اسرائیلی حکومت نے اسلامی تحریک کے سربراہ الشیخ رائد صلاح پر مقبوضہ بیت المقدس میں داخل ہونے پر پابندی عائد کررکھی ہے، جس کا مقصد انتہا پسند یہودی جماعتوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے- فلسطینیوں، مسلمانوں اور بین الاقوامی برادری کو بیت المقدس سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں- ان خیالات کا اظہار مسجد اقصی کے خطیب الشیخ عکرمہ صبری نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- انٹرویو کے متن کا اردو ترجمہ زائرین کے پیش خدمت ہے-
محترم ڈاکٹر عکرمہ صبری صاحب سب سے پہلے تو ہمیں حالیہ واقعات سے آگاہ کی جیے کہ انتہا پسند صہیونی جماعتوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصی کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں اس قدر اضافہ کیوں ہوا ہے؟
قابض اسرائیل جانتا ہے کہ فلسطین کے سیاسی حالات اس کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کے لیے مناسب ہیں- اس نے مسجد اقصی اور مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی شہریوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں- اسرائیلی حکومت کو گمان تھا کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد اقصی اور مقبوضہ بیت المقدس میں زمینی حقائق کو اپنے حق میں تبدیل کرلے گی، انتہا پسند یہودیوں نے گزشتہ تین ماہ میں بہت سازشیں کیں، لیکن مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے مسجد میں اعتکاف کرنے والے فلسطینی نوجوانوں نے ان کی سازشوں کو ناکام بنادیا- بالخصوص یہودی مذہبی تہواروں عید تفران اور عید عرش کے موقع پر صہیونی جماعتوں کی کارروائیاں عروج پر تھیں-
انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کارروائیوں کا مقصد کیا ہے؟
انتہا پسند یہودیوں کی یہ کارروائیاں روزانہ کا معمول بن گئی ہیں- انتہا پسند یہودی مسجد اقصی کو تقسیم کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع استعمال کررہے ہیں- وہ مسجد اقصی کو الخلیل میں مسجد ابراہیمی کی طرح تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جس کا ایک حصہ مسلمانوں اور دوسرا یہودیوں کے لیے مخصوص ہے- اس سازش کی تکمیل کے بعد وہ مسجد اقصی کو شہید کر کے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا ارادہ رکھتے ہیں-
کیا اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسجد اقصی کے نیچے نئی کھدائی یا اندرون زمین راستے بنائے گئے ہیں اور ان کھدائیوں اور یہودیوں کی جانب سے مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کارروائیوں کے درمیان کوئی ربط ہے؟
حال ہی میں نئی کھدائیوں کا انکشاف ہوا ہے- سلوان علاقے میں نئی کھدائیاں کی گئی ہیں جو کہ مسجد اقصی کی جنوبی دیوار سے صرف 20 میٹر کے فاصلے پر ہیں- ان تمام کارروائیوں کا مقصد مسجد اقصی کو شہید کرنا ہے- یہودیوں کی طرف سے مسجد اقصی میں داخل ہونے کی کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں-
مسجد اقصی کو حقیقی خطرہ کس سے ہے، اسرائیلی حکومتی ادارے، انتہا پسند یہودی جماعتوں یا انفرادی اقدامات سے؟
جواب: صہیونی بنیامین نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی حکومت اور انتہا پسند یہودی جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اسرائیلی حکومت مسجد اقصی مسجد اقصی کے حوالے سے انتہا پسند یہودی جماعتوں کے مؤقف کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ ان سے تعاون کرتی ہے-
مسجد اقصی کو بند کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو کہ مسجد اقصی کی تقسیم کے لیے پہلا قدم ہے- آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
بیت المقدس میں اسلامی تحریک کے کارکن، سول سوسائٹی اور ہر وہ شخص جو اسلامی حمیت رکھتا ہے، مسجد کو تقسیم کرنے کی سازش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا- مسجد اقصی کے ایک ایک پتھر اور ایک ایک ذرے کی حفاظت کی جائے گی- مسجد کی ایک انچ سے دستبردار نہیں ہوں گے-
انتہا پسند یہودیوں کی بہت سے مقاصد ہیں وہ مسجد اقصی کی جگہ نام نہاد ہیکل سلیمانی تعمیر چاہتے ہیں- وہ مسجد اقصی کو شہید کر کے اس کے پتھر مکہ مکرمہ روانہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو بیت المقدس سے نکال کر مکہ بھیجنا ہے تاکہ بیت المقدس میں صرف یہودی رہیں-
صہیونیوں کی جانب سے مذہبی رسومات کی ادائیگی جیسے شمع دان رکھنا، ہیکل سلیمانی کا ماڈل بنانا یا مسجد اقصی کے صحن یا اس کے قریب معبد تعمیر کرنا، ان مذہبی رسومات کے مخصوص اہداف کیا ہیں؟
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ یہودی مسجد اقصی کے زمینی حقائق تبدیل کرنا چاہتے ہیں- انتہا پسند یہودیوں نے مذہبی تہوار عید عرش کے موقع پر مسجد اقصی کے صحن میں نماز پڑھنے اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے کی کوشش کی لیکن جذبہ ایمانی سے سرشار فلسطینی نوجوانوں نے یہودیوں کی کوششوں کو ناکام بنادیا، جس کی وجہ سے اسرائیلی پولیس نے فلسطینی نوجوانوں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ ان پر فائرنگ بھی کی، کیونکہ صہیونیوں کی سازش ناکام ہوگئی تھی-
مسجد اقصی کے دفاع کے لیے وہاں پر ٹھہرنا ایک جرات مندانہ اقدام ہے- کیا اس پر عمل ممکن ہے؟
مسجد اقصی کے دفاع کے لیے ٹھہرنا بہت آسانی سے ممکن ہے- ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں سے مسجد اقصی کی طرف رخت سفر باندھنے کا مطالبہ کیا ہے اور ہم بھی یہی کررہے ہیں- اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ ایک جرات مندانہ اقدام ہے- اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر ہمیشہ عمل کرنے کی توفیق دے- ہم ہر جمعرات کے دن مسجد اقصی میں اعتکاف کرتے ہیں تاکہ یہودیوں کو مسجد اقصی میں داخل ہونے سے روکا جائے-
مقبوضہ فلسطین میں اسلامی تحریک کے سربراہ الشیخ رائد صلاح اور ابو شیخہ جیسے دیگر رہنماؤں پر مقبوضہ بیت المقدس میں داخل ہونے کی پابندی عائد کرنے کا اسرائیلی حکومت کا کیا ہدف ہے؟
ان تمام کارروائیوں کا مقصد انتہا پسند یہودی جماعتوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے- مسجد اقصی کے دفاع کے لیے اسلامی تحریک کا قائدانہ کردار ہے- اس نے مسجد اقصی کو لاحق خطرات کے متعلق مسلمانوں کو متنبہ کیا، اس نے مسجد اقصی کے خلاف صہیونی سازشوں کو بے نقاب کیا- وہی مسجد اقصی کے دفاع کے لیے فلسطینیوں کو اکٹھا کرتی ہے-
مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے فلسطینی، اسلامی اور عالمی سطح پر کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
فلسطینیوں، مسلمانوں اور بین الاقوامی برادری کو بیت المقدس سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ جب تک بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ موجود ہے مسجد اقصی خطرے میں رہے گی- مسلمان حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بیت المقدس اور اسلامی مقدسات کی حفاظت اور بیت المقدس کے شہریوں کی امداد کے لیے بجٹ مقرر کریں جو کہ کم از کم پچاس کروڑ ڈالر ہو-