شنبه 10/می/2025

اسرائیل نے رواں سال الخلیل سے 900 فلسطینی گرفتار کیے

منگل 29-دسمبر-2009

فلسطین میں قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے”کلب برائے اسیران” کی جانب سے جاری ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2009 میں الخلیل صہیونی فوج کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
 
اس دوران نہ صرف بڑی تعداد میں شہریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ تفتیشی کارروائیوں کے دوران خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی بدستور جاری رہا۔ رپورٹ میں جاری اعدادو شمار کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے رواں سال مغربی کنارے کے شہر الخلیل سے 900 فلسطینیوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا۔
 
اسیران میں سات خواتین اور 111 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ گرفتاریاں مزاحمت کاروں کی تلاش اور ان کے تعاقب کے آڑ میں کی گئیں، جس میں بڑی تعداد میں مزاحمت کاروں سے تعلق کے بہانے بے گناہ شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

پیر کے روز کلب کی جانب سے الخلیل میں اسرائیلی چھاپہ مار کارروائیوں سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی گئی جس میں شہریوں کی بلا جواز گرفتاریوں اور جیلوں میں ان کی مشکلات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔

رپورٹ کے مطابق الخلیل سے گرفتار کیے سینکڑوں شہریوں کو مختلف جیلوں میں ڈلا گیا۔ 85 قیدی انتظامی تحویل میں رکھے گئے،96 کو عسقلان کی سینٹرل جیل میں پابند سلاسل کیا گیا،34 کو مسکوبیہ،18 کو بیتاح تکفا میں تفتیش کا نشانہ بنایا گیا۔
 
رپورٹ کے مطابق الخلیل سے گرفتار کیے گیے نوسو افراد میں سے 128 مختلف نوعیت کی مہلک بیماریوں کا شکار ہیں جبکہ صہیونی حکام دانستہ طور پر مریض قیدیوں کے معاملات میں غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ قیدیوں میں 218 میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف کالجوں اور اسکولوں سے حراست میں لے کر جیلوں میں پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گرفتار شدگان پر جیلوں اور تفتیشی مراکز میں مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، قیدیوں کو زنجیروں میں باندھ کر انہیں بندوقوں کے بٹ اور آہنی لاٹھیوں سے پیٹا جاتا ہے۔ دور ان حراست قیدیوں کو حیوانات، کتے اور گدھے جیسی آوازیں نکالنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے عریاں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سخت سردی کے موسم میں سرد پانی اور گرمی میں کھولتا ہوا پانی قیدیوں کے نازک جسموں پر ڈالنا صہیونی تفتیش کاروں کا معمول ہے

مریض قیدیوں کے علاج معالجے کے سلسلے میں دانستہ طور پر غفلت برتی جاتی ہے۔ تشویشناک  حالت کے مریضوں کو بیماری کی متعلقہ ادویات فراہم کرنے کے بجائے انہیں نشہ آور یا خواب آور گولیاں دی جاتی ہیں، جس سے بعض اوقات قیدی گھنٹوں بے ہوشی کی حالت میں پڑے رہتے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی