بعض مخالف گروپوں کی طرف سے یہ نتیجہ اخذکرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ حماس اب اسرائیل کو ایک جائز مملکت کے روپ میں تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ۔فلسطینی عباس انتظامیہ پروفیسر عزیز دویک کے بیان کو توڑ مروڑ کے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ حماس اب پی ایل او کے ہی نقش قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس تاثر میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔کیونکہ حماس کے دستور کی کسی شق کی ترمیم یا اسے حذف کرنے کا مطلب کسی صورت میں یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اسلامی تحریک صیہونی ریا ست کے بارے میں اپنے بنیا دی موقف سے انحراف کرنے کا سوچ سکتی ہے۔یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کا آئین کوئی صحیفہ آسمانی نہیںہے کہ اس میں ترمیم کی گنجائش نہیں اور نہ ہی کوئی یہ ایسا نظریاتی پیمانہ ہے کہ اس سے رتی بھر انحراف بھی آدمی کو جہنم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
دراصل 1988میں پہلے انتفادہ کی تحریک شروع ہوتے وقت اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد میں لوگوں کی بھرتی اور ان کے حوصلوں کو جلا بخشنے کیلئے اسے جلد بازی میں تیار کیا گیا تھا۔اسلئے اس منشور کو نہ متبرک اور نہ ہی ناقابل ترمیم میثاق سمجھا جائے۔اگر ایک طرف بہت سارے لوگ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی شق کو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں وہیں بعض لوگ ایسی سخت زبان کے متعلق تحفظات بھی رکھتے ہیں۔
صیہونیت کا پرچار کرنے والوں اور ان کے سیاسی ترجمانوں نے ان الفاظ کا سہارا لیکر حماس کے خلاف من گھڑت الزامات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تحریک ،آزادی اور انصاف کیلئے جدجہد نہیں کررہی بلکہ ان کے پیش نظر دنیا سے صیہونیت کا خاتمہ ہے۔
حالانکہ یہ بے بنیاد الزامات ہیں کیونکہ پچھلے 1400سال تک یہودی مسلم ممالک میں حفاطت کے ساتھ رہے۔اس دوران ان کی حفاطت کیلئے کوئی صیہونی تحریک نہیں تھی ،کوئی اسرائیل اور کوئی امریکاان کی حفاظت پر مامور نہیں تھا۔۔ان کے ساتھ جوکچھ بھی براہوا وہ یورپ میں ہوا۔.
ان حالات اور تصورات کو مد نظر رکھ کر حماس کو اپنا ریکارڑ درست رکھنا ہے ا وردنیا پر یہ واضح کرنا ہے کہ وہ یہودیت کے خلاف نہیں۔ حماس کس طرح یہودیت کے خلاف ہوسکتی ہے،۔حماس جس کا نظریہ اسلامی بنیادوں کا عکاس ہے واضح طور پر نسل پرستی کے خلاف ہے۔قصہ مختصر،حماس ناجائزطریقے پر قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کے خلاف ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ ایک یہودی ریاست ہے۔
اس طرح سے اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حماس کے منشور میں ترمیم یا بعض شقوں کے خاتمے کا یہ قطعاََ مطلب نہیں لیا جا سکتا ہے کہ حماس اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے کا کوئی عندیہ دے رہی ہے۔ کیونکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
اسرائیل ہمیشہ سے ایک ایسے ناجائز اور حرامی اولاد کی مانند ہے ،جس کی خمیر میں قتل،چوری ڈاکہ زنی۔ جھوٹ و فریب اور مذہبی ونسلی بنیادوں پر لوگوں کا صفایا کرنا رچا بسا ہے۔اس لئے ایسی ناجائز ریاست کو کس طرح جائز ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔
نہ صرف حماس بلکہ دنیا کا کوئی دیانتدار شخص اسے جائز ریاست قرار نہیں دے سکتا۔کس طرح اسے جائز ریاست قرار دیکر راست بازاشخاص اپنے ضمیر کا سامنا کر سکتے ہیں۔ کس طرح وہ ان پچاس لاکھ لوگوں سے آنکھیں ملانے کی ہمت کریں گے جنہیں ان کے اپنے گھر وں سے اور اپنے آبائی وطن سے بے دخل کرکے باہر مہاجرین کی حیثیت سے زندگی گذارنے پر مجبور کیا گیا ہے اور انہی کی سرزمین پر اس وقت اسرائیل کا ناجائز وجود قائم ہے۔ کس طرح اسرائیل کو جائز ریاست قرار دینے والے باضمیر لوگ ان لاکھوں لوگوں کا سامنا کرسکتے ہیں جنہیں بندوق کی نوک پر گھروں سے بے دخل کرکے آبائی وطن سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور جن کے پاس ابھی بھی آبائی گھروں کی چابیاں محفوظ ہیں۔
اب جب کہ یہ ایک کھلی اور عیاں حقیقت ہے کہ دنیا بھر سے یہودی یہاں لاکر بسائے گئے اور وہ اس سرزمین کے مالک بن بیٹھے اور جو اس سرزمین کے مالک تھے وہ مہاجربن گئے اور دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں،ایسے میں اس ریاست کو جائز ریاست کے روپ میں کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
بلا شبہ یہ بھی ایک حقیقت ہے جسے حماس سمیت تمام فلسطینی تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل ایک خوشحال اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاست کے روپ میں موجود ہے اور جو امریکا کی پالیسیوں کو نہ صرف کنٹرول بلکہ متعین بھی کرتی ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جو عام نہتے لوگوں کا قتل عام کرکے اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے جیسا کہ پچھلے سال اس نے غزہ وادی میںاپنی قوت اور طاقت اظہار کیا۔یہ وہ ریاست ہے جو فلسطینیوں کی زمینیں اپنے قبضے میں لینے،ان کے گھر تباہ کرنے اور انہیں بھوکا مروانے کی کوششوں میں ہمیشہ تسلسل برقرار رکھتی ہے۔
اسرائیل کا وجود تسلیم کرنا ایک معاملہ ہے اور اسے جائز ریاست کے طور پر ماننا ایک مختلف معاملہ ہے۔اسرائیل کا جواز تھا ،نہ ہے اور دنیا جان لے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ یہودیوں کا مقبوضہ فلسطین میں رہنا جائز نہیں ۔ مسلمان اورفلسطینی ہونے کی حثیت سے ان کا یہودی ہونا ہمارا مسئلہ نہیں۔ہمارا مسئلہ اسرائیلی ریاست کی خوفناک نسلی عصبیت ہے وہ عصبیت جسے ہٹلر اور سٹائلن اپنے ادوار میں پروان چڑھا چکے ہیں اور اسی نسلی عصبیت کی بنیاد پر اسرائیل کا وجود اس وقت قائم ہے۔
اسلئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ حماس اسرائیل کو جائز ریاست کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔گرچہ اس کی کتنی ہی قیمت حماس کو کیوں نہ چکانا پڑے۔یہ مسئلہ سیاسی سے پہلے انسانی و اخلاقی معاملہ ہے اسلئے اسے اسی پس منظر میں دیکھا جائیگا۔
یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے کہ اگر حماس اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ لے گی تو اسکا اپنا وجود24 گھنٹوں کے اندر اندر کھو کھلا ہوجائیگا۔یہ حقیراور کم ہمت گروپ کے طور پر سمجھی جائیگی اور پی ایل او پر جو سیاسی اور اخلاقی برتری اس تنظیم کو حاصل تھی ،وہ فرق ختم ہوجائیگی۔یہ ایک احمقانہ قدم تصور ہوگا کیونکہ اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنا درکنار ، فلسطینی عوام کے وجود کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا۔
پی ایل او نے 18سال پہلے اوسلو ایکارڈ کے تحت ایک احمقانہ فیصلہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کیا لیکن بدلے میں فلسطینی ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ہم سارے اس پوری تاریخ سے وقف ہیں ۔اس لئے حماس کا اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک احمقانہ حرکت ہوگی ۔جو لوگ دوسرے لوگوں کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے وہ برے اور خطرناک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
قصہ مختصر حماس کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔کیونکہ ایسا کرتے وقت اسے یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ساٹھ برس سے اسرائیل انسانیت کش اور بربریت کا مظاہرہ کرتا رہا اور اسے تسلیم کرنے کامطلب ہوگا کہ حماس اس سارے عمل کو بھی جواز فراہم کر رہی ہے۔
اور کیا پھر حماس ان لاکھوں گھر سے بے گھر ہونیوالے ریفوجیوں کے ساتھ آنکھیں ملانے کا حوصلہ پائے گی۔۔۔کیا حماس اسرائیل کو تسلیم کرکے ایک قومی بدکاری و بدچلنی کا مرتکب ہوگی۔۔۔نہیں۔۔ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔حماس ایسا نہیں کر سکتی ۔اور یقیناََ ایسا نہیں کرے گی