یکشنبه 11/می/2025

حرم ابراہیمی: اسرائیلی خواہشات کو ناکام بنانے کی عمیق تاریخ

جمعرات 4-مارچ-2010

 مقبوضہ فلسطین میں مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں واقع حرم ابراہیمی کو مرمت کی آڑ میں "اسرائیلی تاریخی ورثے” کی فہرست میں شامل کرنا دراصل اس منصوبے کا حصہ ہے جس پرعمل کرتے ہوئےغاصب صہیونی مسجدکے ہال پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس مقدس مقام کی اسلامی شناخت ختم کر کے یہاں یہودی صومعہ تعمیر کیا جا سکے۔

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات اورادارے اس اسرائیلی فیصلے کی مذمت کر رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے اس پرعملدرآمد رکوانے کے لئے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ حرم ابراہیمی کی دینی اہمیت کی وجہ سے شدید عوامی ردعمل کا سلسلہ فلسطین کی جغرافیائی سرحدوں سے باہر بھی دیکھنے میں آیا۔ مسجد ابراہیمی کو فلسطین میں مسجد اقصی کے بعد دوسری مقدس جگہ کا اعزاز حاصل ہے۔ اس جگہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ، آپ کی اہلیہ حضرت سارہ، حضرت اسحاق، حضرت اسماعیل، حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیھم السلام اور ان کی پاکباز زوجات سمیت متعدد دوسرے انبیاء آسودہ  خاک ہیں۔

بودے  اسرائیلی دلائل

حرم ابراہیمی کو اسرائیلی تاریخی ورثہ قرار دینےکے فیصلےکا دفاع کرتے ہوئے  قابض حکام یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے  یہ قدم اس تاریخی مقام کی حفاظت  کے ضمن میں مسلمانوں کی بے توجہی کی وجہ سے اٹھایا ہے ۔ الخلیل ضلع کے اسلامی بلاک سے تعلق رکھنے والے رکن فلسطینی مجلس قانون ساز ڈاکٹر محمد ماہر بدر نے اس بودی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس دیرینہ پالیسی کی آڑ میں مقدس مقامات کے خلاف اپنی جارحیت کا جواز پیش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد اقصی زیر زمین سرنگوں اور اردگرد ہونے والی کھدائیوں کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے، بعینہ مسجد ابراہیمی بھی سیکیورٹی فورسسز کے  مسلسل محاصرے میں ہے۔  صہیونیوں کی طرف سے مسجد پر قبضے کی کوشش اوربے حرمتی کے واقعات چالیس برسوں سے جاری ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد مسجد ابراہیمی کے  بڑے حصے کو یہودی معبد بنا کر وہاں تلمودی تعلیمات کی بجا آوری ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ماہر بدر نے کہا  کہ اسرائیل ان طریقوں کو  اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے  بطور کور استعمال کرتا ہے۔ حرم ابراہیمی کے متولی ہر ممکنہ طریقے سے اس کی دیکھ بھال کر تے ہیں لیکن اسرائیلی ان کے فرائض کی انجام دہی میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ تعمیر و مرمت کے لئے مزدوروں کو صرف آدھے گھنٹے کے لئے مسجد داخلے کی اجازت دی جاتی ہے اور پھر سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر انہیں باہر نکال دیا جاتا۔ یہ مزدور گھنٹوں مسجد سے باہر انتظار کرتے رہتے ہیں۔ صہیونی حکام روزانہ ایسا کر کے ان کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

ڈاکٹر بدر کے بہ قول بنجمن نیتن یاہو حکومت ان اقدامات کی آڑ میں مقدسات اسلامیہ پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اہالیان الخلیل ہزاروں برس سے حرم ابراہیمی کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان گھروں کو الخلیل کے باسیوں نے تمام مادی اور معنوی وسائل بروئے کار لا کر تعمیر کیا۔ ہم کسی کو تعمیرو مرمت کی بازگشت میں اسلامی حرم کی شناخت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔  انہوں نے فلسطینی عوام اور اہالیان الخلیل سے اپیل کی وہ حرم ابراہیمی میں نماز، ذکر، دعا اور اعتکاف بیٹھ کر اس کی رونق بڑھائیں۔

فتحاوی سازش اور خنجر زنی

رکن اسمبلی ڈاکٹر بدر نے عباس ملیشیا کی جانب سے گذشتہ دنوں فلسطینی نوجوانوں کو حرم ابراہیمی کے دفاع میں اسرائیلی فوج کو للکارنے اوران پر سنگ باری سے روکنے کے اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور کہا  کہ ہماری بد قسمتی ہے کہ حرم کی طرف جانے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے عباس ملیشیا نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اورمختلف چوراہوں پر پھیل گئے۔ رام اللہ اتھارٹی کو جوابدہ ان "جوانوں” نے لوگوں کو دھمکایا کہ سیکیورٹی خدشات کیوجہ حرم ابراہیمی کی تالا بندی کر دی گئی ہے اور قابض اسرائیلی فوجی اس تک جانے سے روک رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ عباس ملیشیا کے اقدامات حرم ابراہیمی کی توہین اور اس کے دفاع میں پیش پیش مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہیں۔  بہ قول ڈاکٹر بدر انہی فورسسز  کی وجہ سے حرم ابراہیمی تک مارچ کی عوامی کوششیں ناکام ہوئیں۔ ہم اس مقدس حرم کے متولی  کے طور پر عباس اتھارٹی سے مقدسات اسلامیہ کی بے حرمتی پر مبنی حرکتوں سے باز رہنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

عباس ملیشیا نے اسرائیلی فوجیوں پر پتھراو کرنے والوں کو مارا پیٹا اور انہیں میدان کارزار سے دور بھگانے اور گرفتار کرنے کی خاطر ان کا پیچھا کیا۔ شہریوں نے "نیشنل سیکیورٹی” اور "محافظ پولیس” کے تعنیات کردہ مسلح اہلکاروں اور ان کی گاڑیوں پر پتھراو بھی کیا۔ یہ پتھراو دراصل عباس ملیشیا کے اسرائیل حمایتی کردار کے خلاف عوامی غیظ و غضب کا مظہر تھا۔

ایک دکان کے مالک فلسطینی شہری فواد عیسی کا کہنا تھا کہ "حکم کے غلام جو کچھ کر رہے ہیں وہ شرمناک ضرور ہے  مگر نیا ہر گز نہیں۔ یہ سیکیورٹی ادارے عوام اور حرم ابراہیمی کی حفاظت کرنے کے بجائے اس مقدس حرم کی نصرت میں کئے جانے اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ میری رائے میں یہ سب ایک کھلا راز ہے اور اس کی کوئی اور توجیہ پیش نہیں کی جا سکتی۔”

اس سب کے باوجود درجنوں نوجوان قابض اسرائیلی فوج کے سامنے سینہ سپر رہے۔ اسرائیلی فیصلے کے خلاف انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے سٹرکوں پر ٹائر جلائے اور شہر کے تنگ راستوں میں قائم  فوج کے مانیٹرنگ ٹاورز پر حملے کئے۔  اس کے ساتھ تاجروں نے ہڑتال کی اور طلبہ نے ریلیاں نکالیں۔

بڑے پیمانے پر تنقید و مذمت

واضح رہے کہ اسرائیلی فیصلے کے اعلان کے بعد  بطور ردعمل اب تک مختلف  فلسطینی گروہوں، کیمونٹی، مذہبی، انسانی حقوق کی تنظیموں، شخصیات اور مختلف گروپوں نے درجنوں تردیدی بیانات منظر عام پر آچکے ہیں۔ عالم اسلام اور عرب کی مختلف تنظیموں کا باقاعدہ ردعمل اس کے علاوہ ہے۔ سب نے پر زور انداز میں اس یہودی فیصلے پر اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔  انہوں نے اسلامی ورثے میں جعلسازی اور اس کی علانیہ چوری کی پر زور مذمت کی ہے۔

متعدد ارکان اسمبلی اور اہالیاں علاقہ حرم ابراہیمی کے فیلڈ وزٹ کر چکے ہیں۔ ایسے دورے کرنے والوں میں ڈاکٹر حاتم قفیشہ، ڈاکٹر ماہر بدر، رکن اسمبلی مصطفی برغوثی سمیت مقامی اور قومی سطح کی مختلف فلسطینی شخصیات شامل ہیں۔

صہیونی جرائم کے خلاف عوامی ردعمل کی کوریج  کے لئے مقامی، عرب اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ  کی بڑی تعداد حرم ابراہیمی کے اردگرد موجود رہی۔ امسال عوامی احتجاج کا یہ سلسلہ حرم ابراہیمی میں دہشت گرد یہودی باروخ گولڈ اسٹائن کے ہاتھوں پچاس افراد کی شہادت اور سیکڑوں کے زخمی و معذور ہونے کی سولہویں برسی کے موقع پر ہوا

عمیق البنیاد اسلامی تاریخ

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم ابراہیمی چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا ۔ چار قبل مسیح سے 37 قبل مسیح کے درمیان مسند اقتدار پر فائر رہنے والے عرب الوڈومیین بادشاہ "ہیرڈ بن اینٹی یپٹر الوڈومی”نے اس عمارت کے لئے پتھر مہیا کئے۔ انہوں نے انبیاء کی قبور کے گرد 46 میٹر  لمبی اور 23 میٹر چوڑی  دیوار تعمیر کروائی۔ ان کے دور میں تیرہ راہداریاں بھی تعمیر کرائی گئیں جن پر ملکہ ہیلانی نے سنہ 324 ء میں چھت تعمیر کرائی مگر بعد میں اہل فارس نے اسے گرا دیا۔بعد ازاں رومیوں نے دوبارہ اسے تعمیر کیا۔

  مسلمانوں نے اس علاقے کو 15 ہجری میں فتح کر کے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کر دیا کیونکہ بنیادی طور پر یہ عمارت مسجد ہی کے طور پر بنائی گئی تھی۔ اس دعوی کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اسے قبل از اسلام بھی قبلہ رخ تعمیر کیا گیا تھا۔ اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں یہ مسجد صلیبی جنگوں تک قائم رہی۔ پھر صلیبی جنگوں کے دوران صلیبیوں نے 90 سال تک اسے  بڑا گرجا گھر بنائے رکھا۔ آخر کار سنہ 587 ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے آزاد کروایا۔ انہوں نےحرم ابراہیمی کے متولی کا تقرر کیا اور اس کی دیکھ بھال کے لئے دس خاندانوں کو ذمہ داری سونپی ۔

  سنہ 1967 ء تک یہ اس جگہ کی شناخت اسلامی مقام برقرار رہی، پھر حتی کہ اس سال 8 جون کو اس پرقابض صہیونی فوج نے اسرائیلی پرچم لہرایا۔ اس سب کے باوجود یہ مقام اسلامی مسجد کے طورپر برقرار رہا۔ سنہ 1994 ء میں حرم ابراہیمی کا مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔اب بھی اس مسجد پر حملے کیے جاتے ہیں ۔ اس مسجد کے اردگرد  قدیمی بلدیہ تک رسائی بند کر دی گئی اور وہاں واقع پانچ سو سے زیادہ دکانیں بند ہیں۔ ہر ماہ دسیوں مرتبہ مسجد ابراہیمی میں آذان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔
 

ظالمانہ معاہدے اور سازشیں

  مسجد کے گرد فلسطینیوں کے ملکیتی پانچ پلاٹوں پر قبضہ کر کے یہودیوں نے وہاں "ابراھام نیپال” نامی صہیونی سینٹر قائم کر دیا۔ ان جگہوں میں الحسبہ کا مرکزی بازار، تل الرمیدۃ کی کالونی میں "رامات یشائی”، مدرسہ اسامہ نامی فلسطینی سکول کی جگہ "بیت رومانو” اور الدبویہ گرلز سکول کی جگہ "بیت ھداسا” اور آرام گاہ میں "ہاٹی نیک سینٹر” قائم کر دیا گیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس علاقے میں پانچ سو یہودی رہائش پذیر ہیں۔

 حرم ابراہیمی "الخلیل پروٹوکول”کے تحت یہودی زیر قبضہ جانے والے علاقے میں واقع ہے۔ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سنہ 1996ء میں طے پایا تھا۔ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے اس وقت طے پانے الخلیل پروٹوکول کو فتح حکام کی جانب سے حرم ابراہیمی کے نظم و نسق سے خود کو فوری طور پر علاحدہ کرنے کے کا ایک اقدام قرار دیا تھا۔ اس کے بعد الخلیل معاہدے سمیت یہودیوں کے کئے جانے والے دوسرے معاہدات  پر نظر ثانی کے مطالبات زور پکڑتے گئے کیونکہ اسرائیلی حکومت ان معاہدات بالخصوص "الخلیل پروٹوکول” پر کسی درجے میں بھی عملدرآمد نہیں کر رہی تھی۔

مختصر لنک:

کاپی