پنج شنبه 01/می/2025

ہولوکاسٹ کی یاد میں ایک اور ہولوکاسٹ

بدھ 3-فروری-2010

معروف اسرائیلی روزنامے ”ہارٹز” کی 28 جنوری کی اشاعت میں معروف اسرائیلی صحافی گیڈیان لیوی نے ایک کالم بعنوان”ہولوکاسٹ کی یاددہانی اسرائیلی پروپیگنڈے کی بنیاد”میں لکھا ہے” اسرائیل ہو لوکاسٹ یادگار” کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اپنے سفا کانہ طرز عمل سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔مسٹر لیوی ان الفاظ سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

"جب لوگ گولڈ سٹون کی بات کرتے ہیں تو ہم ہو لوکاسٹ کی بات کرتے ہیں اور جب دنیا فلسطین پر قبضے کی بات کرتی ہے تو ہم ایران کا شوشہ چھوڑ تے ہیں اس طرح اصل معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں”
لیکن لیوی جیسے با شعور مشاہد کار و تجزیہ نگار اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس طرح کی سوچ اور اپروچ سے دنیا فلسطینیوں کو نہیں بھولے گی ۔

لیوی آگے رقمطراز ہیں کہ  "اس طرح کی حرکات سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔ہو لوکاسٹ کی یاد اب پرانی کہانی کا روپ دھار چکی ہے۔تقریروں کا اثر اب زیادہ  دیرتک نہیں رہنے والا،ہر روز کے حقائق اب دیکھنے اور جانچنے کا زمانہ آگیا ہے۔اس بیہودہ تشہیری مہم اور پروپیگنڈے سے اب اسرائیل کو کچھ نہیں ملنے والاہے”
یقین جانیں لیوی ہولوکاسٹ دن کو منانے یا اس کی یاد گار کے خلاف نہیں۔اس کے نزدیک انسانی دنیا میں یہ ایک لا ثانی واقعہ ہے اور شاید آخر تک یہ واقعہ بقول اس کے لاثانی ہی رہے گا۔

لیکن اس کے باوجود مسٹر لیوی اسرائیلی حکومت کو یہ احساس دلانے کی کوشش کررہے ہیں” کہ آپریشن کاسٹ لیڈ نے جو آگ نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری یہودی دنیا میں سلگائی ہے وہ یہودیت پرستی کے خلاف ہزار تقریروں سے بھی بجھائی نہیں جا سکتی "

لیوی اس کی مزید تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ جب تک بدیاں یہاں ہمارے گھر میں فروغ پائیں گی تب تک نہ ہم خود اور نہ ہی دنیا ہماری واعظ و نصیحت کو سننے کیلئے تیار ہوگی۔ اگر چہ ہم صحیح ہی کہہ رہے ہوں”
یہودیوں کی اس شیطانی کھیل کو سمجھنے میں اب شاید زیادہ دشواری آپ محسوس نہیں کررہے ہونگے کہ کس طرح وہ فلسطینیوں کے قتل عام اور آئے روز ان پرہورہے مظالم سے کس طرح دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششوں میں سرگرم ہے۔صہیونی کس طرح ہولوکاسٹ کو ایک لا فانی شکل میں سامنے لا کر اسے بڑی چالاکی  اور عیاری سے فلسطینیوں کی تباہی و بربادی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

ہولوکاسٹ کے حوالے سے اسرائیلی مہم کے مقاصد اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ اس واقعے کی تشہیر کے سائے میں اسرائیلی ریاست اور بدمعاش اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کے قتل عام،ان کے گھروں کو زمین بوس اور ان کی زمینوں پر قبضے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل اور اسکے پالیسی ساز اپنے جرائم چھپانے کیلئے ہر ممکنہ کو شش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو تباہ برباد کرنے کے ہر نسخے کو آزما رہے ہیں  اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل نے ہیٹی میں زلزلے سے متاثرین کی امداد کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تا کہ غزہ میں پچھلے سال ان کے خوفناک حملوں اور مسلسل محاصرے اور ناکہ بندی سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے۔ لیکن اس طرح کا اقدام بھی اسرئیل کے مکروہ چہرے کو چھپا نہیں سکے گا۔ ایک قاتل کوئی اچھا کام کرنے کے باوجود قتل کا داغ چھپا نہیں سکے گا۔غزہ وادی میں معصوم بچوں کے قاتل ریلیف ورکر کا روپ دھارنے کے باوجود قاتل ہی تصور ہونگے اور لوگ انہیں اسی مکروہ روپ میں ہی دیکھیں گے۔یہ ایسی ہی بات ہے ایک بے گناہ کو قتل کرنے کے بعد ، ایک قاتل ایک بزرگ خاتون کے کام میں ہاتھ بٹا رہا ہے۔ 

حتمی اندازہ یہ ہے کہ کہ کوئی بھی ایماندار اور ذہین شخص اس مفروضے پر یقین نہیں کرے گا۔ ایسا ملک جو سکول کے بچوں پر ایف سولہ طیاروں سے موت کی بارش برساتا ہے۔ اور دودھ کی سپلائی صرف اس لیئے روک دیتا ہے کہ معصوم بچے  بھوک سے بلک بلک کر مر جائیں  ۔ایسا ملک ایک مجرم ملک ہے  چاہے وہ ہیٹی میں رضاکاروں کی ٹیم مدد کو ہی کیوں نہ بھیجے۔ جہاں پراپیگنڈا کرنے والے انہیں ملبے سے متاثرین کو نکالتے ہوئے دکھائیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے شخص کا شکریہ ادا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جس نے پہلی پکار پر مدد سے انکار کیا ہو۔

ہولوکاسٹ کی یاد گار کے لیئے دیوانگی کا مظاہرہ کرنے والی صہیونیت کے دو مرکزی اہداف ہیں۔وہ دیوانگی اب مذہب کا رتبہ اختیار کر گئی ہے۔ پہلا ہدف اعلان شدہ ہے کہ اس تباہ کاری کو بھولنے نہ دیا جائے اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ ساٹھ سال قبل تھرڈ ریک کے ہاتھوں یورپی جیوری کا کیا حال ہوا۔ یہ ایک جائزہدف ہے کیونکہ انسانیت کو اپنی بڑی غلطی اور بھول یاد رکھنی چاہیے تاکہ آئندہ اسے نہ دہرائے۔ ہم گزرے ہوئے برسوں کا مشاہدہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ گزرے کل کو سمجھ سکیں اور گزشتہ کل کا مشاہدہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ آنے والے کل کو تباہی سے بچا سکیں۔

اس تباہ کاری میں چھپا دوسرا ہدف غیر اعلانیہ ہے  ۔ جسکے تحت صہیونیت کو تحفظ دینا ہے۔ ایک نسلی نظریہ جس نے انسانیت کے خلاف اس دیو ہیکل جرم کو جنم دیا جسکا نام اسرائیل ہے۔ حتمی تجزیہ کے مطابق اسرائیل  کے وجود کا مقصد ہی فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا اور انسے انکے آبائی علاقہ چھیننا ہے۔ اور جب فلسطینی انصاف اور انسانیت کے نام پر چیختے ہیں تو ہمیں صہیونیت کے کتے یہ غراتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ؛ تباہ کاری ، آشویز اور ہٹلر؛
 
گزشتہ سال اسرائیلی فوج نے مسلسل تین ہفتوں تک غزہ پر بموں کی بارش کی۔ جنگی طیاروں نے چھوٹے سے علاقے پر نہتے فلسطینیوں پر لگاتار بم برسائے۔ توپخانے نے گھروں ، ہسپتا لوں ، سکول، مساجد اور سرکاری عمارات پر بمباری کی۔ سفید فاسفورس کی آگ کا طوفان غزہ پربرستا رہا اور انسانیت کا قتل ہوتا رہا۔ اپنی جان بچانے کے لیئے ہاتھوں میں امن کی سفید جھنڈے اٹھائے لوگوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ سال غزہ میں ہونے والی تباہی اور ہولوکاسٹ کی تباہ کاری سے موازنہ کیا جا سکتا تھا۔ اس قسم کے موازنے پر دنیا کوقطعاً کوئی ناک بھوں نہیں چڑھانی چاہیے ۔ آخر یورپی جیوری کا قتل عام آشوٹز اور برجن بیلسن سے شروع نہیں ہوا۔ یہ انیس سو تیس سے بھی پہلے شروع ہوا ،اور پھر انیس سو اڑتیس میں کرسٹل ناش تھا جسکا مزہ تباہ کاری کے بعد بچے، انکے بچوں کے بچے  پہلے سے ہی چکھتے آ رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ تباہ کاری اس وقت شروع ہوئی جب سے اسرائیل نے فلسطین کے خلاف وہ کچھ کرنا شروع کیا جو وہ اب کر رہے ہیں۔ نہ رکنے والا فلسطینی قتل و غارت کا سلسلہ اور غزہ کو بھوکا مارنے جیسے اقدامات تو اس بڑے منظر نامے کی بس ایک جھلک ہی ہے جس میں فلسطینیوں کو نازیوں جیسی بربریت اور قتل و غارت کا سامنا ہے۔ فلسطینی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اسرائیل انہیںیک مشت ختم کر رہا ہے ۔

 تاہم اسرائیل بہت دفعہ فلسطینیوں پر بم برسا کر اور انہیںخوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی سپلائی روک کر انہیںیک مشت ختم کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ فلسطینیوں کو طبی سہولت تک رسائی نہ دیکر بھی اسرائیل فلسطینیوں کو مارنے کی سازش کر رہا ہے۔ اسرائیل اس بات کا عتراف نہیں کرتا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نازیوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ اگر ایسی بات نہیںہے تو ہم غزہ کی پٹی پر اسرائیلییوں کی موجودگی کو کیا نام دینگے۔

اسرائیلی نازی ازم دراصل جرمن نازی ازم کے برابر ہو کر خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا  ہے اور دنیا کو احساس دلا رہا ہے کہ یہودی درندے بن چکے ہیں، یہ کون کہتا ہے کہ عالمی عدالت میں جانے کے لیئے اسرائیلی بربریت کا شکار فلسطینیوں کی تعداد کاساٹھ لاکھ ہونا ضروری ہے۔

جرمن نازی ازم کی بربریت کی مذمت اس لیئے ہی نہیںہورہی کہ مرنے والے تمام یہودی تھے (دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں کی تعداد میں غیر یہودی بھی ہلاک ہوئے)یہ توبس ایک شیطانی تباہی تھی کیونکہ صرف معصوم انسان بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیے گئے۔

اقوام عالم کو ایسی تبا ہ کاریوں اور قتل و غارت سے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں اور اس جانب پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ دنیا اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اسے ہولوکاسٹ کی آڑ لینے کی اجازت نہ دے ۔ ہاں دنیا میں یہ بہت ہی بڑا المناک واقعہ ہے تاہم اسے فلسطینیوں کے خلاف  بربریت اور ایذا رسانی کیلئے استعمال نہیں ہوناچاہیے ۔ وہ فلسطینی جنکے تاریخی وجود کوختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا  کی جانب سے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی انہیں بھوکا مارنے اور انہیں وارسا گھیٹو میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ ورنہ۔ پوری دنیا ایک انسانی جنگل میں تبدیل ہو جائے گی، ایسا جنگل جو درندوں کے جنگل سے زیادہ  بدتر ہو گا۔

مختصر لنک:

کاپی