شنبه 10/می/2025

فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا غلامانہ سلوک

بدھ 9-دسمبر-2009

فلسطین اور دنیا بھرکی انسانی حقوق کی تنظیمیں مختلف اوقات میں اسرائیل کے 1948ء میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی شہروں میں مقیم فلسطینیوں سے روا رکھنے جانے والے ظالمانہ سلوک کی نقاب کشائی کرتی رہی ہیں تاہم ایسا پہلی بارہوا ہے کہ اسرائیل ہی کی ایک تنظیم” تنظیم برائے شہری حقوق” نے مقبوضہ علاقوں میں سکونت پذیر عرب شہریوں کے ساتھ اسرائیل کے نسل پرستانہ اور غلامانہ رویے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے حال ہی میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی شہروں کے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومتوں کی ظالمانہ پالیسیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ اس امر سے پردہ اٹھاتی ہے کہ اسرائیل کا روز اول سے فلسطینیوں کے ساتھ رویہ معاندانہ رہا ہے، ایک ہی علاقے میں بسنے والے یہودیوں اور فلسطینیوں کو دو الگ الگ مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کو سرکاری ملازمتوں، تجارت، کارو بار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے اور کام کرنے کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ اس سلسلے میں صرف اسرائیلی حکومتیں ہی بلکہ غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے بھی فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی رویے میں پیش پیش ہیں۔

اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی جاتی رہی ہے جس سے مقبوضہ شہروں کے عرب مکینوں پر قدغنیں لگانے اور انہیں بنیادی شہری حقوق سے محروم کیا جاتا رہا ہے۔ فوج اور سفارت خانوں فلسطینیوں کی ملازمت کے لیے ایسی کڑی شرائط عائد کی گئی ہیں جن سے ان کا ان اداروں میں جانے کے راستے ہی بند کردیے گئے ہیں۔ انہی ظالمانہ شرائط میں یہ امر شامل کیا گیا ہے کہ فلسطینی یا تواسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم کریں یا اس کے صہیونی نظریے کی حمایت کریں، فلسطینی شہری جو نسلوں اور صدیوں سے انہی علاقوں میں آباد رہے ہیں ان کے لیے باہر سے آئے یہودیوں کی حاکمیت یا صہیونی نظریہ حیات کو تسلیم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ان دونوں شرائط کو تسلیم کرنے کا واضح مطلب اسرائیل کی غلامی قبول کرنا ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ نسلی پرستانہ سلوک میں جہاں حکومتیں اور غیر سرکاری ادارے پیش پیش  ہیں وہیں مختلف ممالک کے یہودی گروہ بھی (جنہیں روس، ایتھوپیا یا یورپی ممالک سے فلسطین میں لا کر بسایا گیا ہے) اس میں حکومت سے پیچھے نہیں۔

فلسطینی آبادیوں کے اندر رہتے ہوئے یہودی آباد کار فلسطینیوں کو ایک کم تراقلیت تصور کرتے اور ان کے ساتھ اسی طرح کا سفاکانہ سلوک کرتے ہیں۔ یہ لوگ راہ چلتے فلسطینیوں اور ان کے گھروں پر حملے کر کے اپنی فلسطین دشمنی اور نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں، جبکہ ان کے اس نوع کے اقدامات میں سرکاری اداروں کا انہیں تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔

مقبوضہ فلسطین کے شہریوں کے حقوق پر قدغنیں لگانے کی ایک بڑی مثال”قانون نکبہ” کی ہے۔ یہ قانون اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) نے چند برس قبل منظور کیا تھا جس کے بموجب ہر اس فلسطینی کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی جو اسرائیل کے قیام کو فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی آزمآئش اور مصیبت قرار دے گا، اس کے علاوہ جو افراد قیام اسرائیل کے حوالے سے تقریبات منعقد کریں گے، یا اسرائیل کے خلاف تشدد پر اکسآئیں گے تو انہیں نہ صرف قید کیا جائے گا بلکہ ان کی جائیدادیں ضبط اور اہل خانہ کو علاقہ بدر کرنے کی سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔

دیگر حقوق پر قدغنیں لگانے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار رائے کی پابندی بھی شامل ہے۔ شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے، احتجاج کرنے، مظاھرے اور سیمینار کرنے پر پابندی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں کو فلسطین کے دیگر علاقوں کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کرنے کی اجازت بھی نہیں،
اس کی مثال گذشتہ برس دسمبر میں غزہ پراسرائیلی حملے کے بعد  اس وقت دیکھنے میں آئی جب قابض اسرائیلی فوج نے غزہ پر جارحیت کے خلاف نکالے گئے احتجاجی مظاہروں  کے شرکاء پر وحشیانہ تشدد کیا۔ غیر مسلح اور نہتے شہریوں پر گولیاں چلائیں گئیں اور زیریلی آنسو گیس استعمال کرکے بڑی تعداد میں شہریوں کو شہید اور زخمی کر دیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی ابتری کے حوالے سے رواں سال خاص اہمیت رکھتا ہے۔ امسال قابض اسرائیل نے جس طرح فلسطینیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے مظاہرے  کیے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ اسرائیلی عدالتیں بھی مقبوضہ فلسطین کے ان شہریوں کے حقوق کی فراہمی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں جنہیں اسرائیل نے ایک کم تراقلیت قرار دے کر ان پر غلامی کا طوق مسلط  کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی مختلف عدالتوں کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق سے کئی فیصلے بھی کیے گئے تاہم ان پرعمل درآمد تو درکنارعدالتیں مظلوم فلسطینی عوام کو کوئی ایک حق بھی فراہم نہیں کر سکیں۔

مختصر لنک:

کاپی