پنج شنبه 01/می/2025

سچائی پرکھنے کیلئے ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کی ضرورت ہے

پیر 8-فروری-2010

فتح کے سرکردہ رہنما نبیل شعث کا غزہ کا حالیہ دورہ ،فلسطین میںقومی مصالحت کے فروغ کیلئے ایک خوش آئند اقدام ہے۔فتح کے بعض متعصب انتہا پسندجو کھلم کھلا حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں کے بر عکس نبیل شعث نے اعتدال پسندی کاہی راستہ اختیار کیا۔ حماس کو دشمن کہنے یا سمجھنے سے ہمیشہ گریزکیا جس طرح فتح میں شامل کئی اسلام مخالف عناصر حماس کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرکردہ  فتح لیڈر نے حماس اور فتح کے درمیان اندرونی رسہ کشی کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری لڑائی پر مقدم نہیں سمجھا۔ حالانکہ بدقسمتی سے فلسطینی انتظامیہ کے کئی اہم پالیسی سازوں نے اسرائیل کی خد مت گذاری میںصورتحال کو اسی نہج تک پہنچایا ہے۔اس حقیقت کو اس مثال سے ہم بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ عباس ملیشیا کا ایک بڑا عہدیدار اپنے اسرائیلی ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ "ہم آپس میں اتحادی ہیں، ہمارا دشمن مشترکہ ہے اور وہ دشمن حماس ہے”

یہی وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر نبیل شعث نے غزہ پٹی کا دورہ کیا اور وہاں وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ سمیت کئی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہر مخلص فلسطینی جو حماس اور فتح کے درمیان تیس ماہ سے جاری مخاصمت کو ختم کرنے کا خواہاں ہے وہ اس دورے کی سراہنا اور تعریفیں کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔

 یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ سارا غزہ حماس کا نہیں اور نہ ہی مغربی کنارے میں بسنے والے سارے لوگ فتح کے ساتھ ہیں ۔لیکن غزہ،مغربی کنارے اور باقی مقبوضہ فلسطین ،فلسطینی عوام کا ہے جس میں حماس اور فتح دونوں شامل ہیں۔

اتنا کہنے کے بعد یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ قومی مصالحت و مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ دونوں اپنے رویوں میں لچک لائیں اور ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی سے اجتناب کریں۔اس سلسلے میں فتح پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حماس کے خلاف اپنا زہریلا پرو پیگنڈا بند کرے اور حماس پر اپنے سیکڑوں مزاحمت کاروں اور کارکنوں کے قتل کئے جانے کے الزامات عائد نہ کرے۔کیونکہ ایسی بیہودہ سوچ کو پالنے سے حقیقی قومی مفاہمت کا خواب شرمندء تعبیر نہیں ہوگا۔فتح اور حماس دونوں فریق کی حثیت رکھتی ہیں اور فریق بیک وقت جج بھی نہیں بن سکتے

اور اگر فتح پورے اخلاص کے ساتھ حقائق جاننا چاہتی ہے تو حماس کو ایک آزاد تحقیقاتی کیمشن کے قیام پر جس میں قابل ،بااعتماد اور مکمل غیر جانبدار ،منصف شامل ہوں اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ایک پائیدا ر قومی مفاہمت کیلئے ایسے کمیشن کی تشکیل جو سچ اور دیانتداری کی بنیاد پر قائم ہو، ناگزیر ہے۔بعض اہم اور نازک سوالات کا تسلی بخش جواب حاصل کرنا ضروری ہے۔جن میں سے بعض  سوالات یہ  کئے جاسکتے ہیں
(1)جولا ئی 2007واقعات سے قبل سی آئی اے بالخصوص جنرل کیتھ ڈائٹن ور فلسطینی انتظامیہ سے وابستہ ملیشیا کے تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟
(2)کیا فلسطینی انتظامیہ کی سیکیورٹی ایجنسیوں ،امریکااور اسرائیل کے درمیان عوام کے ووٹوں سے منتخب حماس حکومت کے خلاف کوئی ساز باز تھا ؟
(3)کیا فلسطینی سیکیورٹی فورس نے جولا ئی 2007واقعات سے قبل حماس حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کی تھی؟ 
(4)کیا فلسطینی انتظامیہ کے تحت سیکیورٹی ایجنسیوں نے اسرائیل کے ذریعے امریکی مالی مددسے خریدے گئے ہتھیاروں کی ایک کھیپ وصول کی جسے استعمال کرکے وہ حماس حکومت کا خاتمہ کرسکیں؟
(5)کیاسیکیورٹی ایجنسیوں نے جان بوجھ کے غزہ میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کو تقویت نہیں دی تاکہ ایک عوامی قومی حکومت کی بیخ کنی ہوسکے؟
(6)باہا بلو شہ کے تین بچوں کو کس نے قتل کیا؟
(7)کس نے پروفیسر ابو عجوع کو قتل کیا
(8)کیا فتح امریکی۔اسرائیلی اور بعض عرب ممالک کی مدد سے حماس حکومت کو ختم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہی تھی
(9)دسمبر2007کوجب وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ مصر سے غزہ کی طرف واپس آرہے تھے تو ان پر قاتلانہ حملے کرنے والے قاتل کون اور کہاں ہیں؟

پچھلے سال غزہ پر اسرائیلی حملے میں ہزاروں لوگ شہید او ربہت سارے عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔اس دوران یہ اطلاعات بھی گشت کرتی رہیں کہ فتح تنطیم سے وابستہ بعض لوگوں کا بھی اس معاملے میں اسرائیل کو آشیر واد حاصل ہے ،یہاں تک بھی اطلاعات ملتی رہیں کہ بعض عناصر اس دوران اسرائیل سے ہاتھ جوڑ کے گزارشات کرتے رہے کہ وہ آبادی والے علاقوں پر بمباری کرکے وہاں تمام لوگوں کا صفایا کریں  کیونکہ یہی لوگ حماس کو ووٹ دیکر اقتدار میںلائے ہیں۔اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر باریک بینی سے ایک تحقیقات ہونی چاہئے تاکہ سچا ئی سامنے آ سکے۔

بالکل اسی طرح فتح کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے الزامات کو سامنے لائے تاکہ ان کی تحقیقات سے پتہ چلے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔جیسے کہ فتح کا الزام ہے کہ ان کے ایک اہم شخص ہسام ابو جنیس کو حماس کے کارکنوں نے کئی منزلہ عمارت کی چھت سے نیچے گراکر بڑی بے دردی سے قتل کیا۔لیکن جب میں نے باریک بینی سے اس معاملے کودیکھا تو پتہ چلا کہ وہ باریش شخص تھا اور اسے اپنے ہی ساتھیوں نے غلطی سے حماس کا ،رکن سمجھ کر چھت سے نیچے گرادیا۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فتح قصور وار ہے کیونکہ جب تک الزامات ثابت نہ ہوجائیں تب تک ایسا کہنا جائز نہیں ۔

بالکل اسی طرح حماس کے بارے میں بھی میری یہی سوچ ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ان الزامات کی تحقیقات کیلئے ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے۔عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ حماس اور فتح کی ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کو پرکھنے کیلئے دیانتدار،غیر جانبدار اور پیشہ ور منصفوں پر مبنی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے۔اور اس طرح سچائی سامنے آئیگی جو آگے بڑھنے کیلئے ایک سنگ بنیاد کی حثیت اختیار کرے گی

جہاں تک نام نہاد مصری دستاویز کا تعلق ہے وہ حکومت مصر کے حماس کے ساتھ دشمنانہ رویے کی وجہ سے بہت حد تک اپنی افادیت کھو چکی ہے۔ایک طرف اسرائیلی محاصرہ ہے اور دوسری طرف حسنی مبارک کی حکومت، غزہ اور سینائے پر فولادی دیوار تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔اس طرح حسنی مبارک کی حماس دشمنی کھل کر سامنے آئی ہے۔اس لئے کسی  جائز اورپائیدار قومی مصالحتی سمجھوتے پر پہنچنے کیلئے کسی تیسری غیر جانبدار پارٹی سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔

مغربی کنارے اور غزہ وادی میں الیکشن کا انعقاد کرانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے بہتر حفاظتی انتظامات کئے جائیں اور یہ ضمانتیں دی جائیں کہ 2006 کے الیکشن سے قبل اور بعد کی صورتحال دہرائی نہیں جائیگی۔واضح رہے کہ ان انتخابات میں اسرائیلیوں نے ان کامیاب  امیدواروںجن کا تعلق حماس سے تھاگرفتار کرلیا۔مغرب اور اسکے عرب حواری اس دوران فتح کی حوصلہ افزائی اور پیٹھ ٹھونکتے رہے اور نئی فلسطینی حکومت پر پابندیاں اور رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے اور یہ واضح اشارہ دیتے رہے کہ وہ ان انتخابات کے نتائج سے خوش نہیں ہیں۔

بے شک موجودہ حالات میں انتخابات کرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوںکو سمجھایا جائیگا کہ حماس کو ساتھ دینے کا مطلب بھوک ،افلاس اور محاصرے ہیںاور اگر وہ فتح کو ووٹ دیں گے تو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ان کی تنخو اہیں ملیں گی اور وہ زندگی کے مزے لوٹیں گے۔اسی طرح کی صورتحال دیگر مقبوضہ علاقوں بشمول مغربی کنارے پر بھی صادق آتی ہے، جہاں 2007 سے حماس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔

ان علاقوں میں دس ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے،سینکڑوں دینی اداروں کو اپنی تحویل میںلے کرفتح کے حوالے کردیا گیا ہے،ہزاروں لوگوں کو نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ہے ۔خطاء صرف یہ ہے کہ ان کی ہمدردیاں حماس کے ساتھ ہیں۔

اس کے علاوہ درجنوں حماس حمایتی لوگ فتح کے تفتیشی سنٹروں میں شدید تعذیب کے نتیجے میں زیر حراست شہید ہوئے ۔اور سیکڑوں لوگ شدید جسمانی تشدد کی وجہ سے عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے ہیں ۔اس لئے یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ ان حالات میںمغربی کنارے میں شفاف انتخابات ممکن  ہوسکتے ہیں۔

صاف وشفاف انتخابات کیلئے ضروری ہے کہ ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں بولنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہر سیاسی پارٹی کو اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے جلسے اور جلوس نکالنے کی اجازت بھی ہو۔مغربی غزہ میں ایسا ممکن نہیں اور غزہ میں بھی زیادہ نہ سہی لیکن کسی حد تک حالات اسی نوعیت کے ہیں۔

 اب اگر انتخابات کرانے ہی ہیں توصاف ظاہرہے کہ پھر مغربی کنارے کا موجودہ ریاستی پولیس ڈھانچہ فوری طور پر ختم کرنا ہوگا ،بصورت دیگر ان حالات میں الیکشن لڑنا جہاں سبز جھنڈے ہاتھوں میں اٹھانے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔۔۔یہ انتخاب ایک نئی تباہی کی نوید لے کر آئے گا۔

مختصر لنک:

کاپی