چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھوں غیرت کا جنازہ

اتوار 13-دسمبر-2009

مسلم  اور مسیحی برادری کے مذہبی  جذبات  مجروح کرتے ہوئے فلسطینی اٹھارٹی نے مغرب زدہ خواتین کے ایک گروپ کو  اس ماہ کے آخر میں  مبینہ طور پر’’ مقابلہ حسن‘‘ منعقد کرانے کی اجازت دے دی ہے-اس مقابلہ حسن میں نیم عریاں دوشیزائیں ئیں مدعو کئے گئے تماشائیوں  کے سامن جسم کی نمائش کریں گی –

اس مقابلے کی منتظمہ سلوی یوسف کا کہنا ہے کہ اس مقابلے میں 58 دوشیزائیں حصہ لیں گی- جن میں سے 26کا تعلق اسرائیل  اور 32 کا تعلق مغربی کنارے سے ہے- سلوی یوسف کے مطابق فلسطینی اتھارٹی  کے اطلاعات و  ثقافت  کے وزراء اس مقابلے کے ججوں کے پینل میں شامل ہوں گے-

مقابلہ حسن جیتنے والی حسینہ کو  ایک نئے برانڈ کی گاڑی، دو ہزار سات سو ڈالر نقدا نعام اور دس دنوں کے لئے ترکی کا دورہ کرایا جائیگا- میں نے کئی سال مغرب میں گزارے ہیں-وہاں اس طرح کے مقابلے دیکھنے  والوں کے لئے بصری زنا کا موقع فراہم کرتے ہیں- وہاں دوشیزائیں کو جنسی ماڈل بنا کر نہ صرف انہیں عزت و وقار سے محروم کیا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں انہیں ایسا کر کے انسانیت  کے درجے سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے-

میں حیران ہوں کہ فلسطینی اتھارٹی کس طرح سے اس بے باک فحا شی کا دفاع کرے گی- یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہماری خواتین کے جسموں کی یہ نمائش کس طرح سے فلسطینی موقف کو فروغ دے گی اور ہمارے لوگوں کو صہیونی چنگل سے آزاد کرنے میں کتنا مدد گار ہو گی-

یہ وہ سوال ہے جو میں  ان  نام نہاد مہذب  اہلکاروں سے کر رہا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ میانہ روی اور روشن خیالی کا راستہ عریانیت اور فحاشی کی حوصلہ افزائی سے شروع ہوتا ہے- لیکن میں جانتا ہوں کہ روشن خیالی کے یہ ٹھیکیدار ہمیں کبھی نہیں بتائیں گے کہ انکا ایجنڈا اصل میں کیا ہے- میرے سوال کے جواب میں وہ پاگل کتوں کی طرح بھونکنا شروع کر دیں گے اور فلسطینیوں کو پھر قدامت پسند اور  پتھر کے زمانے  والے ناموں سے پکارنے لگیں گے-

میں حیران ہوتا ہوں کہ جنسی بخار  میں مبتلا مرد و حضرات کی حوس زدہ آنکھوں کے سامنے عورتوں کے ننگے جسموں کی نمائش میں کیا روشن خیالی ہو سکتی ہے؟

اسی طرح میں یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوں کہ یہ نام نہاد مہذب لوگ ان لوگوں سے زیادہ کس طرح دانشور اور روشن خیال تصور کئے جاتے ہیں جو اس صورتحال کو قابل مذمت ، قابل تحقیر اور اسے عفت مآب خواتین کی توہین کے مترادف سمجھتے ہیں-

فلسطینی مسلم و عیسائی رہنمائوں، جو صہیونی غاصب کے خلاف اس وقت بر سر پیکار ہیں، نے اس شرمناک کھیل کو اپنی اخلاقی وراثت اور غیرت پر حملہ قرار دیا ہے اور شدید الفاظ میں مذمت کی ہے-

یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ دشمن ہماری غیرت ،اخلاق اور روایات پر کاری ضرب لگانا چاہتا ہے-ہمیں بد چلنی کے راستے پر گامزن کر کے ہمیں صفحہ ہستی سے ہی مٹانا چاہتا ہے- کیا کامیابی ان لوگوں کو مل سکتی ہے جو مسجد الاقصی کے قرب وجوار رام اللہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں خاموشی سے عریاں رقص دیکھ رہے ہوں اور انہیں شرم بھی نہ آ رہی ہو کہ ان کی نظروں کے سامنے غیرت کا جنازہ نکل رہا ہو—
یہ ایک المناک اور افسوناک صورتحال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی خود اس قابل نفرت عمل کی سرپرستی کر رہی ہے-اور یہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک واضح مثال ہے-

 ایک قابل اعتماد خاتون صحافی عامرہ ہس نے لکھا کہ مقبوضہ علاقوں میں جنسی تجارت نشوونما /فروغ پارہی ہے- اسکا کہنا تھا کہ فلسطینی خواتین کے ایک گروپ(SAWA)کے مطابق "نوعمر فلسطینی خواتین کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس اور رملہ کے  قحبہ خانو ں،نجی ریہائشی  اپارٹمنٹس اور صیہونی علاقوں میں اپنی جسم فروشی کریں-"

اسکا کہنا تھا کہ مجھے حیرانی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسکی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان درندہ صفت وحشی انسانوں کے خلاف کارروائی  کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور محض دو وقت کی روٹی کے حصول کی خاطرخواتین کو جسم فروشی کرنے پر مجبور کرنے والوں کو کیوں کھلی چھٹی دے رکھی ہے؟جبکہ ایک مشہورفلسطینی کہاوت ہے کہ "ایک باضمیر/غیرت مندخاتون بھوکا مرنا تو گورا کر لے گی لیکن روزی کی خاطراپنی عصمت فروشی کبھی نہیں کریگی”

تاریخ گواہ ہے کہ فلسطینی خواتین کیلئے ہمیشہ سے شہید، قیدی یا اللہ کے راستے میں خود کو وقف کر دینے والے انسانوں کی مائیں ،بہنیں،بہو یا بیٹیوں کو مثال سمجھا جاتا تھا اور انہیں تکریم دی جاتی تھی-  لہذا صیہونی تنظیموں کے سرمائے پر منعقد ہونیوالے اس نام نہاد مقابلئہ حسن  میں خود کو نمائش کیلئے پیش کرنے والی خواتین کبھی بھی فلسطینی ثقافت اور معاشرت کی عکاس نہیں ہو سکتیں-
مجھے یہ سب کہتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے اخلاقی زوال کے پیچھے غربت کے بجائے اخلاقی بے راہ روی کا زیادہ عمل دخل ہے

میں امید کرتا ہوں کہ امہ کے تمام علماء اپنے جمعہ کے خطبات میں بالخصوص اس طرح کے اخلاق سوز مظالم سے پردہ اٹھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے- مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا اور ہمارے بس میں ہے کہ مسجداقصی سے صرف 1میل کے فاصلے پر ہونے والے اس بیہودہ اور عریاں نام نہاد مقابلے کو اپنی بھرپور اور منظم کوشش کے ذریعے منعقد ہونے سے روک لیں گے-

میں جانتا ہوں کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جنکے خیال میں اس ایشو کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی- لیکن انہیں یاد رہے کہ اخلاقی پستی میں گرنے والے کبھی اپنے دشمن کے سامنے ٹک نہیں سکتے- مجھے یقین ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں ایک عریاں یا نیم عریاں(برہنہ یا نیم برہنہ) گروہ کا ایک حملہ  اسرا ئیل کے سینکڑوں فضائی حملوں سے بھی بڑھ کر نقصان دہ ہوسکتا ہے-

صہیونی فضائی حملوں میں انسان اور عمارات ہی تباہ ہوتی ہیں لیکن اخلاقی تنزلی کسی معاشرے کی بحیثیت مجموعی بربادی  کا سبب بن سکتی ہے- نہ کسی کو یہ حق ہے اور نہ کسی کو یہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ قابض یہودیوں کو ہمارے مادر وطن میں ہماری عفت مآب خواتین کی عزت یا عصمت کا کھلواڑ کرنے کی اجازت دے-باغیرت فلسطینی روشن خیالی اور میانہ روی کے نام پر غیرت کا جنازہ اٹھنے کی اجازت نہیں دیں گی—انشاء اللہ

مختصر لنک:

کاپی