غزہ کے مظلوم فلسطینی اب پوری دنیا کی نظروں میں آگئے ہیں- ان کا کیس اس قدر نمایاں ہوگیا ہے کہ دوست اور دشمن بھی اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہیں- اہل غزہ موت کے منہ سے بچنے کی خاطر مصر کی طرف راستے بناتے تھے- اسرائیل نے اس سے قبل ارض مقدسہ فلسطین میں وہ بدنام زمانہ دیوار بنائی جس نے فلسطین کو ناروا انداز میں دو حصوں میں تقسیم کردیا-
کئی بستیاں بلکہ گھر اس دیوار کی وجہ سے دو حصوں میں بٹ کر رہ گئے- اب مصر زیر زمین فولادی دیوار بنارہا ہے، جسکا مقصد غزہ کا بدترین محاصرہ کرنا ہے- واضح رہے کہ اہل غزہ زمینی سرنگوں کے ذریعے اپنے پڑوسی برادر مسلمان ملک مصر کی حدود میں داخل ہوتے اور اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے مصر سے بنیادی غذائی ضرویات اور ادویات حاصل کرتے تھے-
انہوں نے کہا کہ صہیونیوں کی تعمیر کردہ دیوار سے بھی زیادہ خطرناک اور قابل مذمت یہ نئی زیر زمین دیوار ہے، جو ایک مسلمان ملک اپنے مظلوم مسلمان ہمسایوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے لیے تعمیر کررہا ہے- انہوں نے کہا ’’مصری حکومت کی انسانیت کو کیا ہوگیا ہے؟ اسلامی جذبات سے تو وہ عاری تھے ہی اب تو ان کے انسانی جذبات بھی دم توڑ چکے ہیں- غزہ کے محروم و مظلوم، بھوکے، ضعیف اور بیمار، مسلمان مصر کو کیا نقصان پہنچائیں گے- اسلامی نقطہ نظر سے مصر کے بارڈر پر سرحدی چوکیاں مستقلاً کھلی رہنی چاہئیں، یہ شریعت اسلامیہ کا بھی حکم ہے اور عرف عام، الخاق اسلامی اور انٹرنیشنل قانون بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے-‘‘
‘‘ اخوان المسلمون کے مجلہ رسالة الاخوان شمارہ نمبر 621 مورخہ 15 جنوری 2010ء میں ان علمائے کرام کے فتووں اور تقاریر کے تذکرے کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2009ء میں اسرائیلی فوجیوں نے ظالمانہ حملوں کے دوران 1594 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے- ان میں 473 معصوم بچے جبکہ 126 خواتین شامل ہیں- جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے وہ مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کا کھلا دشمن ہے- اس کی تمام ظالمانہ کارروائیاں قابل فہم ہیں، مگر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ مصر خود کو مسلمان ملک کہنے کے باوجود اسرائیل سے بھی زیادہ ظلم ڈھانے پر تل گیا ہے- حسنی مبارک پاکستانی حکمرانوں کی طرح امریکا کی غلامی میں اس حدتک بچھ چکے ہیں کہ دشمنان اسلام ان سے جو چاہیں خدمت لے سکتے ہیں-
اس فولادی دیوار کی تعمیر امریکی حکم کے تحت جاری ہے اوراس کے خلاف دنیا بھر کے مسلمان غم و غصے سے تلملارہے ہیں- قطر کے ایک عالم دین ڈاکٹرم علی محی الدین قرہ داغی، یوسف القرضاوی صاحب کے بعد عالمی سطح پر معروف ترین عالم دین ہیں- وہ شعلہ نوا خطیب اور بڑے غیرت مند مسلمان ہیں- ان کی مسجد میں قرضاوی صاحب کی مسجد سے بھی زیادہ نمازی جمعہ کی نماز کے لیے آتے ہیں- انہوں نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ مصری حکومت کا یہ عمل امت دشمنی اور اسلام سے بغاوت کی بدترین مثال ہے- انہوں نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعائیں تو ضروری کریں، جن کی اثر آفرینی سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا، مگر محض دعاؤں پر انحصار کرکے بیٹھ جانا کافی نہیں- دعاؤں کے ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے- مسلمان اور کچھ بھی نہیں کرسکتے تو مصری حکومت اور او آئی سی کے علاوہ تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں، یو این او اور عالمی این جی اوز کو احتجاجی خطوط اور ای میل اتنی تعداد میں بھیجے جائیں کہ انہیں اندازہ ہو جائے کہ امت مسلمہ اس ظلم پر خاموش تماشائی نہیں ہے-
کویت کے شعبہ نوا خطیب شیخ حامد العلی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ پوری ملت اسلامیہ بالخصوص اہل علم و دانش کو مصری حکومت کے اس ظالمانہ عمل کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے- انہوں نے کہا یہ شریعت اسلامیہ کا حکم ہے کہ ظلم کا سدباب کیا جائے اور مظلوم کی حمایت کے لیے ظالم کے خلاف اقدام کیا جائے- الجزائر، یورپ اور پوری دنیا میں مسلمان تنظیمیں اس ظلم پر سراپا احتجاج ہیں- پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس پر احتجاجی مظاہرے کیے ہیں اور امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے مصری حکومت سے سخت احتجاج کیا ہے کہ وہ تاریخ کی بدترین مسلم کشی کی مرتکب ہو رہی ہے- اس مرتبہ مصر کے اندر بھی اخوان المسلمون کے احتجاج کے علاوہ پچیس ازہری علمائے کرام نے بھی حکومت مصر کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے- جامعہ ازہر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کا یہ احتجاج اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے کم ہی اختلاف کرنے کی جسارت کیا کرتے ہیں- اس ظلم پر وہ بھی خاموش نہیں رہ سکے-
ایک جانب مصری حکومت کی یہ مسلم کش پالیسی اور دوسری جانب بے چارے فلسطینیوں کی بے بسی- مصر اپنی سرحد ان پر کھولنے سے انکاری ہے اور وطن میں ان کو اپنے گھروں میں صہیونی درندوں کے ہاتھوں ہر روز قیامت کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے- فلسطینی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق 1967ء سے لے کر اب تک مظلوم فلسطینیوں کے 23000 مکانات منہدم کیے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے- بچے سکولوں سے اور مرد اپنی محنت مزدوری کے مقامات سے واپس گھروں میں پہنچتے ہیں تو وہاں ملبے کا ڈھیر ہوتا ہے اور مظلوم خواتین بے بسی کی تصویر بنی مسلم حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کررہی ہوتی ہیں- آج امت مسلمہ کا امتحان ہے کہ وہ ان مظلومین کی داد رسی کے لیے کیا کرتی ہے؟ اس وقت اسرائیلی جیلوں میں 7400 فلسطینی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں- ان میں 34 خواتین ہیں، جبکہ 315 معصوم بچے- ان بچوں میں بعض وہ ہیں جن کی عمریں ایک سال سے بھی کم ہیں-