا جائے گا کیونکہ اسرائیل کے نقطہ نظر میں ”یروشیلم اسرائیل کا دائمی اور یر نقسم دارالحکومت ہے”۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ فلسطینیوں کو اس سرزمین میں واپس نہیں آنے دیا جائے گا جس پر اسرائیل نے 1948ء سے قبضہ کر کھا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مغربی کنارے میں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی یہودی بستیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا اور ایسی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہونے دی جائے گی جو مکمل طور آزاد ہو اور جس کا اپنی سرزمین اور رحدوں پر کنٹرول ہو۔اسرائیل کی دوسری حکمت عملی یہ ہے کہ مذاکرات کے عمل کو جتنا ممکن ہو،طول دیا جائے۔
حتمی مذاکرات سے گریزکیا جائے اور تنازعے کے خاتمے کی جانب آگے بڑھنے سے بھی گریز کیا جائے جس سے فلسطینی شاید یہ نتیجہ اخذکرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے ان کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔اسرائیلی یہ بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات مستقل بنیادوں پر جاری رہیں جس سے فلسطینی اورعرب مذاکرات کار”امن کی گاجر” ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائیں جبکہ اس تمام عمل سے وہ اپنے لیے برسرزمین مزید حقائق کی تشکیل کی غرض سے وقت حاصل کرسکیں۔
اسرائیل کی تیسری مذاکراتی حکمت عملی عرب اور فلسطینی اقدامات کا خیر مقدم کرنا ہے تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ عرب اور فلسطینی مزید کیا کیا رعایتیں دے سکتے ہیں اورکیاان میں پہلے سے حاصل کردہ حقوق شامل ہیں اورپھران کی بنیاد پر نئے مطالبات کیے جائیں تاکہ نئی رعایتیں حاصل کی جا سکیں۔ اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے برعکس فلسطینی اورعرب مذاکرات کار تنازعے کے حل کے لیے اقدامات پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں جبکہ اسرائیلی صرف تنازعے کا انتظام کرنا چاہتے ہیں۔
فلسطینی اورعرب کمزوری اورمنتشرحالت میں کام کرتے ہیں اورانہیں بے شمار بیرونی دباؤکا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں ان سے یہ بھی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ حقیقت پسند بنیں۔چنانچہ وہ اپنے اقدامات میں اکثر نئی رعایتیں شامل کرتے ہیں تاکہ وہ اسرائیلیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ پُرکشش ہوں جو اس کے جواب میں فوری طور پر رعایتوں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور پھرمزید کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
مثال کے طورپر تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او)کی 1964ء میں اس مقصد کے ساتھ بنیاد رکھی گئی تھی کہ1948ء میں اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا،انہیں وہ آزاد کرائے گی۔تاہم 1968ء میں پی ایل او نے تمام مسلمانوں ،عیسائِیوں اوریہودیوں کے لیے ایک جمہوری ریاست کے قیام کا نظریہ اپنا لیا۔ان میں تارکین وطن اور قابض اسرائیلی آبادکار بھی شامل تھے۔1974ء میں پی ایل او نے ایک دس نکاتی پروگرام کی منظوری دی اوراس میں یہ طے کیا گیا کہ ریاست فلسطین کا قیام کسی بھی آزاد سرزمین یا اسرائیل کی جانب سے خالی کردہ علاقوں پرعمل میں لایا جائے گا۔1988ء میں اس نے فلسطین کی تقسیم کی منظوری دی اور اقوام متحدہ کی قراردادنمبر 242 پر اتفاق کیا جوفلسطینی مہاجرین سے متعلق ہے۔
پی ایل او نے”دہشت گردی” کی بھی مذمت کی.اس نے 1991ء میں میڈرڈکانفرنس میں شرکت کی تھی اور 1993ء میں ”اپنی حکمرانی” کے لیے اوسلومعاہدے پر دستخط کیے تھے۔جہاں تک عرب حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ اسرائِیل کے خاتمے سے لے کر 1967ء کی جنگ کے اثرات کے خاتمے تک چلی گئی ہیں۔انہوں نے 1970ء میں راجرز اقدام کی منظوری دی تھی۔پھر 1982ء میں فیض میں منعقدہ عرب سربراہ اجلاس میں ایک اور منصوبے کی منظوری دی اور بالآخر انہوں نے 2002ء کے عرب منصوبہ کو اختیار کرلیا۔
اس دوران اسرائیل نے بالکل سادہ انداز میں یہ کیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی اراضی کو ہتھیاتا رہا ہے۔ اسرائیل کی چوتھی حکمت عملی غیرسرکاری اسرائیلی فریقوں یا پالیسی سازی میں کم تراثرورسوخ کے حامل لوگوں کی ان فلسطینی حکام کے ساتھ بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جن کا پالیسی سازی کے عمل میں اثرورسوخ ہوتا ہے۔اس کا مقصد محض یہ ہے کہ فلسطینیوں کوکسی جوابی اقدام کا کوئی اشارہ دیے بغیران سے زیادہ سے زیادہ رعایتیں حاصل کی جا سکیں۔
ایسا یوسی بیلین اور محمود عباس کے درمیان 1995ء میں طے پائے سمجھوتوں میں ہو چکا ہے اور اس کا ثبوت 2003ء کے جنیوا ایکٹ میں بھی موجود ہے۔ بیلین اورعباس کے درمیان بات چیت میں فلسطینیوں نے 1948ء میں قبضہ میں لی گئی سرزمین پر فلسطینیوں کی واپسی کے حق کے بارے میں رعایتیں دی تھیں اور اس بات سے اتفاق کیا تھا فلسطینی ریاست غیر فوجی ہو گی۔
بیشتر یہودی بستیاں قائم رہیں گی اور فلسطینی دارالحکومت تو بیت المقدس ہی ہوگا لیکن اس کے لیے ایک گاٶں جتنا علاقہ دیا جائے گا۔جنیواایکٹ میں بھی فلسطینی مہاجرین، یہودی بستیوں، غیر فوجی فلسطینی ریاست اور مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کے بارے میں اسی طرح کی رعایتیں متعارف کرائی گئی تھیں۔ اس سارے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے بالکل ابتدائی مرحلے ہی میں رعایتیں دے دی گئی تھیں اور ان میں وہ رعایتیں بھی شامل تھیں جو فلسطینی عوام کے سامنے ظاہرنہیں کی جاسکتی تھیں۔تام دوسری جانب اسرائیلیوں نے ہمیشہ ان رعایتوں کو ایک مثال کے طورپر پیش کیا ہے،جن پر انہوں نے اپنے حقوق کی بنیاد رکھی اورپھر انہیں حاصل کیا۔
اگرچہ فریقین پر سمجھوتوں کی پابندی لازمی نہیں تھی لیکن یہ واضح ہے کہ اسرائیل نے ان رعایتوں کو اقدامات کے لیے استعمال کیا تھا۔ مبصرین آج یہ بات نوٹ کرسکتے ہیں کہ اسرائیلی ایسے ظاہر کررہے ہیں جیسے انہوں نے مہاجرین کی واپسی، یہودی آبادی کاری اورنامکمل خودمختاری کے ساتھ غیر فوجی فلسطینی ریاست کے مسئلے کو ختم کردیا ہے اور اب صرف مقبوضہ بیت المقدس کا مسئلہ حل ہونے والا رہ گیا ہے۔اسرائیل کی پانچویں حکمت عملی فلسطینیوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال ہے۔وہ مذاکرات کاروں پر اتنا دباٶ ڈالتا ہے کہ وہ اپنا راستہ ترک کر دیں اور ایک مسلط شدہ حل قبول کر لیں۔ا ن حربوں میں غزہ کا محاصرہ،فلسطینیوں کا قتال اور گرفتاریاں،زمین کی ضبطی،فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنا،بندشیں،مغربی کنارے میں علاحدگی کی دیوار کی تعمیر،مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانا،چیک پوائنٹس اور سمجھوتوں پرعمل درآمد میں تاخیروغیرہ شامل ہیں۔ان سب کا مقصد فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرنا اور ان کے عزم کو کمزورکرنا ہے۔
اسرائیل نے اس طرح کے حربوں اورغیر قانونی اقدامات کے ذریعے رعایتیں حاصل کی ہیں اور ان میں سب سے بڑی رعایت یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی آبادکاروں کے لیے بستیاں بسارہا ہے جبکہ فلسطینیوں کے قانونی حقوق کے اطلاق کو اس نے ایک ایسا امر بنا دیا ہےکہ اس پر بات چیت ہونی چاہیے۔
اسرائیل کی چھٹی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دباٶوالے نکات کو ختم کرنا چاہتا ہے اوراس مقصد کے لیے وہ فلسطینیوں کے مشترکہ مذاکرات کو عرب ٹریک سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے اوراس نے پی ایل او پر بھی دباٶڈالا ہے کہ وہ دہشت گردی کی مذمت کرے جو دراصل فلسطینی سرزمین پر قبضے کے خلاف جائزاورقانونی مزاحمت ہے۔پی ایل او کو اس بات پر بھی مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ ان فلسطینیوں سے محاذآراء ہو،جن کے نزدیک اب بھی قبضے کے خلاف مزاحمت ایک جائز راستہ ہے۔
چنانچہ اس کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی اور ایسے کسی نکتے پر اتفاق نہیں کیا گیا جس کا اسرائیل کو پابند بنایا جاسکتا ہو جیسا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے معاملے میں ہورہا ہے۔اسی طرح ایسا کوئی بھی سمجھوتہ طے نہیں پایا ہے جس کی بنیاد پرمذاکراتی عمل کے دوران اسرائیل کو یہودی آبادکاری کی سرگرمیوں،فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیانے اورالقدس کو یہودیانے سے روکا جاسکے۔چنانچہ ایشوز ہمیشہ اسرائیل کی ”خیرات” سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ مذاکرات کی میز پرجو چاہتا ہے،حاصل کرلیتا ہے۔ اسرائیل کی ساتویں حکمت عملی یہ ہے کہ عربوں کو اکٹھے مل کرایک مضبوط بلاک کے طور پر کام کرنے سے روکا جائے۔
اسرائیل کے موقف کو مضبوط بنانے اور اپوزیشن کو تقسیم کرنے کے لیے مختلف ”ٹریکس” تشکیل دیے جائیں۔مثال کے طورپر مصر،اردن اور فلسطین الگ الگ اور اپنے اپنے طورپر مذاکرات کرتے ہیں جبکہ اسرائیل ،لبنان اورشام کو بھی الگ الگ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔اسرائیل کی آٹھویں حکمت عملی کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی بیرونی قوت کو مسئلے میں مداخلت سے باز رکھا جائے خواہ یہ اقوام متحدہ ہو یا امریکا یا پھر یورپ،اگروہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہیں کرتے توان کی بات کسی صورت نہیں مانی جائے گی۔اس طریقے سے اسرائیل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس پر بحث کی جائے گی اورکسی بیرونی دباٶ کو خاطر میں لائے بغیر کیا کام کیا جائے گا۔اوسلومذاکرات میں ایسا کوئی نکتہ نہیں تھا جس سے اسرائیل کوایک مخصوص نظام الاوقات میں بات چیت کو ختم کرنے کا پابند کیا جا سکتا۔
سمجھوتے کے بعد اقوام متحدہ تنازعے کے انتظام کے لیے کوئی بین الاقوامی چھتری نہیں رہی تھی اور فلسطینیوں کے حق خوداختیاری سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں ایسا کوئی حوالہ نہیں رہی تھیں کہ ان پر کوئی بحث ومباحثہ کیا جاسکتا۔اس دوران امریکا”امن عمل” کو آگے بڑھانے کے لیے کرداراداکرتا رہا جبکہ اقوام متحدہ،یورپ،روس اور دوسرے مذاکرات کے اس عمل سے نکل گئے اور انہوں نے اس عمل کو فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کے درمیان دوطرفہ بات چیت کے نتائج پر چھوڑدیا۔ اسرائیل کی نویں حکمت عملی یہ ہے کہ وہ مذاکرات کو بے شمارتفاصیل میں تقسیم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ان تمام پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر کسی ایک پہلو پر پیش رفت مشکل ہوجاتی ہے۔اس حکمت عملی کے تحت دسیوں مذاکرات کار دوطرفہ، کثیر قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملاقاتوں میں گھنٹوں بات چیت کرتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر فلسطینی اپنے سب سے بنیادی قانونی حق کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اسے بہت بڑی کامیابی گردانا جاتا ہے اور اسے اسرائیل کی جانب سے ایک دردبھری رعایت قراردیا جاتا ہے۔اوسلوملاقاتوں کے دوران بھی یہ ہوا تھا کہ فریقین کوپہلے بہت زیادہ تفصیلات طے کرنا پڑی تھیں جس کے بعد وہ کہیں جاکر بنیادی اصولوں اورمطلوبہ نتا ئج پرمتفق ہوئے تھے۔1993ء سے 1999ء تک قاہرہ،تبہ،وائی ریور اور شرم الشیخ میں مذاکرات کے دوران بھی یہی معاملہ پیش آیا تھا۔
پہلے انہوں نے غزہ اورالریحہ سے متعلق تفصیلات طے کی تھیں.پھرانہوں نے مغربی کنارے کو ”اے”،”بی” اور ”سی” خانوں میں تقسیم کیا تھاجس میں الخلیل کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی۔اس کے بعد انہوں نے یہودی بستیوں،مقبوضہ بیت المقدس،مہاجرین اور سرحدوں کے بارے میں تفصیل طے کی تھی اورپھرپہلے ہی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹے علاقوں کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ مثال کے طور پر یہودی آبادکاری کے ایشوکی بات کی جائے تو اسے مختلف یہودی بستی بلاکس میں تقسیم کردیا گیا جن میں قانونی بستیاں،سکیورٹی یہودی بستیاں، مشرقی القدس میں ہتھیائی گئی اراضی پر قائم کردہ یہودی بستیاں اور وہ جو متنازعہ دیوار میں ضم کی گئی ہیں،وغیرہ۔ اسرائیل کی دسویں حکمت عملی مذاکرات کے لیے مزید وقت حاصل کرنا اور مذاکراتی عمل سے متعلق اپنی ذمے داریوں سے راہ فراراختیار کرنا ہے۔
اسرائیلیوں نے خودکو اس مقصد کے لیے وقف کررکھا ہے کہ وہ حتمی حیثیت کے بارے میں کوئی تاریخ دینے سے گریز کریں گے لیکن اپنے تاخیری حربوں کو چھوڑنے پروہ آمادہ نہیں۔مثال کے طور ماضی میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے پہلے 1998ءاوراس کے بعد2005ء کی تاریخیں مقررکی گئی تھیں لیکن یہ دونوں تاریخیں ایسے ہی گزر گئیں اور فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوئی۔اس دوران یہودی آبادکاری کا عمل مسلسل جاری رہاہے اور اسرائیل فلسطینیوں کی مزید اراضی پر قبضہ کرچکا ہے۔
تاہم فلسطینی اتھارٹی پر دباٶڈالا جا رہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے بجائے اسرائیل کے مفاد میں اپنی تمام ذمے داریوں کو پورا کرے۔ان تمام طریقوں میں اسرائیل کی یہ حکمت رہی ہے کہ مذاکرات کو طول دیا جائے جبکہ برسرزمین نئے حقائق سامنے لائے جائیں۔بالآخر فلسطینیوں کے پاس بعد میں امن عمل پر اثرانداز ہونے اور بات چیت کے لیے کچھ باقی نہیں بچے گا اور ان کے پاس اسرائیل کے مسلط کردہ محدود آپشنز کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔