پنج شنبه 01/می/2025

جھوٹوں کا آئی جی: نیتن یاہو

اتوار 22-نومبر-2009

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن ہایو ایک ایسے فسطائیت پسند متعصب خطیب ہیں جن کے خیال میں تمام قابل لحاظ امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیریہودیوں پر یہودیوں کو مسلط کردیا جائے-

وہ دنیا کا نمبر ایک جھوٹا بھی ہے جس کے خیال میں بشمول یہودیوں کے دنیا بھر سے جھوٹ بولنا اسرائیلی نسلی پرستانہ قتل عام کے خلاف پہلی دفاعی لائن ہے- حقیقت یہ ہے کہ جس طرح نازی جرمنی نے یورپ پر جنگ مسلط کرکے اپنے دفاع کی آڑ میں لاکھوں انسانوں کو قتل کردیا تھا بعینہ اسرائیل بھی اپنے ہمسایوں اور بالخصوص ظالمانہ صیہونی تسلط کے خلاف جدوجہد کرتے بے یارومددگار فلسطینیوں کو اس طرح کے حملوں کی دھمکیاں دے رہا ہے-

بلاشبہ نیتن یاہو جھوٹ بولنے کے مرض میں مبتلا ہے اور صرف جھوٹ ہی نہیں اس نے سازشی فرین بھی ورثے میں پایا ہے- نیتن یاہو کا دعوی ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل اسرائیل کو دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں-
 
اخبار ہرتنر نے ان کا بیان کچھ اس طرح سے شائع کیا ہے کہ ’’اسرائیل کو ایسے دشمنوں کا سامنا ہے جس کے ارادے ڈھکے چھپے نہیں جو پہلے باقاعدہ ہم  پر حملہ کرتے ہیں اور پھر ہمارے دفاع کے حق پر حملہ آور ہوتے ہیں‘‘ لیکن کیا واقعی اسرائیل کو خطرات لاحق ہیں؟ یقینا یہ دعوی جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ اسرائیل کو خطرات لاحق نہیں بلکہ وہ دنیا کے لئے خطرے کا باعث ہے- جوہری‘ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے بہت بڑے ذخیرے کے حامل اسرائیل اپنے قیام کے بعد پہلے دن سے ہی دیگر ممالک پر حملے کرتا چلا آ  رہا ہے- سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں سے ان کی زمینیں چھین کر‘ ان کے گھروں اور قصبوں کو ملیامیٹ کر کے اور انہیں ان کے  آبائی علاقوں سے بیدخل کر کے بطور قوم ان کا وجود ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے-

اسرائیل شروع دن سے مسلمانوں کی نسل کشی کے وحشیانہ منصوبے پر عمل پیرا تھا اور یہ کام  آج بھی جاری ہے- غالباً اسرائیل وہ واحد ملک ہے جو  آدم بو کرتا پھرتا ہے‘ جھوٹ بولتا ہے‘ سکول جاتے بچوں کو قتل کرتا ہے اور پھر اپنے حق کا دفاع‘ ہولوکاسٹ اور دہشت گردی کا واویلا کرتا ہے- اپنی اسی جھوٹی کہانی میں نیتن یاہو نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے جتنے راکٹ حملے یہودی آبادیوں پر داغے گئے ہیں جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی کی طرف برطانیہ پر حملے کے بعد آج تک کسی ملک نے اتنے راکٹ نہیں پھینکے-

واقعی اگر فحش نگارانہ جھوٹ کی کوئی اصطلاح موجود ہے تو نیتن یاہو اور ان کے ساتھی ہی اس کے معنی بتلا سکتے ہیں کیونکہ کوئی بھی ذی شعور شخص ان مجبور و بے بس فلسطینیوں کی جانب سے پھینکے جانے والے پراجیکٹ ٹلز کا موازنہ جرمن فوج کے لندن اور دیگر برطانوی شہروں پر حملوں کے دوران پھینکے گئے راکٹوں سے نہیں کرسکتا اور پھر جرمنی کے برطانیہ پر راکٹ حملوں کے دوران تو چند ماہ میں ہزارو لوگ مارے گئے لیکن فلسطینیوں کی اسرائیل  آبادی پر مسلسل 8 سالہ راکٹ باری کے دوران 10 افراد بھی ہلاک نہیں ہوئے- اس کے علاوہ فلسطینیوں نے سالہا سال کے راکٹ حملوں میں کو جو نقصان پہنچایا‘ صیہونی فوج کے ایف پندرہ اور ایف سولہ جیسے لڑاکا گیاروں کے ایک حملے میں اس سے زیادہ فلسطینی شہید ہوجاتے ہیں-

اصل میں گزشتہ 10 سال کے دوران ہوا بھی یہی کچھ- اسرائیلی فضائیہ اور توپخانے کی بمباری سے ہزاروں بے گناہ فلسطینی شہید ہوئے اور لاکھوں زخمی ہوئے- درحقیقت محتاط اندازے کے مطابق یہ بات مکمل وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فلسطینی راکٹوں سے قتل ہونے والے ہر یہودی کے مقابلے میں اسرائیلی قابض فوج ہے- اسرائیلی دفاعی افواج کہا جاتا ہے – انہوں نے ایک ہزار فلسطینیوں کا خون کیا جن میں سے اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی- اسرائیل کی مجرمانہ درندگی کا مظاہرہ گزشتہ سردیوں کے دوران اس وقت سامنے آیا جب مہلک اور جدید امریکی ٹیکنالوجی سے لیس سینکڑوں اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری کی اور نہتے فلسطینیوں پر سفید فاسفورس اور یورینیم کے بم گرائے-

غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل عام کا شیطانی اور حیونی کھیل تو نازیوں کی کارروائیوں سے بھی کہیں زیادہ گھناونا جرم تھا- نازیوں نے تو اس وقت کے معیارات کے مطابق ایک سپرپاور کی ایسی آبادیوں پر بمباری کی جن کے پاس بچاو کے وسائل موجود تھے لیکن ہمارے دور کے نازیوں نے تو ایک ایسی قوم کے مہاجرین کا قتل عام کیا جن کے پاس اپنے دفاع کی اہلیت تھی نہ بچاو کے لئے کوئی ذرائع وسائل-
 
درحقیت اسرائیل نے دسمبر میں جو کچھ غزہ کے لوگوں سے کیا اس کا موازنہ جرمنی کے اپنے دشمنوں کے ساتھ انتہا پسندانہ سلوک سے کیا جا سکتا ہے- دونوں واقعات میں نظریات کی بنیاد پر عام لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا‘ لہذا اس تناظر میں ’’عصر حاضر کے نازی‘‘ کی اصطلاح درست ہے- جس طرح آج نیتن یاہو جھوٹ بول رہے ہی اس طرح نازی جرمنی کے رہنماوں نے بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کی مادر وطن کو خطرات لاحق ہیں اور ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں دشمنوں کو ماریں یا پھر خود مر جائیں-

نیتن یاہو اور ان کے ساتھی جانتے ہیں کہ وہ دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں اور پھر اس ملک کے لئے تو دروغ گوئی کوئی مسئلہ ہی نہیں جس کی بنیاد ہی اس جھوٹ پر رکھی گئی ہو کہ یہاں فلسطینی قومیت کا کوئی وجود نہیں اور یہ کہ اسرائیل نے یہاں سے مقامی فلسطینی باشندوں کو نہیں نکالا- محولہ بالا استدلال کی روشنی میں دنیا بھر کے تمام انصاف پسند اور ایماندار مرد و زن کو اسرائیلی غلط بیانیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور جس شدت سے وہ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ان کا جواب دیا جانا چاہیے-

مختصراً یہ ہے کہ اسرائیل کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے اس فحش جھوٹ کو فلسطینیوں یا مشرق وسطی کے دیگر لوگوں کے خلاف ہولوکاسٹ کے لئے بطور لائسنس استعمال کر سکے- صیہونی ایسے کام کرنے کے عاری ہیں جو کوئی سوچ بھی نہ سکے- وہ نازیوں کے جیسا طرزعمل اپناتے ہیں کیونکہ ان کا ذین نازیوں جیسا ہے اگر کوئی فرق ہے تو صرف ناموں‘ جگہ اور حالات کا ہے-

مختصر لنک:

کاپی