غزہ کے محاصرے کے خلاف عوامی کمیٹی کے صدر جمال خضری نے اس ماہ کے اختتام پر لیبیا میں ہونے والی عرب کانفرنس سے غزہ کے دورے کے لئے کے اعلی سطحی وفد کی تشکیل اور اسرائیلی محاصرے کے خاتمے کے لئے واضح اور فیصلہ کن مؤقف اختیار کرنے کی اپیل کی ہے،
’’مرکز اطلاعات فلسطین ‘‘سے اپنے خصوصی انٹرویو میں جمال خضری نے عرب کانفرنس سے ارض فلسطین کے مقدس مقامات کو یہودیانے او ر صہیونی جارحیت سے بچانے کے لئے فیصلہ کن اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا- خضری کا کہنا تھا کہ غزہ کے محاصرے کے بارے میں صہیونی گمراہ کن پروپیگنڈہ ناکامی سے دوچار ہے اور اب فلسطینی ذرا ئع کی درست معلومات نے اپنی جگہ بنا لی ہے، جس کی وجہ سے حالات میں توازن پیدا ہوااور دنیا کے مختلف گوشوں سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ہیں- اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا کہ اپریل کے دوران ترکی، یونان اورقبرص کے ساحلوں سے فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے بحری جہاز غزہ پہنچ جائیں گے- خضری نے واضح کیا قابض قوتوں کی رکاوٹوں کے سبب کچھ عرصہ توقف کے بعد تحریک انتفاضہ دوبارہ شروع ہوگئی ہے- غزہ کے محاصرے کے خلاف بنائی گئی عوامی کمیٹی کے صدر نے صہیونی چیلنج کے سامنے مشترکہ جدوجہد کے لئے مختلف فلسطینی گروہوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا-
اس انٹرویو کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں
آپ نے صہیونی محاصرے کو ایک ہزار دن مکمل ہونے پر’’ایک ہزار دن کافی ہیں–اب غزہ کو آزاد ہونا ہے ‘‘کے عنوان سے مختلف نوعیت کی تقریبات کے ایک سلسلے کا اعلان کیا تھا- آپ کا ہدف کیا ہے؟ اور آپ کیا مقاصد ہیں؟ اب تک اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟
حصار میں ہزار دنوں کے گزرنے کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کی مشکلات، مصائب اور درد والم کے ہزار دن جس میں انہیں مسلسل صہیونی حملوں کا شکار ہونا پڑا- اس طرح یہ ایام دراصل صبر، برداشت اور مصائب کے سامنے کھڑے رہنے کے دن تھے – رنج والم کے اس خوفناک دور سے گزرنے کے بعد اب ہم عالم عرب، عالم اسلام، بین الاقوامی تنظیموں اور آزاد خیال دنیا سے مطالبہ کررہے ہیں کہ محاصرے کے ہزار دن گزر چکے ہیں اب آزادی غزہ کی مقدر بن چکی ہے – لہذا حصار کے ان ایام میں ہم پر بیتنے والے مظالم پر سنجیدگی سے غور کیا جائے-
اس ضمن میں اب تک کیے گئے کاموں میں سے ایک سب سے پہلی تقریب یہ ہوگی کہ ایک نامعلوم مقام پر ہزار شمعیں روشن کی جائیں گی- اسی طرح اس ضمن میں تھیٹر ورک بھی کیا گیااور میں نے مصر کا دورہ کیاجہاں میں نے عرب پارلیمنٹ کے سامنے صورتحال کو پریزینٹیشن کے ذریعے واضح کیا-
اسی طرح ہم اتوار کے روز ہم نے بیت حانون کی کراسنگ میں ایک دھرنے کے انتظامات بھی مکمل کرلئے ہیں جس میں بچے ، اسرائیلی مظالم کے شکار شہری اور مشہور شخصیات شرکت کریں گی- تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے اس کراسنگ اور ہماری جماعتوں پر قابض قوتوں نے قبضہ کررکھا ہے- ہم یہ دھرنا اس لئے دے رہے ہیں تاکہ ہم کہ سکیں ’’ہمارے عوام کے سامنے یہ دروازے کھولو، اور ہمیں اپنے ہی ملک دوسرے حصوں سے جانے سے روکاجارہا ہے حتی کہ ضروریات زندگی کی ترسیل بھی نہیں ہونے دی جارہی، اس سب کی ذمہ دار قابض فورسز ہیں-اپنی قوم کے جوانوں، عرب اور اسلامی دنیا، عالمی برادری اورآزاد دنیا سے بھی ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ دنیابھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے تقریبات کا اہتمام کیاجائے- اسی طرح عرب اور غیر عرب نوجوانوں کی جانب سے ’’محاصرے اور مزاحمت کے ہزار دن ‘‘کے عنوان سے ایک الیکٹرونک مہم بھی شروع کی جارہی ہے-
محاصرے کے ہزار دن گزرنے کے بعد پیدا ہونے والے اثرات کے بارے میں کوئی اعداد وشمار پیش کرنا پسند کریں گے؟
اس ضمن میں اعداد وشمار مبہم ہیں جن کی تصدیق نہیں کی جاسکتی تاہم ہم کہ سکتے ہیں کہ غزہ کی پٹی پر بسنے والے80فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، 40فیصد کے پاس کوئی روزگار نہیں، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح 65 فیصد ہوگئی ہے- 3500ورکشاپ اور فیکٹریاں اورکمپنیاں بند ہوچکی ہیں جس کا مطلب ہے کہ غزہ میں فی کس آمدن کی شرح محض دو ڈالر رہ گئی- اس طرح 10لاکھ فلسطینی زندہ ہیں- یہاں کے 50فیصد بچے غیر معیاری خوراک ، ادویہ اور انسانی امداد کی قلت کی وجہ سے مختلف امراض کاشکار ہیں – پانی کا 90فیصد حصہ پینے کے قابل نہیں اسی طرح 50 فیصد رہائشیوں کے لئے ہفتے میں تین دن سے زیادہ پینے کے پانی بھی بند کردیا جاتا ہے- ایک دن میں کم سے کم بھی بجلی کی بندش بھی 8گھنٹے ہوتی ہے- اسی طرح یہاں سے 4کروڑ لٹر سیور ج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر میں شامل ہورہا ہے- یہاں کے تعلیمی نظام کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے- قابض قوتوں نے تعلیمی عمل کے تسلسل کے لئے ضروری تعمیرات اسی طرح اسٹیشنری کی فراہمی پر مکمل پابندی لگارکھی ہے- اس شعبے میں بہت سے اہم پروجیکٹس صہیونی قوتوں کے محاصرے کی وجہ سے مکمل طور پر کھٹائی کا شکار ہوچکے ہیں-
پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے وفود نے فلسطینی عوام سے اظہار یک جہتی کے لئے غزہ کی پٹی کے دورے کیے- فلسطینی نمائندوں کی ان وفود سے کیا توقع ہے؟ ان وفود نے غزہ کی پٹی کا محاصر ہ ختم کرنے کے لئے پہلے سے کیا اقدامات کیے ہیں ؟ کیا آنے والے دنوں میں آپ غزہ کی پٹی کے دوروں کی بھرپور تحریک دیکھ رہے ہیں ؟
وفود کی جانب سے غزہ کی پٹی کا دورہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، ان دوروں کی رفتار میں اضافہ بہت ضروری ہے کیونکہ غزہ آنے والا ہر وفد ایک خاص تاثر لے کرجاتاہے وہ یہاں کی حقیقی تصویر سے آشنائی حاصل کرلیتا ہے-یہاں پر موجود مصائب،تکالیف، صبروبرداشت کا مشاہدہ کرتاہے اور اسی طرح قابض قوتوں کی جانب سے پھیلائی گئی تباہی، تمام شعبہ ہائے زندگی کی مخدوش حالت کے بارے میں آگاہی اور درحقیقت اس بات کا ادراک لیتا ہے کہ یہاں بسنے والے اپنے ساتھ کیے جانے والے مظالم کے باوجود کس طرح صبر، حوصلے کا مظاہرہ کررہے ہیں اور کس طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے- پس جو کوئی بھی یہاں آتا ہے وہ ہمیں مبارکباد دیتا ہے اور یہاں سے جانے کے بعد ہماری جماعت کا سفیر بن جاتا ہے- وہ فلسطینیوں کی تکالیف اور پریشانیوں کو دنیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش کرتا ہے- اس چیز کے مثبت نتائج پیدا ہو رہے ہیں اور عالم عرب اور عالمی برادری میں ہمارے مسائل کی آگاہی پیدا ہورہی ہے بلکہ اب یہ خبر بھی سننے میں آرہی ہے کہ امریکی کانگریس کے 45ارکان ایک مہم کاآغاز کررہے ہیں جس میں وہ امریکا پر یہ دبائو ڈالیں گے کہ وہ قابض قوتوں کو غزہ کا محاصرہ ختم پر مجبور کرے- اسی طر ح کئی عرب ممالک کے دارالخلافاؤں میں محاصرے کے خلاف مہمات کا آغاز کیا جارہا ہے- چنانچہ بیرون دنیا کے یہ دورے اور پھر ان کی طرف سے محاصرے کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات بہت موثر ثابت ہوتے ہیں- یہ ہی وجہ ہے کہ محاصرے کا مسئلہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکاہے- افسوس یہ ہے کہ ابھی تک عالمی برداری نے قابض اسرائیلیوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی جانب کوئی اقدام نہیں اٹھایا- حالانکہ اسرائیل تمام عالمی قوانین، جنیوا کنونشن اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے-درحقیقت یہاں کے رہائشیوں کو مجموعی سزا دی جارہی ہے جو دنیا کے ہر قانون میں نا جائز ہے-
پچھلے دنوں خشکی کے راستے غزہ کا دورہ کرنے والے وفود کو مصری حکام نے روک لیا تھا- اور ان کو بھرپور تلاشی کے بعد ہی غز ہ کی پٹی میں داخلے کی اجازت دی گئی – کیا ان وفود کا خشکی کے بجائے بحری راستے کے ذریعے دورہ کرنے کا کوئی امکان ہے؟
سمندری جہازوں کے محاصرے کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے پچھلی مرتبہ قابض قوتوں نے ان جہازوں کو روک لیا اور اس پرسوار لوگوں کو گرفتار کرکے ان کو مجبورا ًواپس بھیج دیا- جس کی وجہ سے کچھ عرصہ تک یہ سرگرمیاں رک گئیں مگر یہ اقدامات عنقریب نئے انداز سے شروع ہوجائیں گے- لہذا اپریل میں سمندری جہازوں کا ایک گروپ غزہ میں آئے گا- اوریہ محاصرہ توڑنے کے لئے ترکی، یونان، قبرص اور کئی دیگر ممالک کی بندرگاہوں سے ہوتاہواغزہ پہنچے گا-سمندری جہازوں کے انتفاضہ کے دوبارہ آغاز کے حوالے سے یہ سب اقدامات بہت اہم ہیں-
محاصرے کو چار سال گزرنے چکے ہیں اس سارے عرصے حاصل ہونے والی کامبابیاں کیا تھیں؟
آج صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ محاصرے کے خلاف عوامی مزاحمت بھر پور طریقے سے بیدار ہوچکی ہے اور اب یہ عوام کی مشکلات دنیا کو دکھانے کے قابل ہے اسی طرح دنیابھر میں اس مزاحمت کے حامی پیدا ہوچکے ہیں – ہم دیکھ رہے ہیں کہ صہیونی پروپیگنڈہ دم توڑ رہا ہے اور اس کی جگہ فلسطینی مبنی بر حقیقت معلومات لے رہے ہیں جو کہ ماضی کی اہم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے – اس کی وجہ سے ایک طرح کاتوازن پیدا ہوگیاہے حالانکہ اس سے پہلے غیر فلسطینی اور مغربی ممالک میں فلسطینی مسئلے کے بارے میں غلط فہمیاں تھیں-وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم لوگ ظلم کررہے ہیں، لیکن آج ہماری مشکلات اورصہیونی قوتوں کے جرائم کھل کر دنیاکے سامنے آچکے ہیں جس کے نتیجے میں اب اکثر مغربی ممالک میں قابض قوتوں کے احتساب کے مطالبات کیے جارہے ہیں- اسی طرح فلسطینی قوم کی بہادری اورقربانیاں بھی آپ سب کے سامنے عیاں ہیں کہ اس صابر قوم نے چار سالہ طویل عرصے کی مشکلات کے باوجود کس طرح استقلال کا مظاہر ہ کیا- ہماری قوم نے اس عرصے میں صبر،ایجادات اور زندگی گزارنے کے نئے نئے ڈھنگ دریافت کیے ہیں اوریہ طریقے ہماری ایجادات شمار ہوتے ہیں-میرے خیال میں ان سب چیزوں میں سب سے اہم اس قوم کا اللہ پر یقین ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اہل حق ہیں اور ان کو خاص نصرت حاصل ہے- اسی یقین کی بدولت وہ کسی کے سامنے نہ جھکے اور نہ ہی انہوں نے کسی سے مدد مانگی- وہ ہمیشہ اپنے مؤقف پر قائم رہیں گے کیونکہ اہل حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں اور حق کا علم تھامے رکھیں- پس ہر فلسطینی قابض قوتوں کا ہدف ہے- اب ان چیلنچز سے نمٹنے کے لئے اتحاد کی اشد ضرورت ہے- فلسطینیوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے لیکن ہماری قوم اس لڑائی میں بہادری کامظاہرہ کرتی رہے گی-
نظر آنے والے غموں میں دائمی راحت:
غزہ کے حصار کو ختم کرنے کی کمیٹی کے صدر کے طور پر اپنی خدمات کے بارے میں بتائیے- آپ کو کیا مشکلات درپیش رہیں اور آپ نے ان پر کیسے قابو پایا؟
ہمیں بہت سی مشکلات درپیش رہیں مگر جس نے ہم پر سب سے زیادہ اثر کیا وہ یہ تھی کہ ہمارے مریضوں کو قابض قوتوں نے بڑی مضحکہ خیز وجوہات کی بنا پر سفر کرنے سے روک دیا اوریہ مریض کچھ دن زندہ رہے اور پھر فوت ہوگئے جس کا ہم پر بہت اثرہوا- جیسا کہ عالیہ اور کچھ دیگر لوگوں کی مثالیں ہیں- یہ ہی صورتحال ان بچوں کی تھی جن کے والدین میں سے کوئی ایک گم گیاتھا یہ وہ چیزیں تھیں جس کاہم پر بہت اثر ہوا- اس کے بعد غزہ میں ہم سے ایک میڈیسن کمپنی کے مالکان کا رابطہ ہوا جنہوں نے ہمیں بتایا کہ قابض قوتوں کی جانب سے خام مال ان تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ان کی فیکٹری نے کام کرنا ختم کردیا ہے- اب ان کے پاس کوئی ایسی دوائی یا خام مال موجود نہیں ہے جو لوگوں کو استعمال کے لئے مہیا کیا جاسکے- ہم نے فیکٹری کا دورہ کیا اور میڈیا کے تمام ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے اس فیکٹری کے اندرایک کانفرنس کا اہتمام کیا-جس کے بہت اثرات مرتب ہوئے اور مغرب اور قابض قوتوں پر دباؤ بڑھا جس کی وجہ سے انہوں نے دوائی فیکٹری کے مالکان کو کچھ خام مال مہیا کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ کچھ دوائیاں بنا سکیں- اس طرح ہماری مصائب میں کچھ کمی ہوئی اگرچہ یہ زندگی کے صرف ایک پہلو پر ہی مشتمل تھی-
پہلے محاصرے کا خاتمہ:
سیاسی اختلافات سے ماورا ہوکر اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا پو ل د نیا کے سامنے کھولنا آپ کے اہداف میں سے ہے جبکہ یہ واضح ہے کہ سیاسی طرز عمل اس مقصد پر اثر انداز ہورہا ہے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے آپ کیا کر رہے ہیں؟
ہم نے ایک انسانی مسئلے پر کام کررہے ہیں جس کا تعلق زندگی، صحت، تعلیم اور آزادی اور حفاظت کے ساتھ حرکت کرنے کے انسانی حقوق سے متعلق ہے- ہم نے کہا ہے کہ سیاسی مسائل کے انسانی مسائل کے تعلق ہونے کے باوجود انسانی بنیادوں پر قائم ان مسائل کے حل تک سیاسی اختلافات کی فائلیں بند کردی جائیں- یہ ہی وجہ ہے کہ محاصرے کا قضیہ دوسرے مسائل سے الگ رکھا گیا ہے – کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ڈیڑھ ملین لوگوں کی زندگیوں کو دوسرے مسائل کے ذریعے دائو پر لگایا جائے- فی الوقت ہم پر لازم ہے کہ اتحاد کے حصول کے لئے ہر طرح کی تقسیم کو ختم کریں لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے کہ محاصرے کے خلاف کھڑے ہونے سے روک جائیں، چنانچہ دیگر تمام مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے بھی محاصرے کو لازمی طور پر ختم ہونا ہوگا-
ہماری مشکلات میں کمی اور ہمارے قیدیوں کو آزاد کرو
آپ عرب کانفرنس کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ غزہ کے محاصرے کا مسئلہ ان کی پہلی ترجیح ہونا چاہیے، اس مسئلہ پر واضح فیصلے کی ضرورت ہے یہ فیصلہ ایسا ہو جس سے عالم عرب محاصرے کے خلاف اٹھ کھڑاہوجائے اور وہ صہیونی قوتوں کے مظالم کو روکنے میں ہماری مدد کریں اور اس ضمن میں محاصرے کے باوجود جاری ہمارے پروجیکٹس میں شریک ہو جائیں- عالم عرب سے یہ بھی گذارش ہے کہ وہ مقدس مقدمات کی حفاظت ، ان کو یہودی رنگ میں رنگنے اور مسلمانوں پر ظلم کو ختم کرائیں-غزہ کا دورہ کرنے کے لئے اعلی سطحی وفود کی تشکیل کریں- ان اقدامات سے فلسطینی قوم کے محاصرے کو ختم کرنے کے لئے بڑا اثر ہوگا-