وزارت برائے امور اسیران کے ڈائریکٹر ریاض اشقر کے مطابق بچوں پر طرح طرح کا تشدد کیا جاتا ہے- انہیں نیند سے محروم رکھا جاتا ہےکبھی ان کا کھانا بند کردیا جاتا ہے تو کبھی اہل خانہ سے ان کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کردی جاتی ہے – بچوں کو گالیاں دینا تو اسرائیلی جیل حکام کا وطیرہ بن چکا ہے- صہیونی خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے کی غرض سے ان پر مختلف طریقوں سے دباو ڈالا جاتا ہے-
بچوں کے لیے کھیل کا سامان مہیا کرنا تو درکنار بلکہ موسم کے مطابق کپڑے بھی مہیا نہیں ہیں – بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں- اسرائیلی حکومت نے بچوں کے خلاف جرمانہ اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے- اسرائیلی فوجی عدالتیں بالخصوص عوفر اور سالم کی عدالتیں اسیر بچوں کے اہل خانہ کے لیے معاشی عذاب ہیں وہ مختلف طریقوں سے بچوں پر جرمانہ عائد کرتے ہیں جس کی مالیت بسا اوقات اڑھائی ہزار ڈالر تک پہنچ جاتی ہے –
رپورٹ کے مطابق فلسطینی اسیر بچوں کے مقدمے بین الاقوامی مجرموں کی طرح مخصوص عدالتوں میں سنے جاتے ہیں اوران کے خلاف سخت فیصلے دیے جاتے ہیں جو کہ نہ ان کی عمروں کے مطابق ہوتے ہیں اور ان ہی ان کی کارروائیوں کے مطابق –
بچوں کا زیادہ سے زیادہ جرم اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ ہے کیا ان کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے وطن کی آزادی کی خاطر مزاحمت کریں- اس جرم میں ان پر دہشت گردی کی طرح کے مقدمات بنائے گئے- اور ان کے خلاف وہی سلوک کیا گیا جو کہ بین الاقوامی مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جوسراسر بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے- رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیل حکام نے اسیر بچوں کی وہ آزادی بھی سلب کررکھی ہے جو بین الااقوامی قوانین کے مطابق انہیں حاصل ہے-