شنبه 10/می/2025

اسرائیلی عقوبت خانوں میں اسیر فلسطینی نونہالوں کی حالت زار

اتوار 22-نومبر-2009

اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے- ان کے ساتھ دہشت گردوں ،تخریب کاروں جیسا رویہ اپنایا جاتا ہے- اسرائیلی جیل انتظامیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے- فلسطینی وزارت برائے امور اسیران نے بچوں کے عالمی دن کے موقع  پر رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں 18سال سے کم عمر 370 بچے قید ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں- وہ ادنی سے ادنی حقوق سے محروم  ہیں-
 
وزارت برائے امور اسیران کے ڈائریکٹر ریاض اشقر کے مطابق بچوں پر طرح طرح کا تشدد کیا جاتا ہے- انہیں نیند سے محروم رکھا جاتا ہےکبھی ان کا کھانا بند کردیا جاتا ہے تو کبھی اہل خانہ سے ان کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی جاتی ہے – بچوں کو گالیاں دینا تو اسرائیلی جیل حکام کا وطیرہ بن چکا ہے- صہیونی خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے کی غرض سے ان پر مختلف طریقوں سے دباو ڈالا جاتا ہے-
رپورٹ کے مطابق انتفاضہ اقصی کی تحریک کے دوران اسرائیلی فوج نے 7500سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا جن میں 85 فی صد اسکولوں کے طلبہ تھے- جن عقوبت خانوں میں ان بچوں کورکھا جاتا ہے وہاں کے کمرے کا طول و عرض کا حساب اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کمرے کم اور قبریں زیادہ لگتے ہیں- جیل کے کمروں میں تازہ ہوا کا گزر نہیں ہوتا- بچوں کو سورج کی روشنی نصیب نہیں ہوتی – کیڑے مکوڑے کمروں میں آزادی سے پھرتے رہتے ہیں-

بچوں کے لیے کھیل کا سامان مہیا کرنا تو درکنار بلکہ موسم کے مطابق کپڑے بھی مہیا نہیں ہیں – بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں- اسرائیلی حکومت نے بچوں کے خلاف جرمانہ اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے- اسرائیلی فوجی عدالتیں بالخصوص عوفر اور سالم کی عدالتیں اسیر بچوں کے اہل خانہ کے لیے معاشی عذاب ہیں وہ مختلف طریقوں سے بچوں پر جرمانہ عائد کرتے ہیں جس کی مالیت بسا اوقات اڑھائی ہزار ڈالر تک پہنچ جاتی ہے –

وزارت برائے امور اسیران کے ڈائریکٹر ریاض اشقر ریاض اشقر کا کہنا ہے کہ قید سے فلسطینی بچے نفسیاتی طور پر بہت متاثر ہوتے ہیں- یہ نفسیاتی بیماری صرف مدت قید تک محدود نہیں رہتی بلکہ جب وہ رہائی پاتے ہیں تو وہ نفسیاتی طور پر مریض ہوجاتے ہیں-رہائی پانے والے بچے اکثر اوقات نیند میں ڈر کر اٹھ جاتے ہیں- معاشرے سے ہم آہنگ ہوتا اور فطری زندگی کی طرف لوٹنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے- وہ تنہائی پسند بن جاتے ہیں جو بچے چند سال جیل میں گزار آئیں تو پڑھائی کی طرف لوٹنا ان کے لیے انتہائی دشوار ہو جاتا ہے-

رپورٹ کے مطابق فلسطینی اسیر بچوں کے مقدمے بین الاقوامی مجرموں کی طرح  مخصوص عدالتوں میں سنے جاتے ہیں اوران کے خلاف سخت فیصلے دیے جاتے ہیں جو کہ نہ ان کی عمروں کے مطابق ہوتے ہیں اور ان ہی ان کی کارروائیوں کے مطابق –
 
بچوں کا زیادہ سے زیادہ جرم اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ ہے کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کی خاطر مزاحمت کریں- اس جرم میں ان پر دہشت گردی کی طرح کے مقدمات بنائے گئے- اور ان کے خلاف وہی سلوک کیا گیا جو کہ بین الاقوامی مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جوسراسر بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے- رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیل حکام نے اسیر بچوں کی وہ آزادی بھی سلب کررکھی ہے جو بین الااقوامی قوانین کے مطابق انہیں حاصل ہے-

 

مختصر لنک:

کاپی