دنیا میں جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی کی سطح پڑھتی جا رہی ہے اور آئے روز نئے نئے ادارے انسانیت کی خدمت اور انسانوں کے تحفظ کے لیے تشکیل پارہے ہیں وہیں انسانیت کش اور انسانی حقوق کے علی الرحم عملی فلسفہ حیات پر یقین رکھنے والے گھر، اقوام ہی نہیں عالمی سطح پر قوت کا درجہ اختیار کرنے والے ممالک بھی انسانوں کی آزادیوں، حقوق اور جان و مال زدو گھر سب کچھ کے درپے ہیں-
دوسری جانب جو قوتیں سمجھتی ہیں کہ ان کی دھاک اور رعب و دبدبہ ہی صرف اس صورت باقی رہ سکتا ہے کہ ان کی قبضے اور جارحیت کی خونی مہمات جاری رہیں- وہ باہم قریب تر ہونے اور الکفر ملت واحد کا روپ دھارنے میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کرتے- ایسا ہی ایک اکٹھ اسرائیل اور بھارت کا ہے-
بچھڑے اور بتوں کے یہ پجاری انسانوں سے بیزاری کے کلچر کے نمائندہ دونوں ملکوں نے اپنے ہاں بھی نسل پرستی کو آج کی مہذب دنیا میں بھی ایک کریہہ روائت کے طور پر جاری رکھا ہوا ہے اور اچھائی کے خلاف ایکا کرنا ہی نہیں بلکہ ہر اس آواز کو بلند ہونے سے پہلے ہی دبا دینا ان کا اجتماعی ہدف ہے جو حق کے لیے بلند ہو، قبضے سے نجات کی راہ پر گامزن ہو، انسانوں کو آزادی کی طرف مائل کرے اور یہود و ہنود کی فرسودہ جکڑبندیوں کے خلاف نہ صرف بغاوت پر مائل ہو-
یہ بغاوت خواہ نظری سطح کی ہے ان دونوں نسل پرست اقوام کے لیے قابل قبول نہیں- یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت باہم شیر و شکر بھی ہیں اور مسلمانوں کے وسائل اور آزادیوں کو شیر مادر سمجھ کر قابض ہو جانا اپنا حق جانتی ہیں اس قبضہ اپروچ کو جاری رکھنے کے لیے نت نئے سکیمیں تیار کرنا ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر آس پاس کے ہمسایوں کو زک پہنچانا، زبردستی غلام بنائے گئے انسانوں کے خلاف نت نئی تدبیریں کرنا ان کے لیے لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے- چھوت چھات اور نسل پرستی کے قائل ان دونوں ملکوں کے اہداف میں ایک اہم ہدف مملکت خداد پاکستان ہے- اسے ہدف بنانے کی اہم ترین وجہ اس ملک کا اساسی نظریہ اور جوہری اثاثہ ہے- یہ دونوں باتیں ان دونوں ملکوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں- ان دونوں کی ناآسودگیاں بھی مشترک ہیں کہ دونوں نے اپنے اپنے ہاں فلسطین و کشمیر پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے-
دونوں نے یہ قبضہ مقامی آبادیوں کی مرضی کے خلاف فوجی طاقت سے قائم کیا ہوا ہے اور دونوں نہ صرف انسانوں کے خون کی پیاسی ریاستیں ہیں بلکہ مذہب اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کی بھی ان کی گھٹی میں موجود ہے- ایک مسجد اقصی کے درپے ہے دوسری نے بھی بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد ان گنت مساجد کو ہدف بنا رکھا ہے-
ماہ نومبر میں اسرائیلی ائیرفورس نے بھارتی فضائیہ کے افراد کو ایک تفصیلی تربیتی عمل سے گزارا ہے یہ بھی اسی تناظر کی ایک کڑی معلوم دیتی ہے- اس تربیتی پروگرام کی اہمیت اس ماحول میں اور بڑھ جاتی ہے جب پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف عالمی سازش کاروں اور صہیونی لابی کے زیر اثر اقوام نے پہلے ہی ’’انٹ شنٹ‘‘ باتیں پھیلا رکھی ہیں- اس لیے ان شیطانی رشتہ داروں کی چالوں پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے اور جہاں جہاں بھی ان کے سفارتخانے اور قونصل خانے ہیں- پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کو ان کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے حتی کہ اسرائیل کے رابطے میں رہنے والے گروہوں، شخصیات اور تنظیموں کے افراد بھی شک سے بالاتر نہیں سمجھے جانے چاہئیں یہ چیز گولڈ سٹون رپورٹ پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں رائے شماری کے التواء کے تناظر میں مزید واضح ہوگئی ہے کہ کون اسرائیل کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہے اور اسرائیل ایسے افراد اور گروہوں سے کہاں کہاں کیا کیا کام لے سکتا ہے-
گویا جمہوریت کو دوسری اقوام کے عقائد، اقدار، تہذیبی روایات اور شعائر کے خلاف استعمال کرنے کی مکروہ حرکت کی گئی ہے- مساجد یا مساجد کے میناروں کے خلاف اگر یہ انداز آگے بڑھنے لگا تو فلسطین اور بیت المقدس کے ساتھ ساتھ بھارت اور بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں مسلمانوں کے آثار مٹانے کی مہم بھی تیز ہوسکتی ہے- جیسا کہ رواں سال کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس کی عرب شناخت اور کلچر کے حوالے سے تقریبات کی اجازت دینے سے انکار کیا اور خود پورے بیت المقدس کو یہودیانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے-
ضروری ہے کہ امہ کے اعلی ترین فورمز اس صورت حال کا جائزہ لے کر اجتماعی حکمت عملی طے کریں- ورنہ اسرائیل، بھارت اور ان کی سرپرست اقوام مسلمانوں اور ان کے مذہبی ورثے کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ سرگرم ہوسکتی ہیں-