قتل اور دہشت شروع دن سے اس ریاست کی پالیسی رہی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جرائم کا دوسرا نام اسرائیل ہے اور یہ ریاست وقتاََ فوقتاََ اس حقیقت کو ثابت بھی کرتی رہی۔ اس لئے یہ توقع رکھنا کہ کہ کبھی یہ ریاست اپنی سوچ میں تبدیلی لاسکے گی ناممکن نظرآتا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر اور دبئی میں فلسطینی رہنما کی شہادت کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بدمعاش ریاست کے ساتھ ایک طویل لمدتی جنگ کے حوالے سے چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ پہلی بات یہ ہے کہ مزاحمتی تحریک کو اسرائیل کے ساتھ قوت مزاحمت میں توازن لانے کی کوششوں پر توجہ دینی ہوگی۔ ہم حماس سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اکیلے اسرائیلی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہاں اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کو اسرائیلیوں کیلئے اتنا مہنگا اور مشکل بنانا ہے جتنا ممکن ہو سکے۔
اس حوالے سے حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کو اسرائیل کے خلاف ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی جہاں طاقت کا توازن ایسا ہو جو کسی حد تک متوازن ہو تاکہ اسرائیل کو کوئی نئی مہم شروع کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے اور اس کے ردعمل میں اسے کتنی ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
بات صرف عسکری صلاحیتوں تک کی ہی محدود نہیں بلکہ سیاسی اور سفارتی محاذ بھی قوت توازن میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم بارہ سال پیچھے جائیں جب عمان میں موساد نے حماس رہنما خالد مشعل کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں ناکام ہوئے۔ تب سے اسرائیلی نازی حکومت نے اردن میں ایسے حملے کرنے سے احتیاط برت لی۔ میں یہ بات نہیں کہہ رہا کہ اردن میں موساد ایجنٹ موجود نہیں ہیں ،لیکن اس ناکام حملے کے بعد وہ محتاط ہو گئے ۔اردن کے شاہ حسن کی طرف سے بھی سخت ردعمل آیا اور یہ بھی اس سلسلے کے رکنے کی ایک وجہ بنی مصر کو ہی دیکھیں جو ہر معاملے میں امریکی پالیسیوں کے آگے سرخم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے تاہم موساد کو مصری سرزمین میں آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ہے اور مصر اس پالیسی پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔یہ خوش آئند عمل ہے اور مصری حکومت کی اس حوالے سے سراہنا ہونی چاہئے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ حماس تمام عرب ممالک کو اسی طرح کا رویہ اپنانے کی پالیسی اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے اپنی کوششوں میں تیزی لائے
بے شک اس وقت پوری امت مسلمہ کی نظریں متحدہ عرب امارات بالخصوص دبئی کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ محمود مبحوح کے معاملے میں کیا اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں اور کیا وہ ایسی پالیسی وضع کر سکیں گے جس کی وجہ سے دوبار موساد ایسا آپریشن کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ بال اب دبئی کے کورٹ میں ہے تاہم ایک بات ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر دبئی حکومت نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی یا کسی کمزوری کا عندیہ دیا تو اس سے اسرائیلی مجرموں کے حوصلے بلند ہونگے اور وہ دوبارہ ایسی حرکات دہراتے رہیں گے۔
دوسری بات جو ہمیں ذہن نشین رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ صہیونیت کے ساتھ ہماری جنگ کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ ہمیں یہ جنگ بحیثیت مسلم امہ کے متحد ہوکے لڑنی ہے کیونکہ فلسطین کا معاملہ صرف فلسطین تک محدود نہیں یہ امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
یہ لڑائی صہیونی ریاست کے خاتمے تک کافی طویل عرصہ لے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں مختلف نشیب و فراز سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کیلئے ہر طرح کی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اس تاریخی لڑائی میں ہر مثبت کوشش اپنی اہمیت کی حامل ہو گی،چاہے یہ میڈریڈ میں صہیونیت مخالف مظاہرہ ہو یا بی بی سی ٹی وی کا وہ شو ہو جس میں صہیونی ریاست کے نازیوں والے کارنامے سامنے لائے گئے اور بالآخر اجتماعی کوششیں اپنا رنگ جمائیں گی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہر فلسطینی ،عربی اور مسلم امہ سے تعلق رکھنے والے صاحب علم با لخصوص جو انگریزی اور فرانسیسی زبانوں سے آشنا ہوں وہ اپنا وقت اور اپنی قوت وصلاحیت دنیا کی رائے عامہ ہموار کرنے میں استعمال کریں۔
ہمیں صہیونی نازی ازم کے خاتمے کیلئے ہر ممکنہ اقدام کرنا ہوگا۔ ہمیں ان کی اجتماعی شیطانی سوچ اور خوفناک تصویر کے ہر پہلو سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ہمیں جرمنی کے نازیوں اور صہیونیوں کی یکساں سوچ اور یکساں انسانیت کش پالیسیوںسے لوگوں کو باخبر کرنا پڑے گا۔
ہمیں دینا کو سمجھانے اور اس بات پر قائل کرنے کیلئے ہرممکنہ کوشش کرنی پڑ ے گی کہ اسرائیل بذات خود جرم کا ہی دوسرا نام ہے۔ ہمیں دلائل سے دنیا کو قائل کرنا پڑے گا کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا کیونکہ امن اور اسرائیل دو متضاد تصورات ہیں۔ مختصر الفاط میں ،یوں کہہ سکتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ اسرائیل کررہا ہے ،وہ حقائق دنیا تک پہنچیں اور اسرائیل اپنے جھوٹ کو سچ کا رنگ دینے میں کا میاب نہ ہو جائے۔
عرب اور مسلم برادری کو چاہئے کہ وہ اپنے قابل ترین لوگوں کوڈھونڈ نکال کر انہیں اسرائیل کا حقیقی روپ دنیا کے سامنے لانے کا کام تفویض کریں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو اس خطے میں انصاف اور امن لانے میں پھر زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن اب تک ہمارے کام کرنے کا طریقہ محدود ہی ہے اور نتائج بھی صاف ظاہر ہے، محدود ہی ہونگے۔
صہیونیوں نے مئوثر تنظیم سازی اور باریک بینی سے تیار کی گئی حکمت عملی سے مغرب کی رائے عامہ کواپنے حق میں کر دیا۔ انہیں سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس فاشسٹ، قاتل ریاست کے پالیسی سازوں نے یہ باور کرانے میں کافی کامیابی حاصل کی کہ مشرق وسطیٰ میں اگر کہیں جمہوریت موجود ہے تو واحد اسرائیل میں ہے۔
ہمیں جھوٹ کو سچ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں سیاہ کو سیاہ ہی ثابت کرنا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ صہیونیوں کا برتاؤ سامنے لانا ہے۔ فلسطینیوں کے مصائب سے انہیں آگاہ کرنا ہے ،جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہی کچھ انہیں دکھانا ہے اور انہیں سمجھانا ہے کہ یہ اس دور کے نازی ہیں
حقائق سامنے آنے کے بعد اسرائیل کا شیطانی روپ پھر ہر ایک کیلئے ناقابل برداشت ہو گا۔
میں نہیں کہہ رہا کہ یہ کل کی بات ہے لیکن دیر سویر ایسا ہی پھر ہوگا۔ آزاد سوچ کے مالک حق کو طاقت پر فوقیت دیتے ہیں ،ہم اسی حق کو دنیا کے سامنے لانے میں ہرممکنہ طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا اور سرعت سے کرنا ہو گا۔
جہاں تک شہید مبحوح کا تعلق ہے، قرآن کی سورةالقمر کی آیات 54-55 میں رب کا ارشاد ہے کہ
” ایسے لوگ باغوں اور نہروں کے درمیان بیٹھے ہونگے اپنے قادر متعلق خدا کے روبرو ۔۔ سبحان اللہ”
رہی بات اس کے قاتلوں کی ،جب تک سانس لیں گے شہید مبحوح کی روح ان کا پیچھا کرے گی اور جب موت سے ہمکنار ہونگے تو جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا۔۔