پنج شنبه 01/می/2025

ماہر امور اسیران اور معروف محقق فواد الخفش سے خصوصی گفتگو

پیر 29-مارچ-2010

ماہر امور اسیران اور معروف محقق فواد الخفش کا کہنا ہے کہ قابض صہیونی فوج فلسطینی علما اوردانشوروں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کر رہی ہے تاکہ چھاپوں اور پکڑ دھکڑ سے تنگ آکر فلسطین کا یہ علمی خزانہ بیرون فلسطین ہجرت کر جائے اور انبیا کی سرزمین اہل علم افراد سے خالی ہو جائے۔ امور اسیران اور انسانی حقوق اسٹڈی سینٹر ”احرار” کے ڈائریکٹر فواد الخفش نے مرکز اطلاعات فلسطین کوخصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ”ماضی میں اسرائیل، فلسطینی دانشوروں کوقتل کرکے اپنا راستہ ہموار کرتا رہا ہے اور اب قید و بند کی تعذیب دیکر انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔”

دوران حراست عمر رسیدہ اہل علم فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کے ناروا سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فواد کا کہنا تھا کہ صہیونی جیلر، بزرگ فلسطینیوں سے انتہائی شرمناک اور توہین آمیز سلوک کر رہے ہیں۔ بزرگ قیدیوں کو نوجوان اسیروں کے سامنے بے لباس کرنے جیسے اہانت آمیز طریقے استعمال کرکے ان سے تفتیش کی جاتی ہے۔ رسوائے زمانہ تفتیشی حربوں کے ذریعے اس تربیتی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے جو فلسطینی معاشرے کا خاصہ شمار کیا جاتا ہے۔ فواد الخفش نے اپنی گفتگو میں اسرائیلی جیل میں قید تین نامور فلسطینی سائنسدانوں کا ذکر کیا جن میں سے ایک النجاح یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر اور نامور سائنسدان ڈاکٹر عصام راشد ہیں۔ دوران اسیری پروفیسر راشد متعدد امراض میں مبتلا ہیں۔ انہیں بلند فشار خون، شریانوں کی بندش جیسے پیچیدہ امراض لاحق ہیں جس کے باعث اس نابغہ روزگار علمی شخصیت کو دوران اسیری پہنچنے والی تکلیف دوسرے قیدیوں کی بہ نسبت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ فواد الخفش نے بتایا کہ اس وقت ایک ہزار مریض قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ رملہ کی جیل میں 34 اسیر دائمی امراض میں مبتلا ہیں۔

وہ کون سے حالات ہیں جن کی وجہ سے فلسطینی دانشوروں، علما اور اساتذہ کو گرفتار کر کے انہیں جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے؟

اسرائیل میں صرف علما و اصحاب ِ فکر ہی کو نہیں بلکہ ہر اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جو فلسطین میں کسی بھی طرح کا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ صہیونی دراصل فلسطین کی سرزمین کو ایسے لوگوں سے خالی کرانا چاہتے ہیں کہ جو عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ فلسطین سے علمی شخصیات کو ہجرت پر مجبور کرنے کی اسرائیلی پالیسی کی وجہ سے ہمیں یہودی جیل خانوں اور ٹارچر سیلوں میں اعلی تعلیم یافتہ افراد، طلبہ، اساتذہ اور ماہرین کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ اسی لئے دانشور اور دوسرے اصحاب علم ٹارچر سیلوں میں تڑپنے اور قید خانوں میں گھلنے کے بجائے ہجرت اور جلاوطنی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ صہیونی حکام علما کو معاف کرتے ہیں نہ انہیں اعلی تعلیم یافتہ افراد کا کوئی لحاظ ہے بلکہ ایک منصوبے کے تحت ان کی گرفتاری، تدلیل اور پھر سرنڈر کروانے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ بیشتر حالات میں انہیں کسی الزام اورعدالت میں پیش کئے بغیر نظر بند کر دیا جاتا ہے۔ انکا سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ وہ کسی یونیورسٹی کے معزز پروفیسر ہیں، یا کسی ہسپتال کے ڈاکٹر، یا وہ دانشور ہیں یا اعلی درجے کے روشن خیال انسان! انہیں لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور معاشرہ ان سے اثر قبول کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیل نے علما اور فکری قیادت کو محض اس بنا پر قتل و غارت کا نشانہ بنایا ہے کہ ان کی پختہ فکر عرب معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ گرفتاریاں بھی اسی منصوبے کا اگلا قدم ہیں۔

کیا آپ کے پاس گرفتار علما اور ان کے شعبہ تخصص کے بارے میں تفصیلی معلومات ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اسوقت بھی یونیورسٹی کے تین پروفیسر صاحبان اسرائیل کی قید میں ہیں۔ اسیر پروفیسر صاحباں کے نام یہ ہیں:

ڈاکٹر عصام راشد، پی ایچ ڈی فزکس، النجاح یونیورسٹی
ڈاکٹر غسان خالد، پی ایچ ڈی ایجوکیشن و نفسیات، النجاح یونیورسٹی
ڈاکٹر محمد الصلیبی، پی ایچ ڈی شریعہ، النجاح یونیورسٹی
متعدد پی ایچ ڈی پروفیسروں کی ایک بڑی تعداد کو حال ہی میں اسرائیلی زندانوں سے رہائی ملی ہے۔ رہائی پانے والوں میں چند نمایاں نام یہ ہیں:
ڈاکٹر ناصر الشاعر
ڈاکٹر ناصر عبد الجواد
ڈاکٹر ابراہیم ابو سالم
اس کے علاوہ فلسطینی مجلس قانون ساز کے چند اسیر ارکان کو حال ہی میں رہائی ملی ہے جبکہ ایک بڑی تعداد جیل کا پھاٹک کھلنے کی منتظر ہے۔

ان اسیروں میں ڈاکٹر عصام الدین الاشقر کا کیس بہت نمایاں ہے۔ انہیں درپیش مشکلات آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

پروفیسر الاشقر کی مشکلات
 واقعی ڈاکٹر عصام الدین دیگر قیدیوں کے مقابلے میں شدید مصائب کا شکار ہیں۔ عمر رسیدہ پروفیسرعصام النجاح یونیورسٹی میں طبیعات پڑھاتے ہی۔ آپ دائمی بلند فشار خون اور شریانوں کی بندش جیسے امراض میں مبتلا ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر عصام کا کیس دوسرے فلسطینی اسیروں سے مختلف ہے۔سرکردہ سائنسدان ڈاکٹر عصام کی زندگی کا اکثر حصہ کتب بینی ، تجربہ گاہوں اور تحقیق میں گزرا۔ ان کے ہاتھ بندوق کے لمس سے نا آشنا رہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی فدائی حملہ آوروں اور مزاحمت کاروں کے ہمراہ اگلی صفوں میں تربیت حاصل کی۔ اسی لئے جیل کا ذکر بھی ان جیسی شخصیت کے لئے گراں گزرتا ہے۔ ڈاکٹر عصام کو ایسے انداز میں پابند سلاسل رکھنے کی اس کے سوا اور کوئی تاویل پیش نہیں کی جا سکتی کہ اسرائیل ایسے روشن دماغوں سے فلسطینی قوم کو ہمیشہ کے لئے محروم کرنا چاہتا ہے۔ڈاکٹر عصام کی اسرائیلی جیلرز کے ہاتھوں تعذیب کا یہ تیسرا تجربہ ہے۔ ہر مرتبہ نظر بندی میں ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔ اس مرتبہ تو قابض حکام نے ظلم کی حد کر دی۔ انہیں گھر سے ضروری ادویات کے ساتھ حراست میں لے کر ہسپتال داخل کرایا گیا۔ بستر مرض پر ہی ایک فوجی جج کو شفاخانے طلب کر کے ان کی نظر بندی کی مدت میں توسیع کا ”حکم” جاری کرایا گیا!! اس روشن چہرہ اور باہمت یونیورسٹی پروفیسر کے مصائب کو دو چند بنانے کے لئے اسرائیلی پہرے داروں نے ان کے اہل خانہ سے ملاقات پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ انہیں اپنی اہلیہ اور دوسرے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت نہیں۔ اس ناروا پابندی کے ذریعے ڈاکٹر عصام پر دباؤ بڑھا کر نفیساتی شکست و ریخت کا شکار کرنا ہے تاکہ ان کا عزم توڑا جا سکے۔ مسلسل جیل میں بندش کی وجہ سے ڈاکٹر عصام کے نوجوان بیٹوں کو باپ کی شفقت سے محروم کر دیا گیا۔ نظر بندی کی سزا بجائے خود قیدی اور اس کے اہل خانہ کے لئے کٹھن مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ نظر بندی کی حالت میں رہائی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ قیدی اور اس کے لواحقین رہائی اور نظری بندی میں توسیع کی سولی پر ہمشیہ لٹکے رہتے ہیں۔ بعض اوقات رہائی کے ایک گھنٹہ پہلے ہی نظر بندی میں توسیع کا پروانہ جاری کر دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کردار

اس معاملے میں حقوق انسانی کی تنظیموں کا کیا کردار ہے؟ دوران اسیری مصائب کے شکار لوگوں کی مدد کے لئے وہ کیا کر رہی ہیں؟؟

مجھے یہ حقیقت بیان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ حقوق انسانی کی انجمنیں مذمتی بیانات اور اپیلوں کے سوا کچھ نہیں کر پاتیں۔ اپیلوں اور بیانات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں تاہم یہ ہمارا ہدف نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے تک کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ سرگرم، سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔امور اسیران اور انسانی حقوق اسٹڈی سینٹر ”احرار” ہی وہ واحد پلیٹ فارم ہے جہاں سے ہم نے پروفیسر ڈاکٹر الاشقر اور دوسرے دانشوروں کو جیل میں درپیش مسائل کی بابت آواز اٹھائی ہے۔ ہم نے ”اسرائیلی جیلوں سے عقل و دانش کی رہائی” کے عنوان سے ایک مہم چلا کر ڈاکٹر عصام الاشقر سمیت ڈاکٹر غسان ذوقان اور النجاح یونیورسٹی میں شریعت کے پروفیسر ڈاکٹر محمد صلیبی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے برطانیہ کی ”مڈل ایسٹ مانیٹر” اور ویانا میں سرگرم ”فرینڈز آف ہیومن” جیسی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی انجمنوں سے خط و کتابت کر کے ان اسیروں کی داستان غم پر روشنی ڈالی ہے۔اسرائیل کی جانب سے فلسطینی دانشوروں کو پابند سلاسل کرنے کی آپ کیا توجیہ پیش کرتے ہیں؟ کیا ماضی میں بھی ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ تل ابیب اس کے ذریعے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے؟جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اسرائیل روشن دماغوں، صاحباں علم اور ہر اس انسان کو پابند سلاسل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ جو مثبت انداز میں اپنے ملک کی خدمت کر سکتا ہو۔ اس اقدام کے ذریعے وہ فلسطینی سرزمین کو اصحاب علم سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر عصام، امریکا سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے باہر ملازمت کی پیشکش کو ٹھکرا کر فلسطین میں خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دی اور اسی لئے وطن واپس لوٹے۔ نتیجتاً انہیں قید و بند کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

 ہم دوبارہ بیمار قیدیوں کے مصائب کی جانب آتے ہیں۔ انکی کیا تعداد ہے اور انہیں کونسے لاعلاج امراض لاحق ہیں؟

اسرائیلی زندانوں میں اس وقت متعدد قیدی ایسے ہیں جو دائمی امراض میں مبتلا ہیں جبکہ دوسری کیٹیگری ان قیدی مریضوں کی ہے کہ جو عارضی طور پر بیمار پڑتے ہیں۔صہیونی انتظام میں چلنے والی رملہ جیل میں ہر وقت 28 سے 38 ایسے قیدی موجود رہتے ہیں کہ جنہیں کوئی نہ کوئی دائمی مرض لاحق ہوتا ہے۔ یہاں قید ایک ہزار اسیر شوگر، بلند فشار خون، دل اور شریانوں کی بندش جیسے امراض میں مبتلا ہیں۔یہاں نابلس سے تعلق رکھنے والے مریض اسیر زھیر لیادہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جن کے گردوں کی صفائی جیل کے اہسپتال میں کی جاتی ہے۔ احمد النجار منہ میں سرطان کی وجہ سے بات کرنے کے قابل نہیں۔ نیز فلسطینی اسیر خالد ابو شاویش کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے دوسرے اسیر بھی دائمی امراض میں مبتلا ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی